تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     11-09-2020

کراچی کا قرض

ایک وقت ایسا آتا ہے جب دل پر لگے گہرے سے گہرے زخم بھی مندمل ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی زخموں سے ٹیس اٹھتی ہوئی محسوس ضرور ہوتی ہے مگر ہم کافی حد تک نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں لیکن خدانخواستہ اگر ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو جائے تو تمام عمر اس کے بھیانک اثرات تاریک سایوں کی مانند ہماری زندگی پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ ہم نہ صرف عقل و شعور سے محروم ہو سکتے ہیں بلکہ زندگی بھر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں رہتے‘ لہٰذا کمر میں ہلکا سا درد بھی ہلکا نہیں ہوتا اور نہ اسے معمولی سمجھنا چاہیے بلکہ فوری اس کے علاج کی طرف توجہ دینی چاہیے‘ ورنہ سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ اگر اس تناظر میں بات کی جائے شہرِ قائد کی تو بلاشبہ کراچی پاکستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور بلامبالغہ پاکستان کی معاشی صحت و سلامتی کا دار و مدار کراچی کی ترقی اور خوشحالی پر ہے۔ سمندر کنارے واقع‘ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا آٹھواں بڑا شہر ہے جو یقینا اپنی صنعتی و تجارتی سرگرمیوں، بین الاقوامی ایئر پورٹ، بندرگاہ، سٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان سٹاک ایکسچینج اور مزارِ قائد کی موجودگی کی بنا پر پاکستان میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کراچی کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حکومتِ پاکستان نے پہلی تین دہائیوں میں کراچی کو ایک بین الاقوامی شہر بنانے کے لئے دن رات خوب محنت کی اور شہری سہولتوں سے لے کر صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے تک کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یوں کراچی روشنیوں کا شہر کہلایا۔ پاکستان سٹیل جیسے بڑے اداروں نے شہرِ قائد میں روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا کئے اور کراچی کے باسیوں نے اپنی اعلیٰ ظرفی کے دستر خوان پھیلا کر پاکستان بھر سے لوگوں کو خوش آمدید کہا، اس طرح یہ سندھی، مہاجر، بلوچ، پشتون اور پنجابی سب کے لئے یکساں اہمیت کا حامل شہر بن گیا اور ''مِنی پاکستان ‘‘کے نام سے جانا جانے لگا۔ پاکستان کے دورے پر آنے والے تمام عمائدین اور سربراہانِ مملکت بشمول ملکہ برطانیہ اور امریکی صدر کی کراچی آمد پر شہر کو دلہن کی طرح سجایا جاتا، سنوارا جاتا، نکھارا جاتا اور اہالیانِ کراچی کا والہانہ استقبال، ثقافتی حسن اور بے پناہ محبت آنے والے معزز مہمانوں کا دل جیت لیتے اور وہ ہمیشہ کے لیے کراچی کے دیوانے ہو جاتے مگر پھر پاکستان کی صنعتی و تجارتی ترقی کے ضامن اس شہر کو حاسدوں کی نظرِ بد لگ گئی اور پاکستان کے دشمنوں نے اسے اپنی مذموم کارروائیوں کا ہدف بنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1980ء کے اوائل سے لے کر آج تک‘ کراچی گزشتہ چار دہائیوں سے مختلف مسائل میں گھرا ہوا نظر آتا ہے۔
پاکستان کے دشمنوں نے روشنیوں کے اس شہر کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اپنے مخصوص کارندے کرائے پر لے کر کراچی میں نسلی فسادات و صوبائی تعصب کے نام پر آگ اور خون کی ہو لی کھیلی۔ اس طرح شہرِ قائد کو ابتدا میں جو مرکزی اہمیت حاصل تھی‘ وہ بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں معدوم ہوتی چلی گئی۔ مفاد پرستی کی چادر اوڑھے مقامی حکومت پر راج کرنے والے مفاد پرست عناصر نے خود کو کراچی کا وارث کہہ کر کراچی کو لاوارث کر دیا۔ ایک مدت تک دشمنوں کے ہاتھوں کھیلنے والوں نے کراچی کو مکمل طور پر یرغمال بنائے رکھا اور بغض پر مبنی خوفناک سیاست کی گئی جس کے نتیجے میں اِسے کئی بار لہو سے رنگا گیا۔ اس ناپاک سیاست نے اپنا زہر کراچی میں بسنے والے مہاجرین کی رگوں میں انڈیلنا شروع کیا، اس مکروہ کھیل کو بھارت کی خفیہ ایجنسی کی پشت پناہی حاصل رہی جو (خاکمِ بدہن) پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی (کراچی) پر کاری ضرب لگا کر پاکستان کو گھٹنوں کے بل گرانا چاہتی تھی تاکہ وہ کبھی دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو سکے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ روشنیوں کا شہر کراچی اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں شمار ہونے لگا۔ معاشی، صنعتی اور تجارتی ترقی کا پہیہ جام کر دیا گیا اور کراچی کی شناخت ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، بوری بند لاشیں، سٹریٹ کرائمز، لوٹ کھسوٹ اور دیگر گھنائونے جرائم کے گڑھ کے طور پر ہونے لگی۔ مگر ہماری خوش بختی یہ ہے کہ قومی سلامتی کے محافظ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک مربوط اور جامع حکمتِ عملی کے ذریعے پاکستان کے دشمنوں اور ان کے آلہ کاروں کے تمام ناپاک عزائم کو کلی طور پر ناکام بنا دیا اور کراچی کو دوبارہ امن و آشتی کا گہوارہ بنا کر اس کی معیشت، صنعت اور تجارت کو دوبارہ مضبوط اور توانا بنانے کا کام شروع کر دیا۔
گزشتہ چار دہائیوں میں جاری رہنے والے آگ اور خون کے اس کھیل میں کراچی میں شہری سہولتوں کو یقینی بنانے والے تمام اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔ سمندر کے کنارے واقع ہونے کے باوجود کراچی کے باسی صاف پانی کی بوند بوند کو ترس گئے۔ ٹرانسپورٹ کی سہولت عملی طور پر مفقود نظر آئی، جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر دکھائی دیے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں تو ندی نالے تجاوزات کی زد میں آکر مکمل طور پر ناکارہ ہو گئے۔ دوسری طرف اٹھارہویں ترمیم کے بعد تمام معاشی وسائل اور محصولات کی موجودگی کے باوجود‘ صوبائی حکومت کی بدانتظامی اور بے حسی کے سبب وطنِ عزیز کو پچپن فیصد ریونیو دینے والے کراچی کے عوام اِسے ''کچراچی‘‘ کہنے پر مجبور ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ بارشوں نے کراچی کو ایسا بے حال کیا کہ بارش کا پانی سیلابی ریلے کی صورت میں پورے شہر میں دندناتا رہا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سمندر نے آگے بڑھ کر تمام شہر کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہو، سڑکیں دریا اور گلیاں ندیوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ شہر کے ساتوں انڈر پاس سوئمنگ پول بن گئے۔ پانی کے بپھرے ریلے گاڑیوں، بسوں اور موٹر سا ئیکلوں کو بہا لے گئے، فولادی کنٹینر ز کاغذ کی کشتیوں کی طرح پانی کے ساتھ ڈولتے نظر آئے۔ بارش کا پانی سینہ تان کر آگے بڑھا اور سرکاری دفاتر، عدالتوں، رہائشی علاقوں اور مارکیٹوں کو ڈبوتے ہوئے ایک خوفناک قدرتی آفت کی شکل اختیار کر گیا۔اس تباہ کن صورتحال پر عدالتِ عظمیٰ نے خاصی برہمی کا اظہار کیا اور حکومتِ سندھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی ''حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں، سندھ حکومت کی رِٹ کہاں ہے؟ وزیراعلیٰ سندھ ہیلی کاپٹر پر جاتے ہیں، گھوم کر واپس آ جاتے ہیں، لوگوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ شہر میں صفائی کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ہے جو اس شہر کو صاف کرائے؟ بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوبتے ہیں، کے الیکٹرک والے بھی یہاں مزے لے رہے ہیں، شہر میں کئی گھنٹوں پر محیط لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے،کس کی اتنی ہمت ہے کہ وہ کراچی کی بجلی بند کرے؟ کراچی کو ہر کوئی تباہ کر رہا ہے، ہر کوئی اپنے حصے کی بالٹی بھر کے چلا جاتا ہے‘‘۔
کراچی ہم سب کا ہے اور ہم سب اس کے مقروض ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ اس قدرتی آفت کے سامنے بے بس صوبائی حکومت نے جب ایک بار پھر فنڈز کی کمی کا رونا رو کر اپنی ناکامی کے جواز تراشنے کی کوشش کی تو وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں پر محیط شہرِ قائد کے جملہ مسائل کو یکسر حل کرنے اور کراچی کا قرض چکانے کی ٹھان لی۔ وہ گزشتہ دنوں پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے گیارہ سو ارب کے ڈویلپمنٹ پیکیج کے ساتھ کراچی پہنچے اور سندھ حکومت کے ساتھ تعاون اور اشتراکِ عمل کے ایک مربوط پروگرام کے ذریعے کراچی کی مکمل بحالی اور تعمیرِ نو کا جامع منصوبہ ترتیب دیا۔ اگر یہ گیارہ سو ارب پوری ذمہ داری، دیانت داری اور شفاف انداز میں خرچ کیے گئے تو بلاشبہ کراچی ایک مرتبہ پھر پاکستان کی صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا اور ہمارے معاشی استحکام کی ضمانت بن کر قومی ترقی و خوشحالی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہوا نظر آئے گا، ان شاء اللہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved