تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     09-09-2020

اُنہیں فلک بھی حیرانی سے دیکھتا ہوگا

7 ستمبر 1965ء کو بھارت کے 27 ویں سکواڈرن کے ہنٹر طیاروں کی ایک ٹکڑی سرگودھا پر حملے کے لیے پہنچتی ہے۔ اِس سے پہلے 6 ستمبر کو پاکستانی فضائیہ دشمن پر بھرپور حملوں کو آغاز کر چکی تھی‘ جس کے بعد بھارتی فضائیہ کی جوابی کارروائی کے بھرپور امکانات موجود تھے۔ اِسی تناظر میں ملک کی تمام جنگی ایئر بیس ہائی الرٹ پر تھیں۔ حملے کا سب سے زیادہ خطرہ سرگودھا ایئر بیس کو تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ لاہور کے دفاع کے لیے یہ بیس اہم ترین تھی۔ پاک فضائیہ کے طیارے یہیں سے پرواز کرتے ہوئے لاہور پر حملہ کرنے والی بھارتی فوج کے پرخچے اُڑا رہے تھے۔ اِس کے ساتھ دشمن ملک کے اندر بھی کارروائیاں جاری تھیں۔ اِنہیں کارروائیوں کو روکنے کے لیے بھارتی فضائیہ نے سرگودھا ایئر بیس کو اپنا خصوصی ہدف بنایا۔ 7ستمبر کو جب دشمن کے چار طیاروں کی ٹکڑی سرگودھا کی فضاوں میں پہنچی تو تب پہلے سے آئے ہوئے چار بھارتی طیارے حملہ کرکے واپس جا رہے تھے۔ پاک فضائیہ کے طیارے بھی فضا میں موجود تھے ۔ اِنہیں میں سے ایک ایف 86 سیبر طیارے میں سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم موجود تھے۔ بقول گروپ کیپٹن ریٹائرڈ سلیم میتلا کے‘ اُس دن سرگودھا کی فضائوں میں ایک خون گرما دینے والا معرکہ ہوا۔ پاک فضائیہ کے ریٹائر آفیسر کے مطابق ایک طرف دشمن کے طیارے واپس جا رہے تھے اور دوسری طرف سے چار مزید طیارے آ رہے تھے، فضا میں جب یہ ایک دوسرے کے قریب آئے تو اِن کا جمگٹھا سا بن گیا۔ تب تک ایم ایم عالم دشمن پر ہلّہ بولنے کے لیے اپنے طیارے کو پوزیشن کر چکے تھے‘ بس پھر جو بھی ایم ایم عالم کے سامنے آیا‘ وہ اُن کے طیارے کی گنوں کا نشانہ بن گیا۔ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں پانچ طیارے گرا کر ناقابلِ یقین ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہی وہ دن تھا جب پاک فضائیہ کو فضاؤں پر مکمل دسترس حاصل ہوگئی تھی۔ اِس دن کے بعد سے دشمن اپنا دفاع تو کرتا رہا لیکن وہ حملہ کرنے کی صلاحیت بڑی حد تک کھو چکا تھا۔ پاک فضائیہ مختلف محاذوں پر برّی افواج کے ٹروپس کو بھی بھرپور سپورٹ فراہم کر رہی تھی۔ اِسی کے باعث لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر پر دشمن کے بڑے حملوں کو ناکام بنانے میں بہت مدد ملی تھی۔
آخر اتنے چھوٹے سائز کی فضائیہ کیونکر اپنے سے کہیں بڑے دشمن کو فضاؤں سے بے دخل کرنے میں کامیاب رہی‘ اِس حوالے سے بہت کچھ پڑھا، سنا لیکن تشنگی ہنوز باقی ہے۔ سو موقع کی مناسب سے غنیمت جانتے ہوئے، ایئر فورس کے ریٹائرڈ افسران کی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری صابر صاحب کو فون کیا۔ اُنہوں نے کمال محبت سے ہمیں لاہور کینٹ میں واقع PAFROA کے آفس آنے دعوت دی۔ وہاں پہنچے تو متعدد ہیروز کو دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ سابق ایئر وائس مارشل انور محمود خان ، گروپ کیپٹن ریٹائرڈ سلیم میتلا اور کتنے ہی احباب وہاں موجود تھے۔ تعارف کا مرحلہ طے ہونے کے بعد گفتگو کا سلسلہ جو شروع ہوا تو کئی گھنٹوں پر پھیل گیا۔ جنگ ستمبر کا ذکر شروع ہوتے ہی سب کے چہرے جیسے جوش اور جذبے سے دمکنے لگے تھے‘ اِسی دوران انور محمود خان صاحب نے پورے جوش اور جذبے سے بتایاکہ پاک فضائیہ کے شاہین باقاعدہ پاک بھارت جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یکم ستمبر کو اپنی دھاک بٹھا چکے تھے۔دراصل یکم ستمبر کو بھارتی فضائیہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے چھمب جوڑیا ں سیکٹر میں اپنے چار مسٹیئر اور دوکینبرا طیارے بھیجے لیکن وہ دو پاکستانی طیاروں کو دیکھ کر میدانِ جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ تین ستمبر کو بھی یہی کچھ ہوا لیکن تب بھارت کے ایک طیارے کو گھیر کر پسرور میں اُتار لیا گیا۔ اِن دونوں واقعات کے باعث فوج کے مورال پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ پھر جب کھلی جنگ شروع ہوئی تو پاک فضائیہ کے سامنے چار ٹارگٹس تھے۔ دشمن کے حملوں کو روکنا، دشمن کے اڈوں پر حملے کرنا، پاک فوج کو مدد فراہم کرنا اور گشتی پروازیں کرنا۔ پاک فضائیہ نے یہ تمام مقاصد اِس خوبی سے پورے کیے کہ پوری دنیا اَش اَش کر اُٹھی۔
PAFROA کے آفس میں فضائیہ کے تمام افسران کے لب و لہجے سے محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اب ریٹائرڈ افسران ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ آج بھی خود کو میدانِ جنگ میں محسوس کر رہے ہیں، گویا طبلِ جنگ بج چکا ہو اور وہ پوری تیاری کے ساتھ طیاروں کے کاک پٹ میں بیٹھے ہیں یا پھر فضاؤں میں پرواز کر رہے ہیں۔ کیسے کیسے ہیروز کا تذکرہ سننے کو ملا۔ سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی اور یونس حسن شہیدکے تذکرے کے بغیر یہ گفتگو بھلا کیونکر مکمل ہو سکتی تھی۔ دونوں ہیروز ہلواڑہ پر ہوائی حملہ کرنے کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ اُن کے ساتھ سیسل چوہدری بھی حملے کے لیے گئے تھے۔ ہلواڑہ کی فضاؤں میں تین اور دس کا خونریز معرکہ ہوا جس دوران سرفراز رفیقی کے طیارے کی گنیں جام ہو گئیں‘ اُنہوں نے سیسل چوہدری کو اپنی جگہ لینے کو کہا کہ وہ پیچھے رہتے ہوئے اُن کے عقب کا خیال رکھیں گے۔ گنیں جام ہونے کے بعد وہ میدان جنگ سے نکل جانے میں حق بجانب تھے لیکن اُن کی حمیت نے ساتھیوں کو اکیلا چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ شاہینوں نے دشمن کے چھ طیارے تو مار گرائے لیکن ہمارے دو طیارے بھی تباہ ہو گئے۔
ایک مرتبہ سیسل چوہدری سے ملاقات کے دوران اِس معرکے کا براہِ راست احوال سننے کو ملا تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ جب وہ سرفراز رفیقی کی جگہ حملے کے لیے آگے بڑھے تو کچھ دیر بعد اُن کا سرفراز رفیقی سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ وہ یونس حسن شہید کو بھی پکارتے رہے لیکن دوسری طرف مکمل خاموشی تھی‘ گویا اب وہ اکیلے ہی باقی رہ گئے تھے۔ سیسل چوہدری کے بقول‘ جب وہ معرکے سے نکلنے کے بعد سرگودھا ایئر بیس پر پہنچے تو اُن کے طیارے کا تیل مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ جام نگر ہوائی اڈے پر حملے کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے سکواڈرن لیڈر شبیر عالم صدیقی اور اُن کے نیوی گیٹر اسلم قریشی بھی واپس نہیں آ سکے تھے۔ امرتسر کے قریب دشمن کی ایمونیشن سے لدی ہوئی ٹرین کو تباہ کرنے کے دوران منیر بھٹی نے بھی جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ کانوں میں اِن سب کے تذکرے رس گھول رہے تھے لیکن ذہن کہیں اور ہی گھوم رہا تھا۔ کیسے کیسے جری جوان تھے جنہوں نے اپنی کاکردگی سے ایک عالم کو حیران کر دیا تھا۔
8ستمبر کو ملک کی بحری افواج نے سمندروں سے بھارتیوں کو تقریباً بے دخل کر دیا تھا۔ جنگِ ستمبر سے ایک ماہ قبل رن آف کچھ میں ہونے والی پاک‘ بھارت جھڑپوں کے بعد پاک بحریہ انتہائی چوکنا تھی۔ جنگ شروع ہونے کے ساتھ ہی پاک بحریہ کھلے سمندر میں نکل گئی اور ملک کی سرحدی حدود کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ سات ستمبر کو نیوی کے سات جہازوں کے ایک گروپ کو بھارتی بندرگاہ دوارکا کی طرف بڑھنے کا حکم ملتا ہے۔ جہازوں نے نصف شب کو مطلوبہ مقام پر پہنچ کر پوزیشن سنبھال لی اور بھرپور حملے کے دوران دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اِس حملے کے باعث کراچی کے دفاع میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی اور دشمن کو بھی سخت ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ تب دونوں ممالک میں سے صرف پاکستان کے پاس ایک آبدوز تھی جس کا خطرہ بھارت پوری جنگ کے دوران محسوس کرتا رہا۔ اِسی کے ڈر سے اُس کے بڑے جہازوں نے کھلے سمندر میں آنے کی ہمت نہیں کی۔ گویا مسلح افواج کے تمام شعبوں نے اپنے اپنے کردار کو بخوبی نبھایا‘ بلاشبہ پوری قوم کی مدد اور بھرپور حمایت سے۔ پوری کی پوری قوم اپنی مسلح افواج کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی کھڑی تھی۔ ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت میں ہر وقت گلوکاروں کا جمگٹھا لگا رہتا تھا جہاں دن رات ترانوں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ ترانے جن کے باعث پوری قوم کا جوش اور جذبہ اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ سنتے ہیں کہ ہسپتالوں میں خون دینے والوں کی قطاریں لگی رہتی تھیں اور چوری چکاری تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ پھر جنگ ختم ہوگئی‘ جس کے ساتھ ہی جوش اور جذبہ بھی ماند پڑنے لگا۔ہم جنگ ستمبر کے دوران ملک کے دفاع کا شاندار کارنامہ انجام دینے والے تمام غازیوں اور شہیدوں کو سیلوٹ پیش کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے جنہیں اُن کے کارناموں پر فلک بھی حیرانی سے دیکھتا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved