تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     09-09-2020

حوا کی بیٹی کے دکھ

حوا کی بیٹی کچھ نہ بھی کرے تو قصوروار کہلاتی ہے۔ مار پڑے تو اس کا قصور، شوہر بے وفائی کرے تو اس کا قصور، طلاق ہو جائے تو بھی انگلیاں صرف عورت پر ہی اٹھتی ہیں۔ شوہر عیاش ہو تو بھی سارا ملبہ بیوی پر گرایا جاتا ہے کہ دیکھو اس سے شوہر نہیں سنبھالا جا رہا۔ حالیہ چند دنوں میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے میں ششدر رہ گئی کہ اگر لوگ کورونا جیسی وبا میں نہیں سدھرے تو آگے کیا یہ ٹھیک ہو پائیں گے۔
کراچی میں پانچ سال کی مروہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ گھر سے باہر کتنے درندے اس کی تاک میں ہیں۔ وہ تو صرف چیز لینے نکلی تھی، پھر گھر نہیں آئی۔ گھر والے ننھی مروہ کو ڈھونڈنے لگے۔ پھر دو دن بعد ایک کچرا کنڈی سے بچی کی لاش ملی جو جلی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی، یہ لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور آنکھوں میں آنسو تیر رہے ہیں کہ ایک چھوٹی سی بچی بھی لوگوں کی میلی نظروں سے محفوظ نہیں۔ وہ تو بس بازار گئی اور کوئی درندہ اس کو لے گیا۔ زیادتی کے بعد اس کے سر کو بھاری چیز سے کچلا اور پھر اس کو جلا دیا... اُف اتنا ظلم! پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ یہ ڈینگی کیوں آتا ہے؟ یہ کورونا کیوں نازل ہوگیا؟ یہ کیسے حیوان ہمارے معاشرے میں جنم لے رہے ہیں جنہیں خدا، آخرت، دوزخ اور قبر کے عذاب کا کوئی ڈر نہیں۔ مروہ کی تصویر پورے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے‘ اس نے پاکستانی پرچم کے کپڑے پہن رکھے ہیں‘ ہاتھ میں باجا پکڑا ہوا ہے اور جھنڈا بھی۔ وہ اتنی پُرجوش نظر آ رہی ہے چودہ اگست کو، کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ اس کا آخری جشن آزادی ہے اور چند دن بعد ہی ایک حیوان اس کو نگل لے گا۔ کیا ایسے درندوں کی تربیت نہیں کی جاتی؟ کیا ان کو مذہب کی بنیادی تعلیمات کا نہیں پتا؟ کیا ان کے دل خوفِ خدا سے عاری ہو چکے ہیں؟ کیا ان کے والدین نے ان کی تربیت نہیں کی؟ میری نظر میں ایسے والدین بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے معاشرے میں کھلے گھومنے والے ان درندوں کی صحیح تربیت نہیں کی۔ 
پانچ سالہ مروہ کتنا روئی ہوگی، کتنا ڈری ہوگی، اپنی ماں اور خدا کو اس نے کتنی بار پکارا ہوگا لیکن سفاک قاتل کو ذرا رحم نہیں آیا۔ اب جب وہ مجرم پکڑا جائے تو اسے نشانِ عبرت بنائیں۔ یہاں پر سندھ پولیس کی کارکردگی پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے‘ دو دن مروہ کے گھر والے دھکے کھاتے رہے لیکن ان کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ اس تاخیر کے ذمہ داران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے، وہ بھی مروہ کے مجرم ہیں۔ اگر پہلے گھنٹے میں ایف آئی آر درج ہو جاتی اور پولیس بچی کی تلاش شروع کر دیتی تو کم از کم مروہ کی لاش کچرے سے نہیں ملتی۔
میں ایک ایسی ہی بچی کو جانتی ہوں‘ کراچی میں ہی چند سال پہلے اپنی دوائی لینے کے لیے نکلی تھی‘ اس کو دکاندار نے دبوچ لیا اور اپنے گودام میں لے گیا لیکن اللہ کی مدد آئی اور دکان میں یکدم بہت سے گاہک آ گئے جس کی وجہ سے اس سفاک دکاندار نے بچی کو چھوڑ دیا۔ وہ بچی خوف سے نیلی ہوگئی تھی، اس کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن جو بھی اس کے ساتھ بیتا، اس پر وہ بہت ڈر گئی۔ اس کے ذہن پر اس واقعے کا ایسا اثر ہوا کہ وہ پھر اکیلے رہنے سے ڈرنے لگی، ماں باپ اس کو کتنے ہی ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئے‘ اس کو دوائیاں کھاتے بہت سال ہوگئے ہیں لیکن حالت اب بھی وہی ہے۔ والدین سے بھی یہاں گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو اکیلا باہر مت جانے دیں۔
اس ملک میں بچے تو کیا کامیاب پڑھی لکھی عورتیں بھی محفوظ نہیں اور گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ ہر روز اپنے شوہروں سے مار کھاتی ہیں‘ زخم چھپانے کے لئے میک اپ کرتی ہیں۔ محلے دار، ملازمین اور قریبی رشتہ دار سب جانتے ہیں لیکن کوئی بھی میاں بیوی کے معاملے میں بولنے کو تیار نہیں ہوتا اور ویسے بھی کچھ مرد عورت کو انسان سمجھنے کے بجائے ایک چیز سمجھتے ہیں‘ جو ان کی ملکیت میں ہے۔ عورت انسان ہے‘ اس کو جینے کا مکمل حق حاصل ہے۔ حال ہی میں دو خواتین صحافیوں کا قتل ہوا‘ صحافت کرنا پہلے ہی پاکستان میں آسان نہیں‘ یہ دونوں اپنے شوہروں کے ظلم کا نشانہ بنیں، دنوں ہی گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں اور بعد میں ان کو جان سے ہی مار دیا گیا۔اگر شوہر آپ پر ہاتھ اٹھائے تو اس کو وہیں روک دیں، اپنے سسرال والوں کو بتائیں، اپنے میکے والوں کو بتائیں، اس بات کو میک اپ کے پیچھے مت چھپائیں۔ اگر آپ مار پیٹ کرنے والے شوہر کو نہیں روکیں گی تو وہ آپ کو قبر تک پہنچا کر ہی دم لے گا۔ آپ کی خدمت، وفا اور فرمانبرداری اس کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ 
دو خواتین پاکستانی صحافیوں کا ایک سال کے اندر قتل ہوگیا‘ وجہ... گھریلو تشدد، عورت کی کامیابی سے جلن اور اس کے کام کرنے سے تکلیف۔ اگر پاکستان کی پڑھی لکھی اور بااختیار عورتوں کا یہ حال ہے تو سوچیں عام عورت کا یہاں کتنا استحصال ہوتا ہوگا۔ 2019ء میں صحافی عروج اقبال کا قتل ہوا جواس کے سابق شوہر نے کیا۔ جب عروج اور اس کے شوہر کے تعلقات خراب ہوئے تو ان کے مابین طلاق ہوگئی اور عروج نے الگ کام کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے سابق شوہر نے اسے قتل کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد مرحومہ عروج کے گھر والوں نے سابق شوہر کو معاف کر دیا۔ عروج جو پاکستان کی پہلی خاتون صحافی تھی‘ جس کو صحافت کی وجہ سے قتل کیا گیا، اس کے سابقہ شوہر نے طلاق کے بعد بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور اس کی آگے بڑھنے کی جستجو اور کام کرنے کی لگن سابقہ شوہر سے برداشت نہیں ہو پائی اور معاملہ قتل پر منتج ہوا۔
اگر تربت کی شاہینہ شاہین کی بات کی جائے تو وہ ہر فن مولا تھی‘ اچھی اینکر‘ بہترین پینٹر اور محنتی صحافی۔ اس کو بھی مبینہ طور پر اس کے شوہر نے مارا اور خود فرار ہوگیا۔ شاہینہ کی ساتھی رپورٹرز میڈیا کو بتا رہی تھیں کہ شاہینہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی، وہ بہت محنتی تھی، اپنی ماں اور بہنوں کا سہارا تھی۔ تربت جیسے شہر میں جہاں خواتین کے لئے مواقع نہایت کم ہیں‘ وہاں شاہینہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھی مگر اس کے شقی القلب شوہر نے تربت کا ستارہ بجھا دیا۔ اگر کوئی مرد کامیاب عورت سے اتنا ہی خائف ہے تو اس سے الگ ہو جائے لیکن جان سے مار دینا... ؟اگر کسی کو کامیاب‘ پڑھی لکھی عورت نہیں پسند تو ان سے فاصلہ رکھے، شادی کرنا بھی حسین‘ پڑھی لکھی عورت سے ہے اور شادی کے بعد یہ کوشش کرنا کہ اس عورت کو ماسی یا ملازمہ میں تبدیل کر دیا جائے... میری والدین سے بھی گزارش ہے کہ بیٹیوں کے ساتھ بیٹوں کی بھی اچھی تربیت کریں‘ ان کو اچھا شوہر بننے کی تربیت دیں، بیویاں کوئی بحالیٔ صحت کے ادارے نہیں چلاتیں کہ جہاں قدامت پرست‘ تنگ نظر اور شقی القلب شوہر ٹھیک ہو جائیں۔
حوا کی بیٹی کی بھی کیا زندگی ہے‘ کہیں زیادتی سے مر رہی ہے‘ کہیں چولہا پھٹنے سے مر جاتی ہے‘ کہیں اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے تو کہیں اس پر گولیاں برسائی جاتی ہیں کچھ لوگ تو کوکھ میں ہی اس کا قتل کر دیتے ہیں کہ ان کو بیٹی نہیں‘ بیٹا چاہیے ہوتا ہے۔ عورت کا اتنا استحصال کیوں؟ وہ بھی انسان ہے‘ اس کو بھی درد ہوتا ہے‘ اس کے بھی جذبات ہوتے ہیں‘ اس کی بھی خواہشات ہوتی ہیں۔ یہ دنیا صرف مردوں کے لئے نہیں بنائی گئی۔ یہ عورتوں اور بچوں کی بھی اتنی ہے‘ جتنی مردوں کی۔ اس لئے ان کو بھی جینے کا حق دیا جائے۔ پاکستان کے میں ہر خاص و عام بالخصوص چند مردوں کو اس وقت شدید ضرورت ہے کہ وہ اسوہ حسنہ کا مطالعہ کریں اور خود کو مذہب کے قریب کریں تاکہ جنسی حملے اور گھریلو تشدد ختم ہو۔ میں کالم کی آخری سطور لکھ رہی تھی کہ ٹی وی پر خبر آگئی کہ محمود آباد میں خاتون کا قتل‘ شوہر گرفتار۔ میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے رشتوں سے برکت کیوں اٹھ گئی ہے؟ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے‘ کچھ بدبخت بیٹے اب مائوں کو مار رہے ہیں‘ ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اخلاقی اور دینی انقلاب کی ضرورت ہے۔ کوئی ہے جو حوا کی بیٹی کے خلاف قتل و غارت کے سلسلے کو روک سکے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved