تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-09-2020

ایمانداری یا کچھ اور؟

سوشل میڈیا کا ایک فائدہ خوب ہے کہ زندگی سے بوریت ختم ہو گئی ہے۔ دن رات آپ کو ایسے ایسے شگوفے دیکھنے کو ملتے ہیں، ایسی ایسی منطق سننے کو ملتی ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اپنے اپنے لیڈر کے حق میں ایسی ایسی مثالیں اور ایسی ایسی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں کہ الفاظ آپ کے گلے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ وزیراعظم سے متعلق دو کہانیوں پر ذرا غور کیجیے اور پھر میری طرف سے ان کا جواب بھی۔ 
کہانی نمبر 1۔ پاکستانی معیشت اور عمران خان کی حکومت کا بہترین تجزیہ
''ایک پاکستانی طویل عرصے بعد بیرونِ ملک سے واپس آیا تو دیکھا کہ گھر میں نوکر چاکر، گاڑیوں کی ریل پیل لگی ہوئی، ہر طرف خوشحالی، ہر کمرے میں اے سی چل رہا۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ جتنے پیسے میں بھیجتا رہا، اس میں یہ سب تو نہیں ہو سکتا۔ جب حساب کیا تو پتا چلا کہ سالانہ چالیس لاکھ روپے میں ان کو بھیجتا تھا، جبکہ گھر والے ساٹھ لاکھ روپے خرچ کرتے رہے۔ گھر والوں سے پوچھا: باقی بیس لاکھ روپے کہاں سے آتے رہے؟ گھر والوں نے بتایا کہ وہ قرض لیتے تھے‘ جس سے ایک کروڑ روپے قرض چڑھ گیا۔ وہ آدمی بہت پریشان ہوا اور سوچا کہ اس کو ٹھیک کرنا ہے۔ بھائیوں نے بتایا کہ دس لاکھ روپے قرض کی قسط فوری طور پر واپس دینی ہے اور بیس لاکھ روپے ہر مہینے اضافی خرچ بھی چاہئے۔ اس شخص نے اپنا اکائونٹ دیکھا تو اس میں صرف 9لاکھ روپے موجود تھے۔ مرتا کیا نہ کرتا، بیچارے نے دوستوں سے فوری ادھار مانگا تاکہ قسط بھی اتارے اور اضافی خرچ بھی پورا کرے۔ پھر اس نے فالتو نوکر نکالنے کا سوچا تو پتا لگا کہ ان سے تو کئی سال کا معاہدہ ہے۔ کام کریں‘ نہ کریں، تنخواہ دینا ہوگی۔ اسے بتایا گیا کہ کئی ماہ بجلی کا بل جمع نہ کروانے کی وجہ سے وہ بارہ لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ بڑی زور زبردستی اور گھر والوں کی ناراضی مول لے کر پہلے سال اس نے گھر کا خرچ 60لاکھ روپے سے کم کر کے 53لاکھ کیا لیکن اب بھی آمدن سے 13لاکھ روپے کا فرق تھا؛ لہٰذا مزید قرض لے کر فرق ادا کیا اور مزید سختی شروع کر دی۔ دوسرے سال خرچ اپنی کمائی کے قریب یعنی 44لاکھ روپے پر لے آیا۔ اب ساری کوشش یہ ہے کہ اپنی آمدن 40لاکھ سے بڑھائے تاکہ گھر والوں پر سختی کم ہو اور حالات بہتر ہوں۔ گھر والے کہتے ہیں کہ تمہارے آنے سے پہلے سب اچھا بھلا چل رہا تھا۔ تم نے تو واپس آکر ہماری زندگی عذاب کر دی‘‘۔
آپ کہانی سنتے جائیں اور سر دھنتے جائیں لیکن اس کے نقائص پر بھی غور کریں۔ وہ شخص باہر سے آیا ہو گا مگر عمران خان کئی عشروں کے بعد اچانک پاکستان واپس نہیں آئے‘ بلکہ وہ یہیں پر موجود تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ گھر کا نظام جس طرح چل رہا ہے، وہ بالکل غلط ہے۔ وہ ان غلطیوں کی بار بار نشاندہی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف میں ہوں، جو اس نظام کو درست کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ صرف میں ہوں جو گھر میں ہونے والی بد انتظامیوں کو سمجھتا ہے۔ صرف میں ہوں جو گھر کو خوشحال کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے گھر کے مسائل درست کرنے کی مکمل تیاری کر رکھی ہے۔ کئی بار جلسۂ عام میں انہوں نے یہ اعلان کیا کہ (تمام تر خراب حالات کے باوجود) اقتدار میں آنے کے بعد میں قرض نہیں لوں گا۔ ٹیکس اکٹھا کروں گا اور پاکستان کے مسائل حل کروں گا۔
موجودہ صورتحال کے تناظر میں اس کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے؛ یا تو عمران خان کو صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں تھا اور یا پھر اقتدار میں آنے سے قبل وہ قوم کو سبز باغ دکھاتے رہے۔ یہ بات درست ہے کہ پچھلی حکومتیں پاکستان پہ اتنا قرض چڑھا چکی تھیں کہ واپسی کے لیے بھی مزید قرض لینے کے سوا فوری طور پر کوئی راستہ نہیں تھا لیکن پھر سبز باغ دکھانے کا مطلب؟
اقتدار میں آنے سے پہلے اسد عمر کو معاشی جادوگر کی طرح پینٹ کی گیا تھا، جس کے پاس پاکستان کے تمام مسائل کا حل موجو د تھا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ کسی کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ملکی معیشت سنبھالنے کے لیے پیپلز پارٹی کے مشیر مستعار لینا پڑے۔ وہی پیپلز پارٹی‘ دو فیصد شرح ترقی کے ساتھ جس کا دور ملکی تاریخ کا شاید بدترین دور تھا۔ الیکشن سے پہلے کپتان کا مؤقف یہ تھا کہ ہم پوری تیاری کر چکے، ریلوے اور پی آئی اے سمیت تمام اداروں کو خسارے سے نکالیں گے۔ ٹیکس چوری سے نمٹا جائے گا۔ پورے ملک میں اصلاحات کا آغاز ہوگا۔ بیرونِ ملک سے لوگ نوکری کے لیے پاکستان آیا کریں گے۔ حکومت کے دو سال بعد پرنالا مگر آج بھی وہیں گر رہا ہے۔
کہانی نمبر2: ایماندار ڈرائیور 
''ایک گھر والوں نے ڈرائیور رکھا۔ یہ ڈرائیور بہت بے ایمان تھا۔ پٹرول کے پیسوں میں ہیرا پھیری کرتا۔ سودا سلف لینے جاتا تو بے ایمانی کرتا۔ آہستہ آہستہ اس نے انتہائی قیمتی گاڑی کے پرزے نکال کر فروخت کرنا شروع کر دیے۔ گاڑی ناکارہ ہونا شروع ہو گئی اور رفتہ رفتہ بالکل برباد ہو گئی۔ ایک دن جب وہ گاڑی کا آخری قیمتی پرزہ نکال رہا تھا تو مالک نے آکر اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ اس کو فوراً نوکری سے نکال دیا گیا۔ پھر ایک انتہائی ایماندار شخص کو ڈرائیور رکھا گیا۔ جب یہ ایماندار ڈرائیور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور جب اس نے سلف گھما کر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی تو تباہ حال گاڑی نے سٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا۔ اس وقت مالک کا بھائی باہر نکلا اور طنزیہ لہجے میں کہنے لگا: یہ ہے تمہارا ایماندار ڈرائیور، جو گاڑی بھی سٹارٹ نہیں کر سکتا؟
اب اس کہانی کے تضادات دیکھیے۔ نیا ایماندار ڈرائیور کوئی انجان شخص ہرگز نہیں تھا بلکہ وہی روز گھر کے مالک کو بے ایمان ڈرائیور کی بے ایمانی کی داستانیں سنایا کرتا تھا۔ اسی نے گاڑی کا پرزہ نکالتے ہوئے بے ایمان ڈرائیور کو رنگے ہاتھوں گرفتار کروایا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ وہ گاڑی کی تباہ حالی سے مکمل طور پر واقف ہے۔ اسے ایک موقع دیا جائے، وہ اسی گاڑی کوصرف بھگائے گا ہی نہیں بلکہ ہوا میں اڑا کر بھی دکھائے گا۔ ایماندار ڈرائیور کا کہنا یہ تھا کہ وہ اسی تباہ حال گاڑی کو چلا کر، لوگوں سے اتنے پیسے اکٹھے کرے گا کہ گاڑی کی تمام خرابیاں بھی دور ہو جائیں گی اور گھر والوں کے سب معاشی مسائل بھی۔ وہ صرف ڈرائیور نہیں تھا بلکہ اس کے بقول اس کے پاس گھر والوں کے تمام معاشی مسائل کا حل بھی موجود تھا۔
اب میں آپ سے ایک اور سوال پوچھتا ہوں۔ اگر آپ ایک بے ایمان منیجر اور اس کے انڈر کام کرنے والے تمام بے ایمان ملازمین کو فارغ کر دیں۔ پھر آپ ایک ایماندار منیجر رکھیں اور اسے گھر کے انتظامات ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیں لیکن اگلے دن وہ آکر یہ کہے کہ بے ایمان منیجر کا رکھا گیا فلاں بندہ ناگزیر ہے، اسے دوبارہ رکھنا ہوگا۔ مجبوراً آپ اس کی بات مان لیں۔ پھر دوسرے دن بے ایمان منیجر کا دوسرا ملازم رکھنا پڑے۔ ہوتے ہوتے نوبت یہ آجائے کہ پچھلے منیجر کے تمام بے ایمان اور نالائق ملازم اس ایماندار منیجر کے نیچے جمع ہو جائیں تو پھر تبدیلی کس طرف سے آئے گی؟ اس صورتِ حال میں ایماندا ر منیجر آپ کی نظر میں کتنا ایماندا ررہ جائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ قاف لیگ، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سارے چلے ہوئے کارتوس تحریکِ انصاف میں جمع ہو چکے ہیں۔ عمران خان کے ذاتی ایماندارانہ تشخص کی وجہ سے لوگ یہ سب برداشت کر تے رہے لیکن یہ دو سال جس طرح گزرے ہیں، اس کے بعد بھی اگر کسی کا حسنِ ظن باقی ہے تو یہ ایمانداری کی نہیں کسی اور چیز کی نشانی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved