1962ء کی چین بھارت جنگ میں چینیوں کے ہاتھوں بھارتیوں کی اچھی خاصی مرمت تو ہو گئی لیکن کبڑے کو اس طرح لات راس آ گئی کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے سامنے کمیونسٹ چین کا ہوّا کھڑا کر کے پنڈت نہرو نے ہر وہ اسلحہ حاصل کرنا شروع کر دیا جو اس وقت کی عسکری مارکیٹ میں کہیں بھی موجود تھا۔ ایک جانب کمیونزم مخالف ممالک کی بھارت پر مہربانیاں برسنے لگیں تو دوسری جانب اس وقت کی دوسری بڑی عالمی طاقت سوویت یونین بھارت کی اتحادی بن کر اسے کیل کانٹے سے لیس کرنے میں جت گئی۔ سی آئی اے کے ریلیز کئے گئے کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس دیکھیں تو 25 ستمبر 1999ء کو اس کی جاری کردہ خفیہ رپورٹ میں یہ لکھا ملتا ہے کہ 62ء کی مختصر چین بھارت جھڑپ کے بعد پنڈت نہرو کو چین کے مقابلے میں دوسری طاقت بنانے کے لئے "The US and Uk rushed arms to India"۔ چین کا تو صرف نام تھا‘ بھارت کو بھر بھر کر اسلحہ دیا گیا اور ظاہر ہے کہ یہ پاکستان پر ہی برسنا تھا۔ دشمن کی جنگی قوت سے خوف زدہ ہونے کے بجائے دفاعِ وطن کے لئے برّی اور فضائی افواج کی طرح پاک بحریہ نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور صرف جنگ کے میدانوں، فضائوں اور سمندروں میں ہی نہیں بلکہ اہلِ وطن کی ہر مصیبت اور تکلیف میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو اپنا اعزاز سمجھا۔ کراچی سمیت سندھ بھرمیں حالیہ طوفانی بارشوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے جو تباہی مچائی ہے اس کے لئے جہاں رینجرز، پولیس اور برّی فوج کے افسر دن رات خدمات انجام دے رہے ہیں وہیں ان کے ساتھ پاک بحریہ بھی اپنے ہم وطنوں کی خدمت کے لئے ہمہ تن مصروفِ عمل ہے۔ پاک بحریہ صرف جنگ میں ہی نہیں بلکہ زمانۂ امن میں بھی سمندروں میں اس طرح تیار اور ہوشیار گھومتی رہتی ہے تاکہ وطن کے تجارتی اداروں، کارخانوں، فیکٹریوں اور مارکیٹوں کے ایکسپورٹ اور امپورٹ کے سلسلے کی راہ میں دشمن کی کسی چالاکی اور بدمعاشی کو رکاوٹ نہ بننے دے ۔ سمجھ لیجیے کہ پاکستان کی معاشی اور صنعتی ترقی میں پاکستان نیوی میری ٹائم سکیورٹی کے حوالے سے پیش پیش ہے۔
6 ستمبر پاکستانی تاریخ کی عزت و حرمت اور بہادری کا وہ مینار ہے جسے گزرے گو آج 55 برس ہو چکے ہیں لیکن لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ اسی جنگ میں 7 اور 8 ستمبر کو بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی ننھی منی لیکن جذبۂ جہاد اور شوقِ شہا دت سے سرشار پاک بحریہ اپنی اکلوتی غازی آبدوز کو بھارت کے اندر اس طرح گھسی کہ بھارتی بحریہ کا فخر سمجھا جانے والا دوارکا قَلعہ پاک بحریہ کی ضربِ کلیمی سے زمین بوس ہو گیا۔ ''آپریشن دوارکا‘‘ بھارت کے مقابلے میں پاکستان نیوی کا ایک مختصر سا اور پہلا جنگی معرکہ تھا۔سات ستمبر کو پاک بحریہ نے بھارت کے مغربی ساحلوں پر واقع دوارکا شہر کو اس کی تاریخی اہمیت کے تناظر میں اور یہاں موجود بھارت کے جنگی جہازوں اور ان کی مدد کے لئے اور کسی بھی متوقع آپریشن کے لئے پاکستان کی سمندری حدود میں بڑھنے والے جنگی جہازوں‘ برہم پتر، بیاس، کھکری، کرپان، کوتھار اور رنجیت کے علاوہ بھارت میں "Queen of the Orient" کے نام سے مشہور میسور فلیگ شپ جہاز کو کراچی کی جانب دیکھنے سے بھی محروم رکھا۔
دوارکا کو ٹارگٹ کرنے کے لئے کموڈور ایس ایم انورکی کمانڈ میں ایک Flotilla (ایک سے زائد جہازوں پر مشتمل فلیٹ) کو ٹارگٹ دیا گیا کہ جنوب میں کراچی بندرگاہ سے 300 کلومیٹر فاصلے پر بھارت کے ریڈار سٹیشن کو بمباری سے تباہ کر دیا جائے۔ 6 ستمبر کو پاک بھارت جنگ کا باقاعدہ آغاز ہونے سے پہلے ہی ''غازی آبدوز‘‘ کو احکامات دے دیے گئے تھے کہ اس نے ممبئی ہاربر کی کڑی نگرانی کرنی ہے جہاں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارت کے جنگی جہازوں کے متعدد فلیٹ اور سب سے بڑھ کر بھارتی بحریہ کا فخر سمجھا جانے والا ''وکرانت‘‘ طیارہ بردار جہاز بھی وہاں موجود تھا۔ غازی آبدوز کمانڈر کو واضح حکم تھا کہ اس نے چھوٹے موٹے جنگی جہازوں پر اپنی قوت صرف نہیں کرنی بلکہ صرف بڑے جنگی جہازوں اور ٹارگٹس کو تباہ کرنا ہے۔
آج اس معرکۂ شجاعت و سرفروشی کو پچپن برس ہو چکے ہیں لیکن دنیا بھر کی جنگی تاریخوں میں غازی آبدوز کی وہ مہارت یاد کی جاتی ہے کہ کس طرح اس نے ایسا محاصرہ کیا کہ بھارت کے کسی بھی جنگی جہاز کو ہمت نہ ہو سکی کہ وہ کھلے سمندر میں کسی بھی آپریشن کے لئے نکل سکے۔ جنگی زبان میں انڈیا کے جنگی جہازوں کو غازی آبدوز نے اس طریقے سے Bottling-up کئے رکھا کہ کموڈور ایس ایم انور کی کمانڈ میں پاکستان بحریہ کے Flotilla نے بھارت کا غرور سمجھے جانے والے دوارکا قلعہ کو تہس نہس کرتے ہوئے بھارتی بحریہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ بھارت زندگی بھر پاکستانی بحریہ کے لگائے گئے اس کاری وار کو بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھول سکے گا کیونکہ پاکستان کے جنگی جہازوں نے سترہ روز جنگ میں بھارتی بحریہ کے جنگی جہازوں کو ممبئی کے ساحلوں تک ہی محدود رکھا۔
ستمبر 1965ء کی سترہ روزہ جنگ میں پاکستان نیوی کی غازی آبدوز کا ذکر آتے ہی کمانڈر کرامت رحمن نیازی کا نام سامنے آتا ہے۔ پاک بحریہ کی واحد غازی آبدوز‘ جس نے دوارکا اور بھارت کی ویسٹرن نیول کمانڈ کے تمام جنگی فلیٹ اپنے محاصرے میں لیے رکھے‘ اس غازی آبدوز کے کمانڈر کرامت رحمن نیازی تھے‘ جن کے متعلق صدرِ پاکستان کے الفاظ تھے ''کمانڈر کرامت رحمن نیازی نے غازی آبدوز کو دشمن کی سمندری حدود میں 6 ستمبر سے 23 ستمبر تک بہادری‘ جرأت اور قابلِ فخر صلاحیتوں سے اس طرح تعینات رکھا کہ مغربی ساحلوں میں موجود بھارتی بحریہ مفلوج ہو کر رہ گئی‘‘۔
دوارکا تباہی نے جنگ ستمبر ختم ہوتے ہی بھارتی پارلیمنٹ میں طوفان کھڑا کر دیا کہ پاکستان کی غازی آبدوز نے 17 روزہ جنگ میں بھارت کی مکمل ناکہ بندی کیوں اور کس طرح کئے رکھی؟ اس پر بھارتی وزیر دفاع وائی بی چوان (Y. B. Chavan) نے عذر پیش کیا کہ نیوی کو بجٹ کم ملتا رہا ہے جس پر اس زمانے میں بھارتی بحریہ کا بجٹ تین گنا سے بھی زائد بڑھاتے ہوئے 35 کروڑ سے 115 کروڑ کر دیا گیا۔ جنگ ستمبر کے بعد بھارتی بحریہ کے وائس ایڈمرلMihir Roy‘ جو بھارت کے جنگی طیارہ برادر جہاز وکرانت کے کمانڈر اور کمانڈر انچیف آف انڈین ایسٹرن نیول کمانڈ بھی رہے ہیں‘ لکھتے ہیں ''ہماری ممبئی کی بحری کمانڈ ابھی تیاریوں میں ہی تھی کہ کسی شارک کی سی پھرتی سے غازی آبدوز نے جام نگر (گجرات) اور دوارکا کو تباہ کر کے ہم سب کو حیران کرنے کے ساتھ بے دست و پا بھی کر کے رکھ دیا‘‘۔
7 اکتوبر 2017ء کو پاکستان نیوی کی کمان سنبھالنے والے موجودہ چیف آف نیوی سٹاف کمانڈر ایڈمرل ظفر محمود عباسی‘ کمانڈر پاک میرینز، کمانڈر لاجسٹک میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی، 25 تباہ کن سکواڈرن اور 2001-2002 اور پھر 2016 کی پاک بھارت ملٹری محاذ آرائی کے دوران بھارت کی تمام جنگی چالوں اور اس کے بھاری فوجی وجود کے غرور کے سامنے ہمہ وقت آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر وہ پاکستان نیوی کو دشمن سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت متحرک اور اپنے افسروں اور جوانوں کے لئے آج کی دنیا کے بہترین جنگی کورسز، مشقیں اور مختلف ممالک کے ساتھ باہمی ایکسر سائز کو تقویت اور اولیت دے رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved