انٹرنیٹ جتنی بھی ترقی کر لے‘ کتاب کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی واقعہ چوبیس گھنٹے مختلف ٹیلی وژن چینلز پر نشر ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود قاری اس خبر کی تصدیق اور تفصیل کے لئے صبح سویرے اخبارکا مطالعہ ضرور کرتا ہے۔ کتب بینی کے شوق کی تازہ ترین مثال ''دنیا پبلشرز‘‘ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی کتاب ''لال حویلی سے اقوامِ متحدہ تک‘‘ کی بے پناہ مقبولیت ہے‘ جس کا دوسرا ایڈیشن تقریب رونمائی سے قبل ہی بک ہو چکا تھا۔ پُروقار تقریب رونمائی یوم دفاع اور مصنف کی والدہ کی برسی کے موقع پر لاہورکے ایک ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ شیخ صاحب نے کتاب کو اپنی والدہ مرحومہ خورشید بیگم کے نام منسوب کیا۔ تقریب رونمائی میں مہمانِ خصوصی گورنر پنجاب چودھری محمد سرورکا کہنا تھا کہ میں نے چھ سالوں میں بہت سی کتابوں کی تقاریبِ رونمائی میں بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت کی ہے مگر اتنے زیادہ افراد کی شرکت میں نے پہلے پاکستان تو کیا پوری دنیا میں نہیں دیکھی۔ انہو ں نے مصنف کے بارے میں کہا: شیخ رشید جب پیش گوئیاں کرتے ہیں تو واقعی ان میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، بہت سی پیش گوئیاں فوری ٹھیک ثابت ہو جاتی ہیں، کچھ میں وقت لگتا ہے۔ میرا شیخ رشید سے 30 سے 40 سال پرانا تعلق ہے، شیخ رشید نے 30 سال قبل میرے پاکستانی سیاست میں آنے کی پیش گوئی تھی اور میں نے اُس وقت کہا تھا کہ میں کبھی بھی پاکستان کی سیاست میں حصہ نہیں لوں گا مگر بعد ازاں یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ گورنر پنجاب نے مصنف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس کتاب میں شادی نہ کرنے کی وجہ نہیں بتائی، شاید وہ اپنی اگلی کتاب میں شادی کی وجہ بتا دیں ۔ اس وقت تاثر ہے کہ دنیا میں کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے مگر دنیا میں وہی کامیاب ہوئے ہیں جو کتابوں کو پڑھتے ہیں، میں پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں یہ کتاب رکھوانے کی کوشش کروں گا، چاہے مجھے یہ کتاب اپنے پاس سے خرید کر ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
اس موقع پر چودھری سرور نے بھی کتاب لکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں ابھی کتاب نہیں لکھ سکتا کہ سچ لکھنے پر کوئی ناراض نہ ہو جائے، جب سیاست سے مکمل کنارہ کشی کر لوں گا‘ تب کتاب لکھوں گا۔ شیخ رشید احمد نے اپنی خود نوشت کے بارے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: جو بچپن میں میری والدہ کہتی تھیں کہ کوئی قوت اس کے ساتھ ہے، میں آج یہ محسوس کرتا ہوں کہ واقعی کوئی طاقت ہے، جوکسی نہ کسی شکل میں مَیں پیش گوئیاں کرتا ہوں، بعض اوقات لوگ مذاق بھی اڑاتے ہیں؛ تاہم چالیس سال قبل میں نے چودھری سرور کو کہا تھا کہ میں آپ کو پاکستان کی سیاست میں آتا دیکھ رہا ہوں مگر انہوں نے سختی سے تردیدکی تھی لیکن میری پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ شیخ رشید احمد نے سنسنی خیز انکشافات پر مبنی ایک اور کتاب لکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک ایسی کتاب ضرور لکھوں گا‘ بھلے وہ میرے مرنے کے بعد ہی شائع کیوں نہ ہو۔ انہوں نے نوجوان نسل کو نصیحت کی کہ وہی انسان اپنی منزل پاتا ہے جو محنت کرتا ہے، انسان وہی پھل کھاتا ہے جس کا بیج بوتا ہے، ان کا کہنا تھا: میں پاکستان کے ان نوجوانوں کے لئے مثال ہوں‘ میں سارے پاکستان کے سیاست دانوں کو سامنے رکھ کر کہتا ہوں کہ کوئی میری طرح کا سیاسی ورکر نہیں، جس کو اللہ نے اتنی عزت سے نوازا ہو۔ 14 وزارتیں لیں لیکن کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ پر کرپشن کا داغ ہے، میں چاہتا ہوں کہ لوگ میری کتاب خرید کر پڑھیں اور سبق حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کتاب کی رونمائی کے لیے 6ستمبر کے دن کا انتخاب اس لئے کیا کہ یہ ہمارے شہیدوں‘ غازیوں کا دن ہے جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس ملک کا دفاع کیا، دوسرا، میں نے اس لئے اس دن کا انتخاب کیا کہ آج میری ماں کی برسی کا دن بھی ہے، جن کے نام میں نے یہ کتاب کی ہے۔ مصنف نے کتاب کی بہترین اشاعت، تقریبِ رونمائی اور تقسیم پر دنیا میڈیا گروپ کی ساری ٹیم کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ شیخ رشید نے کہا کہ اس تقریب میں کثیر تعداد میں افراد کی شرکت کا سارا کریڈٹ دنیا پبلشرز کو جاتا ہے کیونکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ میری کتاب اتنی خوبصورت بن سکتی ہے، یہ سارا کا م دنیا پبلشرز کا ہے جس نے میری کتاب کو اتنا خوبصورت بنایا۔
کتاب کی تقریبِ رونمائی سے معروف صحافی مجیب الرحمن شامی، عارف نظامی، سلمان غنی، سہیل وڑائچ، صوبائی وزیر میاں محمود الرشید، صوبائی وزیر قانون محمد بشارت راجہ، معروف صحافی سلیم بخاری، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل اور سینیٹر ولید اقبال نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض اجمل جامی نے ادا کئے۔ تقریب میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو، لیاقت بلوچ، وفاقی پارلیمانی سیکرٹری شیخ راشد شفیق، سنیئر صحافیوں اوریا مقبول جان اور خاورگھمن سمیت متعدد سیاسی و سماجی شخصیات اور عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
تقریب رونمائی کے موقع پر کتاب کے تقسیم کار کی جانب سے خصوصی سٹال بھی لگایا گیا تھا۔ ڈسٹری بیوٹر آفتاب تنولی کے مطابق یہ پہلی کتاب ہے جس کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر بڑی تعداد میں کتب فروخت ہوئیں‘ ورنہ عمومی طور پر لوگ مفت کتاب ہی طلب کرتے ہیں۔ اس کتاب کی مقبولیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن کتاب کی باقاعدہ رونمائی سے قبل ہی فروخت ہو گیا اور اب دوسرا ایڈیشن چند تصاویر اور ایک مضمون کے اضافے کے ساتھ شائع کرکے کراچی سے پشاور تک تقسیم کیا جا چکا ہے۔ کتاب کے پرنٹر کا کہنا ہے کہ آج کل بڑی سے بڑی کتاب بھی ''لال حویلی سے اقوامِ متحدہ تک‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے بیس فیصد کے برابر بھی شائع نہیں ہوتی جبکہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی پرنٹ ہوکر مارکیٹ میں پہنچ چکا ہے اور اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ محض چند ماہ میں اس کتاب کے کم از کم دس ایڈیشن فروخت ہو جائیں گے۔
راقم الحروف کو اس کتاب کی ترتیب و تدوین کا اعزاز حاصل ہوا۔ شیخ رشید احمد نے اپنے بچپن سے لے کر آج تک‘ اپنی زندگی کے تمام اہم واقعات کو اس ایمانداری سے بیان کیا ہے کہ بچپن میں اپنی غربت کے حالات، ابتدائی سیاسی مشکلات اور گھریلو ڈانٹ ڈپٹ لے واقعات کو بھی سپردِ قلم کیا، سٹوڈنٹ یونین سے چودہ وفاقی وزارتوں تک اور بھابڑہ بازار کی بلدیاتی سیاست سے اقوام متحدہ میں ملک کی نمائندگی تک کے حالات و واقعات کو عوامی اندازمیں پیش کیا۔ صدر ایوب خاب سے لے کر موجودہ وزیراعظم عمران خان تک‘ حکومتوں سے تعلقات اور سیاسی وابستگیوں کو اتنی سچائی سے بیان کیا کہ کسی کی خوشنودی یا ناراضی کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔ اس سے قبل مصنف کی کتابیں ''فرزند پاکستان‘‘ اور ''میدانِ خطابت کا شہنشاہ‘‘ بھی شائع ہوئیں لیکن موجودہ تصنیف کے چرچے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ مصنف نے اس کتاب کے انگریزی ترجمے پر بھی کام شروع کر دیا ہے اور اس کے بعد ایک نئی کتاب لکھنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شیخ رشید احمد کی کتاب ''لال حویلی سے اقوامِ متحدہ تک‘‘ نہ صرف پاکستان میں اشاعت اور فروخت کا ایک ریکارڈ قائم کرے گی بلکہ یہ نوجوان نسل میں کتب بینی کے فروغ کا بھی اہم ذریعہ ثابت ہوگی اور اس تصنیف کی کامیابی کے بعد کئی ایسے لکھاری جو انٹرنیٹ کی ترقی سے خوفزدہ ہوکر کتاب لکھنے یاشائع کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے‘ اب انہیں بھی حوصلہ ملے گا اور بہت سی نئی کتب بھی مارکیٹ میں آئیں گی۔