تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-09-2020

… یہ تین برس کتنے سال کے ہوں گے!

بلّی تھیلے سے باہر آچکی ہے۔ ایک مدت سے سنتے آئے تھے کہ کراچی پر بھی قدرت مہربان ہوگی، اِس کے بھی دن پھریں گے۔ سب کے دن پھرتے ہیں۔ عمر شریف نے علی بھائی (اداکار محمد علی مرحوم) کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں ایک آئٹم سنایا تھا جو کچھ یوں تھا کہ جب وہ (عمر شریف) اور جاوید شیخ مشکلات کے دور سے گزر رہے تھے تب ایک دن (عمر شریف کے گھر میں) جاوید شیخ کو اداس دیکھ کر عمر شریف کی والدہ نے پوچھا کہ بیٹا کیوں پریشان کیوں ہو؟ جاوید شیخ نے بتایا کہ فلمیں نہیں چل رہیں‘ کام نہیں مل رہا۔ اماں نے دلاسہ دیا کہ بیٹا! مایوس مت ہو، ایک دن تیرے بھی دن پھریں گے، ایک دن لمبے منہ کا بھی فیشن آئے گا اور تو ہٹ ہو جائے گا!
لگتا ہے کہ کراچی کے لمبے منہ کو بھی اب قبول کرلیا گیا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ گھوڑے کے دن بھی پھرتے ہیں، پھر بھلا کراچی پر قدرت کیوں مہربان نہ ہوتی؟ اہلِ نظر کی نظر کراچی پر پڑ ہی گئی۔ اربابِ بست و کشاد نے طے کرلیا ہے کہ اب شہرِ قائد کو بے لگام و بے آسرا نہیں چھوڑنا۔ معاملات کو تین برس میں درست کرنے کی یقین دہانی کرادی گئی ہے۔ وزیر اعظم کی کراچی آمد اور 1100 ارب روپے کے کراچی ٹرانسفرمیشن پیکیج کے اعلان سے قبل آرمی چیف نے کراچی پہنچ کر دو دن قیام کیا اور اِس دوران شہر کے حالات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ کاروباری برادری کی سرکردہ شخصیات سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں یہ یقین دلاتے ہوئے کاروباری طبقے کو اعتماد میں لیا گیا کہ کراچی کی ہر کَل سیدھی کردی جائے گی اور یہ کام صرف تین سال میں ہوگا۔ کاروباری برادری مطمئن ہوگئی ہے۔ حالیہ بارشوں سے اسے بھی غیر معمولی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس سے قبل کورونا کی وبا کے دوران نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن سے بھی کاروباری طبقے کو شدید دھچکا لگ چکا ہے۔کراچی میں کیا ہوسکے گا اور کیا نہیں‘ اِس کی بحث سے قطعِ نظر یہ حقیقت خوش آئند ہے کہ جن کے ہاتھ میں معاملات ہیں اُنہیں اِس شہر کا خیال آگیا ہے اور وہ کچھ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ایک زمانے سے کراچی کو بدلنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کبھی یہ باتیں زور پکڑ لیتی ہیں اور کبھی سب کچھ جمود کا شکار ہوتا دکھائی دینے لگتا ہے۔ پورے اخلاص کے ساتھ کچھ کرنے والے کم ہیں اور باتیں بگھارنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ملک میں منصوبے بھی بہت آئے ہیں اور اُن پر عمل درآمد کے حوالے سے شور بھی بہت سُنا گیا ہے۔ جب شور کی گرد بیٹھتی ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ صرف باتوں سے کچھ بھی نہیں ہوتا‘ فرق تو حقیقی اقدامات سے دکھائی دیتا ہے۔وزیر اعظم نے کراچی کا بنیادی ڈھانچا درست کرنے، جامع ماس ٹرانزٹ سسٹم کا قیام یقینی بنانے اور فراہمی و نکاسیٔ آب کے حوالے سے پائی جانے والی پیچیدگیاں دور کرنے کا کہا ہے۔ 1100 ارب روپے کا پیکیج کم نہیں ہوتا۔ اگر یہ پیکیج پوری دیانت اور جاں فشانی سے خرچ کردیا جائے تو کراچی کچھ کا کچھ ہو جائے گا۔ اتنی بڑی فنڈنگ سے کراچی میں اِتنی مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی کہ شہر کا حلیہ بدل جائے گا ۔کراچی کے لیے پیکیج کے اعلان نے اہلِ شہر کو پُرامید ہونے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔ ایک زمانے سے کراچی کے بارے میں کیے جانے والے وعدے اور دعوے سُن کر لوگ کہتے تھے ؎
تو اور خیالِ خاطرِ اہلِ وفا کرے
اُمید تو نہیں ہے مگر ہاں! خدا کرے!
ماضی کے تلخ تجربات کے بارے میں سوچ سوچ کر دل سہم جاتا ہے۔ دل کا سہم جانا غیر فطری نہیں۔ حقیقتوں سے نظر چُرائی نہیں جاسکتی۔ اب جس پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے وہ واقعی اِتنا بڑا ہے کہ اِس اندیشے کا ابھرنا لازم ہے کہ اس پر کماحقہٗ عمل ہو بھی سکے گا یا نہیں ؎
سنا ہے شہر کی قسمت چمکنے والی ہے
کہ سارے کام ہی اب تو کمال کے ہوں گے
بدل ہی دیں گے کراچی کو صرف تین برس میں
مگر یہ تین برس کتنے سال کے ہوں گے!
حالیہ بارشوں کے نتیجے میں جو تباہی واقع ہوئی اُس نے حقیقی اور فیصلہ کن تازیانے کا کام کیا ہے۔ اہلِ شہر میں مسائل کو مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔ وہ حقیقی تبدیلی رونما ہوتی دیکھنا چاہتی ہے۔ ملک کے تمام معاملات پر جن کا حقیقی اختیار ہے ان کے کاندھوں پر اب بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔کراچی کے لیے خصوصی پیکیج کے اعلان کے ساتھ ہی مختلف حلقوں کی طرف سے انتظامی سطح پر اصلاحات کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین اور کراچی کے سابق ناظم مصطفی کمال کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ کراچی کو ایک ضلع بناکر اٹھارہ ٹاؤنز میں تقسیم کیا جائے، اختیارات وزیر اعلیٰ کی ذات میں مرتکز رکھنے کے بجائے نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں اور کراچی کی حقیقی آبادی کا تعین کرکے قومی اور سندھ اسمبلی میں نشستوں کا کوٹہ بڑھایا جائے۔ ناگزیر حیثیت اختیار کر جانے والی انتظامی اصلاحات کے بغیر کوئی بھی پیکیج مطلوب نتائج پیدا نہ کرسکے گا۔
شہر کو نئے میک اوور کی ضرورت ہے۔ یہ میک اوور کس طور ممکن ہوسکے گا‘ اِس کا مدار نیت کے اخلاص پر ہے۔ کراچی میں سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر مقتدر قوتوں نے جس پیکیج کا اعلان کیا ہے‘ وہ کراچی کو مکمل طور پر ایک نیا انداز اور بھرپور تازگی کا احساس دینے کے لیے کافی ہے۔ زیادہ توجہ اس نکتے پر مرکوز کی جانی چاہیے کہ پیکیج کے تحت مختص کیے جانے والے فنڈز کا غلط استعمال نہ ہو اور کراچی کے تمام حصوں کو برابری کی بنیاد پر فنڈنگ ملے۔ چند علاقوں پر زیادہ توجہ دے کر پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کرنے سے معاملات درست نہ ہوسکیں گے۔ مسائل پورے شہر میں ہیں۔ غریب بستیوں کا بہت بُرا حال ہے۔ غریبوں کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا دوبھر ہوچکا ہے۔ مضافات کی نشیبی بستیوں کی اَپ لفٹ کے بغیر شہر اُڑان کے قابل نہ ہوسکے گا۔ مذموم ذہنیت کے ساتھ شہر کو دیہی اور شہری کی تقسیم کی نذر کردیا گیا ہے۔ یہ تقسیم ختم کیے بغیر بات بنے گی نہیں۔ پیکیج پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والوں کو پورے شہر کا حقیقی مفاد ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ اس وقت شہر میں کئی زبانوں کے بولنے والے اور غیر معمولی نسلی و ثقافتی تنوع کے حامل افراد سکونت پذیر ہیں۔ بہت سی آبادیاں دراصل برادریوں کی بنیاد پر قائم ہیں۔ ان سب کے مفادات کے بارے میں سوچتے ہوئے پورے توازن کے ساتھ فنڈز کو بروئے کار لانا لازم ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو شکایات کا ڈھیر لگ جائے گا۔ ایسی صورت میں کراچی ٹرانسفرمیشن پلان مطلوب نتائج پیدا کرنے کی صفت سے محروم ہو جائے گا۔پیکیج کے اعلان سے اُمید بھی پیدا ہوئی ہے اور خدشات نے بھی جنم لیا ہے۔ پیکیج پر عمل درآمد کی ابتدا سے قبل خدشات کا دور کیا جانا لازم ہے۔ شہر کے اصل باشندوں کا مفاد کسی طور نظر انداز نہ کیا جائے اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کی بہبود پر بھی خاطر توجہ دی جائے تاکہ کسی بھی گوشے سے شکایت پر مبنی آواز بلند نہ ہو۔ کوئی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہ رہے ؎
کھلے ہیں پھول، بسی ہے فضا میں خوشبو بھی
مگر وہ بات نہیں ہے ہوا کے لہجے میں
اِسی اِک آس میں اب کے بھی فصلِ گُل گزری
وہ ہم سے بات کریں گے صبا کے لہجے میں
خدا کرے کہ تین برس واقعی تین برس کے ہوں، کراچی میں بے حسی کی سیاہ رات ڈھلے اور زندگی کی نوید کا درجہ رکھنے والا انصاف و ترقی کا سُورج طلوع ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved