تحریر : چودھری محمد لطیف تاریخ اشاعت     12-06-2013

انرجی کا بحران

پچھلے چند سالوں سے ہمارا ملک انرجی کے بدترین بحران میں مبتلا ہے جس کی وجہ 12 سے 18گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ لوڈشیڈنگ نے ہماری معاشی ترقی کی راہیں مسدود کر رکھی ہیں اور ہم معیشت کی پیداواری صلاحیت کے مطابق پیداوار حاصل کرنہیں کر پا رہے کیونکہ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے نہ نئے کارخانے لگائے جارہے ہیں اور نہ ہی موجودہ یونٹس کی توسیع کی جاسکتی ہے بلکہ سینکڑوں فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں۔ فیصل آباد میں 500 صنعتی یونٹس بند ہوچکے ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ انرجی کے بحران کی وجہ سے نئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی۔ ہماری جی ڈی پی کی شرح نمو بہت پست ہے اور اس بحران کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح نمو کا 2 سے چار فیصد سالانہ نقصان ہورہا ہے۔ کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے یہ بحران شدید سے شدید تر ہوتا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ نئی حکومت کے دور میں بھی کافی عرصے سے تک یہ صورتحال جاری رہے گی۔ ابھی تک ہم انرجی کے دو بڑے ذرائع یعنی قدرتی گیس اور بجلی پر انحصار کررہے ہیں۔ قدرتی گیس گھریلو ضروریات انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال ہورہی ہے۔ اس کی طلب میں اضافہ ہوتا گیا لیکن ہم گیس کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرسکے۔ اس لیے ہمیں 2000ملین کیوبک فٹ قدرتی گیس کی کمی کا سامنا ہے جہاں تک بجلی کا تعلق ہے ہماری مجموعی پیداواری صلاحیت 23500 میگا واٹ ہے جبکہ Peak Season میں ہماری طلب 18000 میگا واٹ ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی پوری پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لاسکیں تو ہم ملکی ضروریات سے زیادہ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ تاہم ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مالیاتی سکڑائو، انتظامی کرپشن، گیس اور بجلی کی چوری واجبات کی وصولی میں تاخیر اور کمی۔ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور بجلی پیدا کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں کو واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اپنے عوام کو بلاتاخیر بجلی فراہم نہیں کر پا رہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو واجبات کی بروقت ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے سرکلر قرض وجود میں آتا ہے۔ سرکلر قرض 2005ء میں پہلی دفعہ ایک اہم مسئلے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس وقت سرکلر قرض 84ارب روپے تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بجلی کا ٹیرف اس کی پیداواری لاگت سے کم سطح پر رکھا گیا تھا۔ 2005ء کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت مزید بڑھ گئی لیکن مشرف حکومت نے بجلی کے ٹیرف میں کوئی اضافہ نہ کیا اور 2003ء سے 2007ء تک بجلی کا ٹیرف منجمد رکھا گیا۔ اس سے یہ رخنہ بڑھتا گیا اور سرکلر قرض بڑھتا گیا۔ سابق حکومت نے بجلی کے ٹیرف میں تقریباً 75فیصد اضافہ کیا ہے لیکن پھر بھی ٹیرف بجلی پیدا کرنے کی لاگت سے کم ہے۔ اس لیے سرکلر قرض کا مسئلہ سنگین ہوتا گیا۔ 2008ء میں سرکلر قرض 275 ارب روپے تھا۔ اس وقت 475 ارب روپے ہوچکا ہے بلکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ 800 ارب روپے کی سطح کو چھو رہا ہے اس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ بڑھ رہی ہے کیونکہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو واجبات کی ادائیگی بروقت نہیں ہوتی۔ وہ تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو واجبات کی ادائیگی نہیں کر پاتیں۔ اس لیے تیل کی سپلائی بند ہوجاتی ہے تو بجلی کی پیداوار کم ہوجاتی ہے اور لوڈشیڈنگ بڑھ جاتی ہے۔ سرکلر قرض کا مسئلہ ہفتوں یا مہینوں میں حل ہونے والا نہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں یہ شدید سے شدید تر ہوتا گیا ہے۔ پاور سیکٹر کی سبسڈیز اس میں سب سے زیادہ اضافہ کرتی ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں پاور سبسڈیز کا ہدف 85 ارب روپے رکھا گیا تھا لیکن مئی کے مہینے تک 320 ارب روپے خرچ ہوچکے تھے اور سال کے اختتام تک 400 ارب سے بھی زیادہ خرچ ہوسکتا ہے۔ 1970ء میں بجلی کی ضروریات کا 70فیصد ہائیڈرو الیکٹرک بجلی سے پورا ہوتا تھا اور تھرمل پاور کا حصہ صرف 30فیصد تھا اس کے بعد کوئی بھی حکومت ہائیڈرو پاور کا منصوبہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی جس کی وجہ سے مہنگی تھرمل پاور پر انحصار بڑھتا گیا۔ اس وقت ہم تھرمل پاور سے 67فیصد‘ ہائیڈرو پاور سے 30 فیصد اور نیوکلیئر پاور سے 3 فیصد حاصل کررہے ہیں۔ اگرچہ ہماری فی کس انرجی کی ضروریات دیگر ممالک کی نسبت بہت کم ہیں اس کے باوجود انرجی سپلائی ہماری طلب پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے انرجی کا بحران سنگین ہوتا گیا ہے۔ 2007-8 کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستانی کرنسی میں تیل کی قیمت مزید بڑھ گئی۔ پٹرولیم سیکٹر پر بلند شرح سے ٹیکس عائد کرنے سے بھی تیل کی قیمت بڑھی۔ فرنس آئل جو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی قیمت تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے اور بجلی پیدا کرنے کی لاگت بھی اسی نسبت سے بڑھ گئی لیکن بجلی کا ٹیرف اس رفتار سے نہیں بڑھایا گیا۔ اس کے علاوہ قدرتی گیس کی کھپت بڑھنے کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے گیس کی مطلوبہ مقدار فراہم نہیں کی جاسکی جس کی وجہ سے کم بجلی پیدا ہورہی ہے اور مہنگی بھی ہورہی ہے۔ پاور سیکٹر کے مسائل کی جڑ پاور سبسڈیز، بجلی چوری، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات‘ واپڈا ملازمین کو بجلی کی مفت سپلائی اور کرپشن ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بجلی اور پانی کی وزارت اور اس سے متعلقہ محکمے کرپشن کے مرکز ہیں۔ پانی اور بجلی کے نگران وزیر کے مطابق ہر سال پاور کمپنیوں کے 70ارب روپے کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ 30 ارب ٹرانسمیشن میں غرق ہوجاتے ہیں اور ہر روز 2000 میگا واٹ بجلی سسٹم سے چوری ہوجاتی ہے۔ ڈسٹری بیوشن کے تمام منصوبے تاخیر سے مکمل ہوتے ہیں جس سے ان کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کی تقرری میرٹ اور اہلیت کی بجائے Highest Bidding کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ انرجی سیکٹر کے مسائل بنیادی نوعیت کے ہیں۔ انرجی پیدا کرنے اور خریدنے کی لاگت سے کم شرح پر ٹیرف وصول کیے جاتے ہیں۔ تقریباً 50فیصد بجلی چوری ہوجاتی ہے یا ڈسٹریبیوشن اور ٹرانسمیشن نقصانات کی نذر ہوجاتی ہے۔ جو بل جاری کیے جاتے ہیں اس سے آدھے واجبات وصول ہوتے ہیں۔ پاور سیکٹر میں پائی جانیوالی کرپشن مسائل کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ انرجی کے بحران سے عہدہ برا ہونے کے لیے بھرپور توجہ اور محنت کی ضرورت ہوگی۔ سرکلر قرض کا خاتمہ نئی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوگی اور آئندہ اسے بڑھنے سے روکنا ہوگا کیونکہ سرکلر قرض کی موجودہ سطح کے ہوتے ہوئے پاور سیکٹر کمپنیوں کے لیے اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور سیکٹر کی توسیع کے لیے فنڈز کا حصول مشکل ہے اور نہ ہی وہ نئی سرمایہ کاری کرسکتی ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ سرکلر قرض کی رقم کو حکومتی قرض میں منتقل کردے اور انرجی سیکٹر کے تمام اداروں میں بہتر حکمرانی اور کارکردگی میں مثبت پیشرفت کے لیے جامع حکمت عملی تیار کرے جس کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت کم کی جاسکے۔ کیش فلو میں اضافہ ہوسکے۔ آپریشنل اور مالیاتی Integrity کو یقینی بنایا جاسکے۔ بجلی کے واجبات کی فوری وصولی کے لیے پبلک سیکٹر اداروں کے بجلی کے واجبات Source پر ہی ادا کردیئے جائیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے نادہندگان کے کنکشن کاٹ دیئے جائیں۔ پاور سیکٹر کے ٹیرف کا ازسرنو تعین کیا جائے۔ پاور سیکٹر سبسڈیز صرف غریب ترین افراد تک محدود کی جائیں۔ ٹرانسمیشن کے نقصانات کم کرکے 2.5 فیصد تک لائے جائیں ۔ واپڈا ملازمین سے بجلی کی مفت سپلائی کی سہولت واپس لی جائے۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر کو گیس کی سی این جی سپلائی پر ٹیکس لگا کر اسے پٹرول کی قیمت کے برابر کردیا جائے تاکہ بجلی پیدا کرنے کے لیے مزید گیس مہیا کی جاسکے۔ موجودہ پلانٹس کی اپ گریڈیشن، پرانے اور بیکار پلانٹس کی جگہ نئے پلانٹ لگانے کے علاوہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس شروع کیے جائیں۔ بالآخر ٹیلی کام سیکٹر کی طرح پورے انرجی سیکٹر کی مرحلہ وار پرائیویٹائزیشن کردی جائے تاکہ کرپشن، نااہلی اور دیگر مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved