گیارہ سو ارب روپے کم نہیں ہوتے۔ بہت بڑی رقم ہے جس کا کراچی کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے۔ شاید آج تک کسی بھی شہر کی ترقی اور بہتری کے لیے مختص کی جانے والی سب سے بڑی رقم۔
لیکن ایک نظر کراچی کے مسائل پر بھی ڈالیں تو اس سربفلک مینار کو سر اٹھا کر دیکھنے سے دستاریں گر جاتی ہیں۔ گیارہ ہزار ارب سے کیا کم ہوں گے۔ گیارہ ہزار ارب مسائل کے اس عفریت کو کسی طرح گیارہ سو ارب کے بورے میں بند کر سکیں تو کمال ہو جائے۔ پہلی ایسی بوری بند لاش وجود میں آ جائے جس پر سب کو خوشی ہو۔
کسی شہر کے ساتھ اتنی زیادتیاں، ایسا ظلم نہیں ہوا جیسا کراچی کے ساتھ ہوا۔ ظلم بھی ہر قوم، ہر طبقے کی طرف سے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں‘ اور سب کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ کم یا زیادہ کی بات الگ، لیکن سب کے ہاتھ سرخ کیچڑ سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ نون، مسلم لیگ قاف، تحریک انصاف۔ بیش و کم کا معاملہ الگ لیکن سب حکمرانوں کی گردنیں رنگی ہوئی ہیں‘ چاہے وہ کوئی آمر ہو یا سویلین۔ کسی نے نسلی تعصب کا جن آزاد کیا۔ کسی نے سیاسی مفاد کے لیے قاتلوں کو ہلا شیری دی۔ کسی نے اپنی کرسی کو مضبوط تر کرنے کے لیے بھتہ خوری، اغوا، قتل، ملک دشمنی اور کھلی غداری تک کی طرف سے آنکھیں بند رکھیں۔ کراچی ان گناہوں کو کیسے معاف کرسکتا ہے؟ وہ بے گناہ جو ان خود غرضانہ فیصلوں کی بھینٹ چڑھے کیا ان کے گھرانے کبھی یہ بھول سکیں گے؟ کراچی ذہین ترین، قابل ترین اور تعلیم و تمدن میں تمام شہروں پر فائق تھا‘ لیکن تیس چالیس سال میں اس شہر کی نسلیں اجاڑ دی گئیں۔ معاش اور امن کے لیے لوگ دوسری، تیسری ہجرت پر مجبور کر دئیے گئے۔ وہ شہر جو سب سے زیادہ ریونیو ملک کو دیتا تھا‘ جہاں سب سے زیادہ صنعتیں اور صنعت کار موجود تھے‘ جو سب سے زیادہ غریب پرور تھا‘ اسے شہروں میں سب سے زیادہ انسان کش بنا کر رکھ دیا گیا۔ ایک بار زمین دلدلی ہو جائے تو ہر قسم کے سانپ، بچھو اور حشرات الارض نکل آتے ہیں جن کی ایک نسل اور ایک طرح کا زہر بھی نہیں ہوتا۔ کراچی کی زمین حکمرانوں نے دلدلی کی ہے۔ ہر محب وطن کو شرم اور گھن آتی تھی جب وہ بھتہ خوروں اور ڈاکوؤں کے سامنے ہاتھ باندھ کر ان کی تعریفیں کرتے نظر آتے تھے۔ شاید ان میں سے کسی کو اب احساس ہوتا ہوکہ وقتی فائدوں کے عوض انہوں نے دائمی نقصان خریدا۔ اپنے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی۔
بات سچ کہنی چاہیے اور سچ کہنے پر گالیاں سہنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ جماعت اسلامی وہ سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس نے اس دور ابتلا میں جانیں دیں‘ سیاسی نقصانات اٹھائے‘ دھمکیاں سہیں‘ انتہائی خوف کے ماحول میں زندگیاں گزاریں لیکن دونوں مسلم لیگوں اور پیپلز پارٹی کی طرح اقتدار کی سیاست نہیں کی۔ نعمت اللہ خان کو میئرشپ ملی تو انہوں نے انتھک محنت سے کراچی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ جماعت کے بعد اگر کسی سیاسی جماعت کا کردار قابل تعریف رہا یا یہ کہہ لیں کہ اس پر کم چھینٹے ہیں تو وہ تحریک انصاف ہے۔ عمران خان صاحب وہ پہلے رہنما تھے‘ جنہوں نے کراچی کے انتہائی خوف و ہراس کے زمانے میں ڈٹ کر قاتلوں کو قاتل کہا اور ان کے خلاف ہر ممکن قدم اٹھایا۔ وہ قدم جو اس زمانے کے حالات کو دیکھیں تو کسی کے لیے ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ اس کا صلہ عمران خان صاحب کو ملا۔ 2018 کے انتخابات میں کراچی نے اتنی بڑی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستیں پی ٹی آئی کو پیش کیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ 21 میں سے 13 قومی اسمبلی کی سیٹیں تحریک انصاف کو ملیں حالانکہ بعض ایسے امیدواروں کو بھی ٹکٹ دیا گیا‘ جن کے بارے میں عام ووٹر کی رائے اچھی نہیں تھی‘ لیکن پی پی پی اور ایم کیو ایم سے مایوس کراچی کے ووٹرز نے صرف عمران خان اور ان کے نشان کو اہمیت دی۔ اس کا تقاضا یہ تھاکہ ابتدائے اقتدار ہی سے کراچی کو فراموش نہ کیا جاتا اور جو توجہ اب دی گئی ہے وہ پہلے دی گئی ہوتی‘ لیکن یہ ایک بدنما داغ پی ٹی آئی پر رہے گا کہ دو سال کراچی ان کی منصوبہ بندی میں نظرانداز رہا‘ اور یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ اس مدت میں وزیر اعظم نے کراچی کے دورے بھی اتنے نہیں کیے جتنے اپنی سیاسی گرفت مضبوط تر کرنے کے لیے ضروری تھے۔
سندھ میں سیاسی طور پر اہم جماعتیں دو ہی تھیں‘ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی۔ انہی جماعتوں سے کچھ امید ہوسکتی تھی اور انہوں نے ہی سندھ کو جی بھر کے غارت کیا۔ ایم کیو ایم نے اپنے آغاز سے کراچی کے حقوق کے نام پر اس شہر کو ہر سطح پر جتنا پامال کیا، اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ شور‘ ہنگامہ بے پناہ اور کام؟ مصطفی کمال کا مختصر سا دورانیہ چھوڑ دیں تو پیچھے کیا باقی بچتا ہے؟ ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکمرانی سے بدترکارکردگی کسی اور کی نہیں ہوسکتی۔ اس میں کوئی ان کا مقابلہ کرسکتا ہے تو پیپلز پارٹی۔ ایک طویل عرصہ صوبائی اور وفاقی حکمرانی کے باوجود وہ کراچی کو نظرانداز کرتے رہے‘ اور معاملہ صرف کراچی کا ہی نہیں پورے سندھ میں کہیں کسی شہر میں ترقی نظر نہیں آتی۔ آپ صرف کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر کے تین بڑے شہروں کی حالات ہی دیکھ لیں‘ جنہیں حالات زار کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔
حالیہ بارشوں نے تو شہر اور شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ سرکاری نقصانات بھی اربوں میں ہوں گے لیکن جو شہریوں کی ذاتی املاک، گھروں، گاڑیوں، دفتروں، گوداموں میں نقصان ہوئے‘ وہ بھی بے حدوحساب ہیں۔ کورونا نے صنعت کاروں، کاروباری طبقے اور عام مزدور کی پہلے ہی کمر توڑ رکھی تھی۔ اب ان نقصانات نے معلوم نہیں کتنوں کو مکمل کچل کر رکھ دیا ہوگا۔ اگر صوبائی حکومت اس قابل ہوتی کہ وہ کسی درجے میں یہ نقصانات پورے کرسکتی جو زیادہ تر اس کی نااہلی اور دانستہ غفلت کے نتیجے میں ہوئے‘ تو تلافی ہوسکتی تھی لیکن وہ تلافی تو کیا، اعتراف تک کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ گیارہ سو ارب روپے مختلف منصوبوں پر ایک مشترکہ کمیٹی کی زیر نگرانی خرچ ہوں گے اور وہی ان منصوبوں پر عمل درآمد کی نگرانی بھی کرے گی۔ جس طرح کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں‘ ان سے معلوم ہورہا ہے کہ فوج بھی اس پورے عمل میں بلا واسطہ یا بالواسطہ یا ضمانت کنندہ کے طور پر شریک ہے۔ یہ بات ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے اہم ہے کیونکہ سیاسی محاذ آرائی میں ایک دوسرے پر الزام تراشی ان جماعتوں کا ایک پرانا طریقہ ہے جو ابھی جاری ہے۔
'دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک‘ کا معاملہ کراچی کے اس پیکیج کے بارے میں درست تر ہے۔ ابھی کسی کام کی تعریف کرنا مشکل ہے کیونکہ حکمرانوں اور ان کے وعدوں، دعووں اور اعلانات کو سب بھگت چکے ہیں اور بھگت رہے ہیں۔ جب تک واقعی کام ہوتا نظر نہ آئے یا اس کے ثمرات دکھائی نہ دیں کچھ بھی یقین اور اعتماد سے نہیں کہا جاسکتا۔
یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے تو یہ کہ یہ گیارہ سو ارب روپے اگر واقعی درست طریقے سے خرچ ہوں اور ان سے وہ بہتری آجائے جس کے لیے کراچی کئی عشروں سے ترس رہا ہے تو اس شہر کی اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ایسے کئی گیارہ سو ارب روپے ملک کو چند سال میں کما کر دے سکتا ہے۔ اگر بدامنی، قتل، لوٹ مار، سیوریج، پانی، شہری سہولیات، ٹریفک، پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ ہشت پا عفریت، جو اب تک کسی کے قابو نہیں آسکا، کسی طرح بند ہوگیا تو یہ جناب وزیر اعظم کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ یہ پہلی بوری بند لاش ہوگی جس کی خوشیاں سب مل کر منائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved