تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     10-09-2020

ململ کی پوٹلی والے

بنگال کا واقعہ ہے۔ وہ بھی غیر منقسم بنگال۔ بنگال کے بہت سے نوابوں میں سے ایک نواب تھے، بہت مالدار۔ بہت جائیداد اکٹھی کی تھی۔ باغات، جاگیریں، کوٹھیاں ان گنت۔ نواب صاحب کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ خانساماں نت نئے کھانے تیار کرنے میں ہمہ وقت جتے رہتے تھے۔ لیکن خدا کا کرنا یہ کہ عین جوانی میں نواب صاحب کو کوئی مرض لاحق ہوا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔ کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جو انہیں پسند تھیں، ان کے مرض میں اضافہ کرنے لگیں۔ دیگر شوقینیوں کا ذکر ہی کیا، چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوگئے۔ طبیب تمام تدبیریں کرکے ہار گئے۔ آخر آخر یہ حال ہوا کہ قیمہ پکاکر ململ کی پوٹلی میں باندھا جاتا اور اس سے نچڑنے والا پانی یا عرق نواب صاحب کو دیا جاتا۔ یہی ان کی غذا تھی اور یہی ان کی دوا۔ نواب صاحب کی بقایا زندگی یہ دیکھتے گزری کہ تمام گھر والے، مصاحبین، حواریین اور ملازمین نواب صاحب کی دولت سے کس طرح روزوشب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ اذیت اشیا سے محرومی، بے بسی اور رزق کے ایک ایک نوالے کو ترس جانے کی اذیتوں سے کسی طور کم نہیں تھی۔
میرے والد رات کے کھانے پر ہم بچوں کو یہ قصہ سنا رہے تھے اور ان نواب صاحب کی ایک تصویر ذہن میں بے بسی کی کیفیات کے ساتھ مجسم ہوتی جارہی تھی۔ ایک بچے نے سوچاکہ باقی زندگی کتنا جیے ہوں گے نواب صاحب اور وہ زندگی بھی کیا زندگی ہو گی۔ اور ایک ایک لمحہ نواب صاحب پر کیسے موت کی طرح وارد ہوتا ہوگا۔ کبھی بنگال جانا ہوا تو ان نواب صاحب کی جاگیریں دیکھنے ضرور جائیں گے۔
لیکن بچہ بڑا ہوا تو اسے پتہ چلا کہ یہ قصہ کسی ایک نواب اور کسی ایک ملک کا نہیں، پوری زمین پر پھیلا ہوا ہے۔ نہایت امیرکبیر لوگوں کی 'ھل من مزید‘ کی کوششیں سردھڑ کی بازیاں، کامیابیاں، ناکامیاں، شہرتیں، رسوائیاں‘ سب روز ایک نئی کہانی کی طرح سامنے آجاتا تھا‘ اس طرح کہ ململ کی پوٹلی والے نواب صاحب کی کہانی تو بچوں کی کہانی معلوم ہوتی تھی۔ ویسے تو ہر ایسے دولت مند کی کہانی عبرت انگیز ہے جو دھن اکٹھا کرنے کی دُھن میں ہر جائز ناجائز کی لکیریں پار کرتا رہا ہو اور جسے ایک دن مکافات عمل نے آلیا ہو لیکن حکمرانوں، سربراہوں، وزرائے اعظموں، صدور اور ارباب اقتدار کے ایسے قصے زیادہ لرزہ خیز ہیں کیونہ ان میں دولت کی ہوس کے ساتھ ہوسِ اقتدار بھی لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔ بے گناہوں کا خون بھی لباس کا رنگ بدل رہا ہوتا ہے اورخود انہی کی طرح دولت اور اقتدار کی ہوس رکھنے والے مخالفین کے خون سے بھی پوشاک لتھڑی ہوتی ہے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کون واقعی مجرم ہے اور کون بے گناہ۔ کون واقعی قومی خزانے پر ڈاکے ڈالتا رہا ہے، کس نے اپنی کرسی کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا، کس پر سیاسی مخالفت کے باعث مقدمات بنائے گئے اور کس کو محض انا کی خاطر عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ ہم کس کو فرشتہ کہیں اور کس کو شیطان کہ ہر کوئی اپنے بیان میں فرشتہ صفات، صادق، امین اور ملک وقوم کے مفاد کیلئے عزم و استقامت کا پہاڑ نظرآتا ہے۔ مخالف بیان سنیں تولگے گاکہ ابلیس بھی ان کی کرتوتوں پر حیران ہے اور میرصادق اور میرجعفر کی روحیں بھی انکے سامنے شرمسار کھڑی ہوتی ہیں۔ ہمارا ان بیانات سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں تو اس کروفر، تکبر، مطلق العنانی کا آج کی بے مائیگی، دربدری، ملک بدری اور پیشیاں بھگتتے پھرنے کے حالات سے موازنہ کر رہا ہوں۔ دونوں رخ جوہمارے سامنے کی بات ہے‘ پرانی کہانیاں نہیں ہیں۔
آج کی خبریں ہی دیکھ لیجیے۔ احتساب عدالت میں سابق صدر جناب آصف علی زرداری پر پارک لین ریفرنسز کی فرد جرم 17 ستمبر تک مؤخر کردی گئی۔ اسی عدالت میں توشہ خانہ کیس میں آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد کردی گئی۔ جناب آصف علی زرداری کی موجودہ تصویریں دیکھیں تو پہچاننے میں دشواری ہوتی ہے۔ توشہ خانے کے ایک اور کیس میں تین بار کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ عدالت نے نواز شریف کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردئیے۔ احتساب عدالت نے نواز شریف کی جائیداد بھی ضبط کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی تفصیلات معلوم کی ہیں۔
ایک اور سابق صدر پرویز مشرف دبئی کے ایک ہسپتال میں ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جو لاکھوں میں کسی ایک کو ہوتی ہے۔ پرویز مشرف کی پاکستان میں جائیداد پہلے ہی ضبط ہو چکی ہے۔ وہ اس بیماری کے ساتھ لندن اور دبئی میں اپنی بیش قیمت جائیدادوں کے باوجود ان سے باقی زندگی کا لطف کیسے اٹھائیں؟ یاد ہوگا کہ جب وہ کچھ مدت کے لیے پاکستان آئے تھے تو عدالتوں میں پیشیوں کا تکلیف دہ وقت بھگت کر گئے تھے۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو اور ایک تصویر دیکھی تو یقین نہیں آیا کہ یہ پرویز مشرف ہیں۔ وہ اب پہچانے بھی نہیں جاتے۔
ان میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ یہ ہمارے فیصلے نہیں لیکن یہ وہ حکمران ہیں جو چلتے تھے تو ان کے ہراول دستوں کی بوٹوں کی دھمک میلوں تک پہنچتی تھی۔ شاہراہوں پر قطاریں لگا دی جاتی تھیں اور دونوں طرف ہزار گز تک کوئی پرندہ بھی ان کے قریب پر نہیں مار سکتا تھا۔ ان کی دولت، دنیا بھر میں جائیدادوں، کاروباری کمپنیوں اور بینک اکاؤنٹس کی ہوشربا تفصیلات بیان کی جاتی ہیں تو عام آدمی منہ میں انگلیاں چبا لیتا ہے کہ واقعی! کیا ایک زندگی میں اتنی دولت کا مالک بنا جا سکتا ہے؟
اللہ ان سب کو بھی تندرست رکھے اور یہ تحریر لکھنے اور پڑھنے والوں کو بھی۔ یہ زندگی ہے اور عمر کے زوال میں صحت بھی زوال پذیر ہوکر رہتی ہے لیکن سوال وہی ہے جو بہت پرانا بھی ہے اور بہت سچا بھی۔ بس اس کا جواب بہت عمر کے بعد سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ کہ ساری سیاستوں، ساری سازشوں، سارے داغ دھبوں، سارے خون اور کیچڑ کے چھینٹوں کے بعد اگر یہی ہونا تھا، اسی صورتحال کو پہنچنا تھا توکیا اس کے لیے وہ سب روا تھا؟ اگر دنیا بھر کی ساری جائیداد اور بینک اکاؤنٹس توشہ خانہ کیس کی پیشیوں کے عذاب سے چھٹکارا نہیں دلا سکتے، ملک سے غداری کے مقدموں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ عمر بھر کی کاوشوں سے کمائی ہوئی جائیداد اور بینک اکاؤنٹس کی ضبطی ختم نہیں کروا سکتے۔ ان فوٹوگرافروں سے نجات نہیں دلا سکتے جو لمحۂ موجود کی بے بسی اور رسوائی، لمحہ لمحہ سارے زمانے کو دکھاتے رہتے ہیں، تو پھر اس جائیداد اور نوٹوں کے انبار کی اصل قیمت ہے کیا؟
اور اسے بھی چھوڑیں۔ اگر عمر اور صحت کے اس زوال میں اپنے پیاروں اور محبت کرنے والوں کے ساتھ، اپنے گھر والوں کے ساتھ، پورے بے فکری کے ساتھ ایک وقت کا کھانا بھی نہیں کھایا جا سکتا۔ دوستوں میں بیٹھ کر بغیر کسی بوجھ کے زوردار قہقہے نہیں لگائے جاسکتے۔ ایک پوری نیند کی شانتی حاصل نہیں کی جاسکتی تو پھر یہ سوال اہم ہے کہ دراصل کمایا کیا؟
شہرت، مال، دولت، اقتدار تو ان لوگوں نے بھی کمائے جنہوں نے دراصل لوگوں کی محبت کمائی تھی۔ پیغمبروں، اولیا اللہ کی مثالیں بھی چھوڑیے، حکمرانوں میں قائد اعظم کو ہی دیکھ لیں۔ ان سے زیادہ کامیابی، شہرت اور محبت سیاست دانوں میں کسی نے سوچی بھی ہے؟ عام رہنماؤں میں اقبال کو دیکھ لیں وکالت، سیاست سے شاعری تک ہر جگہ اپنی مثال آپ۔ لیکن ہمارے حکمران انہیں دیکھنے کے بجائے سکندر مرزا بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا زوال، ایسی گمنامی اور ایسی رسوائی۔
ململ کی پوٹلی والے نواب صاحب! جو اذیت آپ کی ہے وہ اپنی جگہ لیکن آپ اس اذیت میں اکیلے نہیں ہیں۔ شاید آپ کے دامن پر اتنے سرخ رنگ کے چھینٹے بھی نہیں ہوں گے۔ شاید عدالتیں بھی آپ کو بھگتنی نہیں پڑی ہوںگی۔ اس لیے کل کا بچہ آپ کو یہی تسلی دے سکتا ہے کہ آپ سے بڑے نواب اس دنیا میں ہیں جو آپ سے زیادہ اذیت میں ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved