فرق صرف اور صرف جوش و جذبے اور لگن سے پیدا ہوتا ہے۔ جو لوگ کام پر پوری توجہ مرکوز رکھتے ہیں‘ وہ بھرپور جوش و خروش کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ یہ انداز ہی اُنہیں دوسروں سے الگ کرتا ہے۔ غیر معمولی جوش و خروش سے کام کرنے اور زندگی بسر کرنے والے دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی سوچ اُن کی چال سے ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ جوش اور ولولہ آئے کہاں سے؟ اور اِسے برقرار کیسے رکھا جائے؟ دنیا بھر میں لوگ کام کرتے ہوئے ہی تو زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہاں! ولولہ ہر ایک کے کام میں دکھائی نہیں دیتا۔ جوانی میں کسی کے کام یعنی ہنر میں جو ولولہ دکھائی دیتا ہے‘ وہ رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان باقی دنیا جیسا ہی ہوکر رہ جاتا ہے۔ کام کرنے کی لگن برقرار رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اچھا خاصا وقت ضایع کردیتے ہیں۔ وقت کا ضیاع بعد میں پوری شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت کا ضیاع انسان کو حواس باختہ کرکے دم لیتا ہے۔ پھر جب جھنجھلاہٹ طاری ہوتی ہے تب بیشتر کام بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
ولولہ پیدا کرنے کا کوئی معیّن اصول نہیں۔ مختلف عوامل یا حالات مل کر ولولے کے لیے زمین تیار کرتے ہیں۔ جب انسان معاملات کو سمجھنے کی طرف مائل ہوتا ہے، مسائل کی نوعیت اور شدت پر غور کرنے کے بعد اپنی صلاحیت و سکت کا جائزہ لیتا ہے، اپنی استعداد جانچتا ہے تب امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں انسان محسوس کرتا ہے وہ بہت کچھ کرسکتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ جب انسان معاملات کی اصلیت کو سمجھتا ہو تو وہ بہت کچھ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
ولولہ کم و بیش ہر معاملے میں فرق پیدا کرنے والا عنصر ہے۔ ولولے ہی سے طے ہوتا ہے کہ انسان کیا اور کتنا کرسکے گا۔ اس دنیا کی ساری رونق ولولے ہی سے قائم ہے۔ اگر ہر انسان عمومی نوعیت کی لگن سے کام کرے تو کوئی بڑی بات رونما نہ ہو‘ کچھ فرق نہ پڑے۔بہت سوں کو اس حالت میں دیکھا گیا ہے کہ بات بات پر چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ ہر وہ انسان بات بات پر بھڑک اٹھتا ہے جس نے اپنا اچھا خاصا وقت ضائع کیا ہو یا سوچے سمجھے بغیر کسی بھی راہ پر گامزن ہونے پر اپنے مادّی وسائل برباد کیے ہوں۔ قدرت نے ہر انسان کے لیے کچھ نہ کچھ طے کر رکھا ہے۔ اگر انسان چاہے تو اپنی لگن اور محنت سے وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ بہت سوں کا معاملہ یہ ہے کہ قدرت کی طرف سے جو کچھ ملتا ہے اُسے اپنی عجلت پسندی، لاپروائی، تن آسانی اور ناسمجھی سے ضایع کر بیٹھتے ہیں۔ ایسوں کے پاس بات بات پر بھڑکنے اور بدکنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔
زندگی اس طور بسر کی جائے تو بس بسر ہوچکی۔ ہر دور میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے حواس اور مزاج کو قابو میں رکھتے ہیں۔ بات بات پر چراغ پا ہو جانا اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے رہنا کسی بھی اعتبار سے کوئی بہت اچھا آپشن نہیں۔ زندگی ہم سے سنجیدگی اور وقار کا تقاضا کرتی ہے۔ دل و دماغ قابو میں رہیں تو انسان بہت کچھ کر پاتا ہے ورنہ باصلاحیت ہونا بھی کسی کام کا نہیں ہوتا اور سکت کا حامل ہونا بھی کچھ کام نہیں آتا۔
کیا غصے سے بپھرے رہنا کوئی اچھی بات ہے؟ بات بات پر مشتعل ہو جانا کام آنے والا وصف ہے؟ ہاں بھی اور نہیں بھی۔ نہیں اس لیے کہ محض غصے کی حالت میں رہنے سے کوئی کچھ نہیں پاسکتا۔ غصہ انسان کے بہت سے اوصاف پر حملہ آور ہوکر اُنہیں تلف کردیتا ہے۔ یا اگر مکمل طور پر تلف نہ بھی کرسکے تو اِتنا مسخ ضرور کردیتا ہے کہ پھر انسان ان سے کچھ زیادہ مستفید نہیں ہوسکتا۔ محض غصے سے کچھ حاصل نہیں ہو پاتا مگر ہاں! غصے کو ڈھنگ سے بروئے کار لاکر انسان بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ ولی جولی کا کہنا ہے ''غصے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے اسے بروئے کار لانا سیکھئے۔ بہت سے معاملات میں کامیابی اس ناکام انسان کو مل جاتی ہے جو غصے سے پاگل ہو جاتا ہے۔ اسے ناکامی پاکر اتنا غصہ آتا ہے کہ وہ کام میں گم اور غرق ہو جاتا ہے۔ غصہ بہت بری چیز نہیں‘ یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ غصے کو اپنے وجود پر حاوی نہ ہونے دیں‘‘۔
غصے کو بروئے کار لانا وہ ہنر ہے جو انسان کو خاصے تحمل سے سیکھنا پڑتا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر ایسے حالات کا سامنا رہتا ہے جن پر ہمیں غصہ آتا ہے، ہم مشتعل ہو اٹھتے ہیں۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ حیرت تو اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی غصے کی حالت میں اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ پاتا اور غصے کی لہر میں بہتا ہوا اپنی اصل راہ سے بہت دور نکل جاتا ہے۔ غصہ اس لیے ہوتا ہے کہ اُسے پی کر کام میں لایا جائے۔ کوئی بھی صورتِ حال ہمیں مشتعل ضرور کرتی ہے مگر اشتعال کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔ جب ہم غصے سے کام لینا سیکھتے ہیں تب زندگی کا رنگ ڈھنگ تبدیل ہونے لگتا ہے۔
دوسروں سے ممتاز ہوکر جینے کا ایک ہی راستہ ہے ... اپنے غصے کو جنون میں تبدیل کیجیے۔ جو لوگ جنونی ہوتے ہیں‘ وہی کچھ کر پاتے ہیں۔ اُن کی زندگی کا ہر انداز نرالا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے لوگ ہر کام میں جنون کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اپنے ماحول کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ وہی کچھ بن پائے ہیں جن میں جنون پایا گیا ہے۔ یہ جنون خود بخود پیدا نہیں ہوتا۔ حالات کے ہاتھوں‘ دل و دماغ میں مچنے والی ہلچل ابتدا میں محض غصے اور اشتعال کی شکل میں ہوتی ہے، جب اس پر محنت کی جاتی ہے تب جنون کی صورت ابھرتی ہے۔ غصے کو جنون میں تبدیل کرنا ایسا فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے اور سیکھے بغیر چارہ نہیں۔ جو یہ فن نہیں سیکھتا وہ خسارے میں رہتا ہے۔
کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ صرف اور صرف جنون کے ذریعے ممکن ہو پاتا ہے۔ علم و فن کی دنیا ہو یا کھیل، معاملہ تجارت کا ہو یا صنعت کا، رشتوں کی بات ہو یا روابط کی، چلنے کی بات ہو یا دوڑنے کی ... ہر معاملے میں صرف اور صرف جنون ہی سے فرق پیدا ہوتا ہے۔ جو کھلاڑی بلند گراف والے جنون کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں اُن کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ مقابلے کے دوران اُن کی پوری کارکردگی دوسروں سے الگ دکھائی دیتی ہے۔ اوردکھائی دینی بھی چاہیے۔ یہی حال فنکاروں کا ہے۔ گُل جی کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اُنہوں نے کتنا اور کیسا شاندار کام کیا ہے۔ یہ سب جنون ہی سے تو ممکن ہو پایا۔ گلوکار جنونی ہو تو اتنا اور ایسا گا جاتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں اِس کی روشن ترین مثال ہیں۔ اُنہوں بہت اچھا، بہت زیادہ اور منفرد کام کیا۔ غزل سَرائی میں اُن کے انداز سے ہٹ کر کچھ کر پانا اب ہر گلوکار کے لیے زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس، شاہد آفریدی وغیرہ دوسرے کرکٹرز سے ممتاز کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ صرف اس لیے کہ ان میں غیر معمولی جنون تھا۔ جنون ہی سے اُن کی پہچان تھی۔ وہ میدان میں کرکٹ کھیلنے کے لیے داخل ہوتے تھے مگر جو کچھ بھی وہ کھیلتے تھے وہ کرکٹ سے ہٹ کر اور اُس سے آگے کی کوئی چیز ہوا کرتی تھی۔لکھنے کی طرف آئیے تو یہاں بھی وہی کامیاب رہتے ہیں جن میں جنون ہو۔ ابنِ صفی نے اردو میں سِرّی ادب کی بنیاد رکھی۔ اُن کے جنون کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ اُنہوں نے کم و بیش 380 ناول قلم بند کیے! ایک اور اچھی مثال محترم مستنصر حسین تارڑ کی ہے۔ اُنہوں نے لکھنے کے حوالے سے اپنے جنون کو کبھی ماند نہیں پڑنے دیا۔ زندگی بھر لکھا ہے اور قدم قدم پر خود کو منوایا ہے۔