فیس بک اوپن کی اور امریکہ میں مقیم ڈاکٹر عاصم صہبائی کا سٹیٹس پڑھا تو دل دکھ سے بھر گیا ۔ چوبیس گھنٹے گزر گئے ہیں لیکن پھر بھی لگتا ہے عاصم کا دکھ میرے اندر کہیں دور تک پھیل گیا ہے۔
مجھے وہ سٹیٹس پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ ایک ڈاکٹر اور مریض کا آپس میں کس طرح تعلق ہوتا ہے۔ شاید میرے لیے وہ سب باتیں نئی ہوں کیونکہ ہمارے ملک میں اس کے مقابلے میں ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ غالباً کمزور ہوتا ہے‘ جتنا عاصم صہبائی نے اظہار کیا ہے۔ امریکہ میں اپنی بیوی کے علاج کے دوران مجھے احساس ہوا تھا کہ ایک مریض اور ہسپتال کے سٹاف کا آپس میں کیا تعلق ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور کیسے ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف پوری جنگ تقدیر سے لڑتے ہیں اور آخری دم تک مریض کو بچانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ وہاں ڈاکٹر یہ نہیں کہے گا کہ یہ بندہ نہیں بچے گا‘ اسے گھر لے جائو۔
ڈاکٹر عاصم کے اپنی ایک مریضہ اور پیارے بچوں کی ماں کی موت پر لکھے گئے سٹیٹس کو پڑھ کر مجھے تیس سال پہلے ملتان نشتر ہسپتال کا کینسر وارڈ یاد آگیا جہاں اماں آٹھ ماہ زیرعلاج رہیں اور آخر کار کینسر سے جنگ ہار گئیں۔ ملتان کے کینسر سپیشلسٹ پروفیسر ڈاکٹر ابرار احمد صاحب ایک شاندار انسان اور ڈاکٹر‘ وہ مریضوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ روزانہ وارڈ کا چکر لگاتے اور اماں سے پیار سے پوچھتے :کیا حال ہے آپ کا ؟ اماں مسکرا کر انہیں دیکھتیں اور روز کہتیں بیٹا کل سے بہتر ہوں۔ میں نے ایک دن اماں کو کہا: یہ کیا بات ہوئی آپ کی صحت کل سے بہتر نہیں ہوتی اور آپ پھر بھی ڈاکٹر ابرار صاحب کوکہتی ہیں کہ میں کل سے بہتر ہوں ۔اماں نے مجھے دیکھا اور کہا: بیٹا ڈاکٹر صاحب تو اپنی طرف سے پوری کوشش کررہے ہیں کہ میری جان بچ جائے‘ڈاکٹر بھلا کب چاہے گا کہ اس کا مریض تندرست نہ ہو۔ اگر میں روز انہیں مایوس کروں گی کہ میری طبیعت میں کچھ فرق نہیں پڑ رہا تو وہ مایوس ہوں گے اوراپنے مریض سے مایوس ڈاکٹر علاج نہیں کرسکے گا۔ ابھی ڈاکٹر صاحب کو حوصلہ ہوتا ہے کہ ان کی محنت سے کچھ نہ کچھ بہتر ہورہا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ میرا خیال رکھتے ہیں ۔ میں اپنے ڈاکٹر کومایوس نہیں کرنا چاہتی ۔ میں کافی دیر تک اماں کے چہرے کو دیکھ کر سوچتا رہا ‘اماں کبھی سکول نہ گئیں‘ کبھی اپنے گائوں سے باہر نہ نکلیں اور پہلی دفعہ اپنے علاج کے لیے نشتر ہسپتال میں داخل ہیں ‘ان کو زندگی کی کتنی سمجھ ہے۔ جب اماں فوت ہوئیں تو ڈاکٹر ابرار احمد جاوید بھی اتنے دکھی تھے جتنے ہم بچے تھے۔ وہ مریض کے ساتھ پہلا تعلق تھا جو کسی ڈاکٹر کا میں نے محسوس کیا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کیسے ڈاکٹر ابرار اماں سے باتیں کرتے ہوئے ان کے سر پر پیار سے بچے کھچے بالوں پر ہاتھ پھیرتے رہتے جو کیمو کی وجہ سے بہت کم رہ گئے تھے۔ ڈاکٹر ابرار کہتے: اماں جی فکر نہ کریں آپ ٹھیک ہوجائیں گی۔ اور اماں ان کا ہاتھ پکڑ کر کہتیں جی بیٹا مجھے اللہ کے بعد آپ پر پورا یقین ہے آپ مجھے ٹھیک کر دیں گے۔ مجھے یقین ہے ڈاکٹر ابرار بھی اس طرح اداس اور ڈپریس ہوئے ہوں گے جیسے آج ڈاکٹر عاصم صہبائی امریکہ میں اپنی مریضہ‘ جو بال بچوںوالی تھی‘ کی کینسر سے وفات پر ہیں۔
ڈاکٹر عاصم کے بارے میں عامر متین نے کہا تھا کہ میںڈاکٹر عاصم سے زیادہ معصوم‘ خوبصورت اور انسانوں سے پیار کرنے والی روح سے نہیں ملا۔ وہ اپنے لیے سو مسائل پیدا کر کے بھی دوسرے انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا۔ وہ اپنے مفادات پر دوسروں کے مفادات کو ترجیح دے گا۔ اس کے یار دوست‘ خاندان اور دیگر لوگ اسے سمجھاتے رہیں گے کہ تم کیوں خود کو مصیبت میں ڈالتے ہو؟ پاکستان سے مریض بلا لیتے ہو‘ پھر ان کی خدمت کرتے ہو‘ ان کے دکھ سکھ کو اپنا بنا لیتے ہو‘ ان کو زندگی کی طرف لوٹانے کی بھرپور کوشش کرتے ہو‘ ان کے لیے اپنے دوستوں سے فنڈ ریز کرتے ہو‘ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ ان پر خرچ کردیتے ہو۔ تمہارے اپنے بچے ہیں‘ فیملی ہے‘یہ کیا کرتے ہو؟ ڈاکٹر عاصم اپنے قریبی رشتوں سے بعض دفعہ جھڑکیاں بھی کھاتے ہیں ‘لیکن وہ وہی کرتے ہیں جو ان کی روح ان سے کرواتی ہے۔
مجھے کہنے لگے: رئوف بھائی آپ کو پتہ ہے جو کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ میں کسی کو انکار نہیں کرسکتا۔ شاید خدا مجھے کسی کا وسیلہ بنانا چاہتا ہے۔ شاید میری کوشش کی وجہ سے کسی کی زندگی کے دو تین سال بڑھ جائیں ۔ بات یہاں تک نہیں رہتی۔ عاصم پھر اس مریض کے ساتھ پورا انوالو ہوتا ہے۔ اسے اپنے بچوں عمران اور عثمان کا درجہ دے دیتا ہے۔ ان سے پیار کرتا ہے‘ ان کا خیال کرتا ہے۔ ان کے دکھ پر روتا ہے اور خوشی میں ہنستا ہے۔ ابھی عاصم صہبائی کے زیرعلاج ایک ماں فوت ہوئی جو پاکستان سے علاج کے لیے گئی ہوئی تھی ‘ عاصم نے اس کا طویل علاج کیا ‘ اسے ہمت دی ‘ پیار دیا‘ حوصلہ دیا۔ ایک بھائی کی طرح خیال رکھا ۔ اس سے پہلے اوکاڑہ کا نوجوان عبدالرحمن اس کے پاس رہا ۔ پاکستان میں ڈاکٹروں نے رحمن کو تین سال پہلے بتایا تھا کہ وہ تین ہفتے زندہ رہے گا اور پھر عاصم کا اس سے رابطہ ہوا اور وہ تین سال اچھی زندگی گزار گیا۔ وہ بھی پچھلے دنوں فوت ہوا تو عاصم کتنے دن دکھی رہا ۔اب عاصم کو ایک نئے دکھ کا سامنا ہے۔ اب اس کا ایک اور مریض زندگی کی جنگ ہارگیا ہے۔
ڈاکٹر عاصم نے فیس بک پر لکھا ہے کہ جب اس کا نوجوان مریض‘ جو کینسر کی سٹیج فور پر ہو اور فوت ہوجائے )ایسا اکثر نہیں ہوتا( تو میں اپنے آپ کو بہت اندر تک خالی محسوس کرتا ہوں کہ میں بھی اس مریض کے ساتھ جنگ ہار گیا ہوں ۔ میں خود کو ڈپریس محسوس کرتا ہوں اور رونا چاہتا ہوں ۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر کا ایک حصہ بھی اس مریض کے ساتھ مر گیا ہے۔ میں خود سے پوچھتا ہوں: کیا میں نے ان کی زندگیوں میں کوئی معنی خیز فرق ڈالا تھا؟ کہیں میں نے انہیں کیموتھراپی‘ ریڈی ایشن اور سرجری کرا کے ٹارچر تو نہیں کیا؟ جب مجھے علم تھا کہ وہ کینسر کی آخری سٹیج پر ہیں اور شاید نہ بچ سکیں؟ ان ڈپریسڈ خیالات کے درمیان مجھے خیال آتا ہے کہ کسی بھی جنگ کا نتیجہ اہم نہیں ہوتا ۔ اہم چیز انسانی جذبہ ہے کہ آپ نے یہ جنگ لڑنی ہے۔ زندگی کی خوبصورتی یہ ہے کہ جب وہ مریض اپنی پوری قوت ِصبر‘ برداشت اور جرأت کے ساتھ موت سے نبردآزما ہوتا ہے۔ ان کے وہ لمحات دیکھنے والے ہوتے ہیں کہ کیسے وہ موت کو شکست اور زندگی کی طرف واپس لوٹنے کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت انسانی مزاحمت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ وہ سب لمحے کمال کے ہوتے ہیں جو میں ان مریضوں کے ساتھ گزارتا ہوں‘ ان کا حوصلہ بڑھاتا ہوں‘ ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہمارا تعلق مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ میں انہیں اداسی اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے اٹھاتا ہوں‘ جب وہ کینسر سے لڑ کر زندگی سے مایوس ہوچکے ہوتے ہیں اور پھر انہیں دو تین سال ایک معیاری زندگی فراہم کرتا ہوں۔اس دوران وہ اپنے پیاروں کے ساتھ مزید وقت گزارتے ہیں‘کتابیں پڑھتے ہیں جو انہوں نے پہلے نہیں پڑھیں‘ وہ میوزک سنتے ہیں‘ فلمیں دیکھتے ہیں‘ اپنے خدا کے ساتھ اپنا رشتہ پیدا کرتے ہیں ‘ اسے مضبوط کرتے ہیں اور اس دوران وہ ارطغرل ڈرامے کی پانچ سو قسطیں بھی دیکھ لیتے ہیں ۔
مجھے یقین ہے ایک دن میری ان سب سے اگلے جہان میں ملاقات ہوگی‘ جہاں کسی کو کوئی تکلیف ہوگی‘ نہ کیموتھراپی ہوگی‘ نہ سرجری ہوگی‘ نہ درد ہوگا ‘ نہ تکلیفیں ہوں گی‘ نہ بچھڑنے کا دکھ ہوگا ‘ نہ مرنے کی تکلیف ہوگی۔ نہ وچھوڑا ہوگا ۔ ایک ایسی دنیا ہوگی جہاں کینسر نہیں ہوگا ۔