ہر انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اُس کا بنیادی مقصد کامیابی یقینی بنانا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی انسان کسی بڑی کامیابی کے لیے براہِ راست کوشش کرتا ہے تو ٹھوکر کھاتا ہے۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو یقینی بنانے کی صورت میں اعتماد کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان بڑی کامیابی کی طرف جاتا ہے اور کامیاب لوٹتا ہے۔ کامیابی کی کوشش کرنے والے کبھی کبھی چند معاملات میں ناکامی کا منہ بھی دیکھتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوشش کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں تو ناکام ہونے والے بھی وہی ہوتے ہیں جو کوشش کرتے ہیں۔ جو کچھ نہیں کرتے وہ ناکام بھی نہیں ہوتے۔ ناکامی سے بچنے کے لیے یا اپنے سر الزام لینے سے بچنے کی خاطر کچھ نہ کرنا کوئی بہت اچھا آپشن نہیں۔ ہم زندگی بھر مختلف حوالوں سے خوف زدہ رہتے ہیں اور بعض اہم مواقع پر عمل کی ضرورت اور گنجائش کے باوجود عمل پسند رویے کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ناکامی کا خوف انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔ جو اپنے دامن پر ناکامی کا داغ نہیں لگوانا چاہتے وہ قدرے بے عملی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسے میں جو زندگی بسر کی جاتی ہے وہ میکانیکی انداز میں یاحیوانی سطح کی ہوتی ہے۔ امریکا کے عالمی شہرت یافتہ آجر بل گیٹس کہتے ہیں کہ کامیابی کا جشن منانا اچھی بات ہے مگر ناکامی سے سیکھے ہوئے سبق کو یاد رکھنا زیادہ اہم ہے۔ ناکام رہنے والوں کو اکثر مایوسی میں مبتلا ہوتے دیکھا گیا ہے۔ یہ نہ بھولیے کہ ہر ناکامی ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے۔ اگر ہم سیکھنا نہ چاہیں اور بس گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہیں تو کچھ کر دکھانے کے مواقع ضایع ہوتے رہتے ہیں۔
کسی بھی شعبے میں ناکامی سے دوچار ہونے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ناکامی اس بات کا موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں تاکہ اُن کے اعادے سے بچ سکیں۔ آئیے دیکھیں کہ ناکام ہونے کی صورت میں کس طور کام کرنے کی لگن کو برقرار رکھتے ہوئے جہدِ مسلسل کے ذریعے کامیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
٭ ناکامی کا بھرپور جائزہ لیں۔ کسی بھی مسئلے کو اُس وقت تک حل نہیں کیا جاسکتا جب تک اُسے اچھی سمجھ نہ لیا جائے۔ یہی معاملہ ناکامی کا بھی ہے۔ جب تک ہم ناکامی کو سمجھیں گے نہیں تب تک کامیابی بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ناکامی کا حقیقی ادراک ہی ہمیں بتاتا ہے کہ کامیابی کی طرف کیسے بڑھنا ہے، کن باتوں سے بچنا ہے اور کن معاملات کو اپنانا ہے۔ کامیابی کو اپنا بنانے کے لیے پہلے مرحلے میں ناکامی کو گلے لگانا لازم ہے۔ ناکامی کو دُھتکار کر اُس سے نفرت کرنے کی صورت میں ہم کامیابی کی طرف جانے والی کسی بھی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے۔
٭ ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے لازم ہے کہ تعمیری انداز سے اپنے افکار و اعمال کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ جب ہم اپنے افکار و اعمال کی گہرائی میں اترتے ہیں تب ہمیں اپنی خوبیوں اور خامیوں کا درست اندازہ ہو پاتا ہے۔ یوں اپنے وجود کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اور اپنے وجود کو سمجھنے میں کامیاب ہونے والے ہی دنیا کو سمجھنے میں بھی کامیاب ہو پاتے ہیں۔
٭ بات بات پر قسمت یا تقدیر کو الزام دینا پسندیدہ روش نہیں۔ ہر معاملے میں قسمت یا تقدیر آپ کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی نہیں ہوتی۔ بالعموم ہماری اپنی ہی غلطیاں ہیں جو ہماری راہ کی دیوار بنتی ہیں، ہمیں کچھ کرنے سے اور کامیاب ہونے سے روکتی ہیں۔ ناکامی کے لیے قسمت یا تقدیر کو بالعموم وہ لوگ موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جو قربانی کے بکرے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے قسمت پر الزام دھرنا اور اُسے کوسنا اس بات کی دلیل ہے کہ متعلقہ فرد میں کچھ سیکھنے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ ماند پڑچکا ہے۔ ہر کامیاب انسان کی اتنی سی کہانی ہے کہ وہ اپنی خوبیوں پر ناز کرنے کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی قبول کرتا ہے۔
٭ جو کچھ دوسرے کر رہے ہوں‘ وہی کرتے رہنے سے بھی کامیابی تو ملتی ہے مگر عمومی نوعیت کی۔ نمایاں اور شاندار کامیابی یقینی بنانے کے لیے انسان کو کچھ نیا کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ عمل پسندی کے ساتھ ساتھ نئے تجربے کرنے کا حوصلہ اور شوق بھی پروان چڑھانا چاہیے۔ اِسی صورت آپ منفرد ٹھہریں گے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ بھرپور شوق اور جذبے کے ساتھ ساتھ نئے انداز سے بھی کیجیے تاکہ لوگ فرق محسوس کریں۔ آپ کی شخصیت میں اُسی وقت زیادہ یا نمایاں دلچسپی لیں گے جب وہ کوئی نئی بات دیکھیں گے۔
٭ اگر آگے بڑھنا ہے اور ناکامی کو کامیابی بنانا ہے تو کسی بھی معاملے کے خراب یا تاریک پہلو تلاش کرنے کے بجائے اچھے اور روشن پہلو تلاش کیجیے۔ زندگی ہمیں ہر طرح کے ماحول کا مزا چکھاتی ہے۔ کسی کو ہر وقت کامیابی نہیں ملتی، کبھی کبھی ناکامی بھی واقع ہوتی ہے۔ یہی دنیا کی ریت ہے۔ اگر سبھی جیتتے رہیں تو ہارے گا کون؟ آپ کی جیت کے لیے کسی کا ہارنا لازم ہے۔ کبھی کبھی قدرت آپ کو بھی شکست یا ناکامی سے دوچار کرکے دوسروں کی کامیابی کی راہ ہموار کرتی ہے۔
٭ سوچنے اور اُس پر عمل کرنے کے میلان کو بڑھاوا دیجیے۔ جو لوگ سوچتے رہتے ہیں وہی خود کو عمل کے لیے اچھی طرح تیار کر پاتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ٹھوس اور حقیقت پسند سوچ رکھنے والے ہی اپنے اور دنیا کے لیے کچھ کر پاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں نمایاں ہونے کے لیے دوسروں سے ہٹ کر سوچنا اور اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ جو لوگ بھرپور کامیابی چاہتے ہیں اُن کے لیے سوچنے سے بڑا آپشن کوئی نہیں۔ اس مرحلے کو حذف نہیں کیا جاسکتا۔ معروف مصور اور مجسمہ ساز مائیکل اینجلو نے کہا تھا کہ اگر لوگوں کو یہ پتا چل جاتا کہ مہارت کے حصول کے لیے مجھے کتنی محنت کرنا پڑی ہے تو اُنہیں میرا کام دیکھ کر ذرا بھی حیرت نہ ہوتی۔ یہ تو بہت پتے کی بات ہے۔ سیکھنے کا عمل انسان کو حیرت کی منزل سے آگے لے جاتا ہے۔ ہم غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم کسی کی محنت دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ جاں فشانی سے کام لے کر کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہمیں بھی بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔
٭ یہ کبھی مت بھولیے کہ بڑی کامیابی کے لیے ذہن میں بھی وسعت چاہیے۔ ذہن کو وسعت دے کر کسی بھی بڑے ہدف کے حصول کی تیاری کی جاسکتی ہے۔ ہاں! اہداف کا جامع تعین ناگزیر ہے۔ جب تک واضح ہدف یا اہداف سامنے نہ ہوں، انسان کو کام کرنے کی بھرپور تحریک نہیں ملتی۔ اہداف کے تعین کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ کسی بہت بڑے ہدف کے پیچھے بھاگتے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ چند چھوٹے اہداف کے ذریعے بڑے ہدف کی منزل تک پہنچا جائے۔ چھوٹے اہداف متعین کرنے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان وقفے وقفے سے فتح کے احساس سے سرشار ہوتا جاتا ہے۔ حاصل ہو جانے والا ہر ہدف دل کو حقیقی سکون عطا کرتا ہے۔
ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرنا دقت طلب ضرور ہے‘ ناممکن تو کسی بھی درجے میں نہیں۔ دنیا میں ایسی لاکھوں مثالیں موجود ہیں کہ ناکامی کی صورت میں بہت کچھ کھو بیٹھنے والوں نے دوبارہ تیاری کی‘ پوری جاں فشانی سے محنت کی اور پھر کامیاب ہوئے۔ سوال صرف ہمت نہ ہارنے کا ہے۔ جس نے اپنے خیالات کو قنوطیت کی چادر اُڑھا دی‘ وہ پیچھے رہ گیا۔ ہر ناکامی اپنے ساتھ چند ایک امکانات بھی لے کر آتی ہے۔ پریشان کن صورتِ حال کو اپنے حق میں بروئے کار لانے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ جس نے یہ ہنر سیکھ لیا اُس کا بیڑا پار ہوا۔ کسی بھی ناکامی سے بددل ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنا کسی بھی حال میں مستحسن آپشن نہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے رک کر اپنا جائزہ لینا شرط ہے مگر اِس کے بعد نئی سوچ اور نئی حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں آنا ہی پڑے گا۔ ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا اور کوئی راستہ نہیں‘ اور شارٹ کٹ تو بالکل ہی نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved