تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     12-09-2020

افسوس، صد افسوس

واقعہ ایسا ہے کہ کوئی لکھنے والا نظر انداز نہیں کر سکتا۔
سماج اور ریاست، دونوں کٹہرے میں ہیں۔ سماج کی نمائندگی میں‘ آپ اور وہ کرتے ہیں۔ میں اور آپ، کشتگانِ زماں۔ 'وہ‘ سماج کے بااثر طبقات ہیں جن کے ہاتھ میں اس کی باگ ہے۔ علما، صحافی، دانشور۔ ریاست کی نمائندگی کا شرف سی سی پی او لاہور کو حاصل ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا حسنِ انتخاب۔
جرم سے کوئی معاشرہ پاک نہیں لیکن یہ بات ہمارے جرائم کو سندِ جواز فراہم نہیں کرتی۔ جب ہم خود کسی جرم کا ہدف بنتے ہیں تو ہمیں یہ دلیل نہیں سوجھتی۔ تب ہماری خواہش ہوتی ہے کہ شام ہونے سے پہلے مجرم کیفرِ کردار تک پہنچے۔ جرم کا شکار کوئی دوسرا ہو تو عذر تراشے جاتے ہیں۔ موٹروے پہ ایک خاتون کے ساتھ پیش آنے والا حادثہ، دراصل یہ بتا رہا ہے کہ یہاں کون کتنا محفوظ ہے۔
یہ حادثہ موٹروے پر پیش آیا اور سوشل میڈیا کا موضوع بن گیا۔ ان شاہراہوں سے دور، جو کچھ ہوتا ہے، وہ کم ہی سامنے آ سکا ہے۔ عورت، اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے درجے کی شہری ہے۔ اگر غریب ہو تو اس کی آبرو کی بھی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ہمارا لٹریچر ایسی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے کہ کس طرح عورت کی نسوانیت کا استحصال ہوتا ہے۔ جبر کی شادیاں کیا ریپ نہیں ہیں؟
کچھ این جی اوز نے اگر انہیں موضوع بنایا تو انہیں مغرب زدہ قرار دے کر یہ تاثر دیا گیاکہ ان کی بات مبالغہ آمیز ہے اور پاکستان مخالف ایجنڈے کا حصہ۔ ان کی یہ خرابی اپنی جگہ ہے کہ حل تجویز کرتے وقت، اُن کے ایک بڑے حصے نے مقامی تہذیبی حساسیت کو نظر انداز کیا لیکن حل کی اس خرابی سے یہ لازم نہیں آتاکہ مسئلے کی موجودگی ہی سے انکار کردیا جائے۔ اگر کسی کو حل سے اختلاف ہے تو اس کا حق ہے کہ کوئی دوسرا حل تجویز کرے لیکن اسے عورت کی مظلومیت سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی نے اس واقعے کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اٹھایا‘ جو خوش آئند ہے۔ اچھا ہے کہ اب کشمیر اورفلسطین کے مظلوموں کے ساتھ پاکستان کے مظلوم بھی ان کی توجہ کے مستحق بنے ہیں۔
عورتوں کی طرح مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی بات ہو تواسے بھی قومی مفاد سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ قومی مفاد کا تقاضا سمجھا جاتا ہے کہ پیش پا افتادہ حقائق کاانکار کردیا جائے کیونکہ وہ اب دوسروں کو بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ ان خود ساختہ تصورات نے بھی معاشرے کے کمزور طبقوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ قومی مفاد اعتراف اور اصلاح سے محفوظ رہتا ہے، حقائق کوجھٹلانے سے نہیں۔
علما کیلئے بھی ایسے واقعات میں غوروفکر کا بہت سامان ہے۔ زنا بالجبر، زنا سے مختلف ایک جرم ہے۔ یہ محاربہ ہے۔ اسی واقعے کو دیکھیے۔ مجرموں نے محض ایک خاتون یا اس کے بچوں ہی کوخوف زدہ نہیں کیا،پورے معاشرے کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ دراصل فرد کے خلاف نہیں، معاشرے کے خلاف جرم ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہرجرم معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ڈکیتی، دہشت گردی یا آبروریزی کی نوعیت سنگین تر ہے۔ ان کا ہدف ہی معاشرہ ہے۔
قرآن مجید نے ایسے جرائم کو فساد اور خدا اور رسول سے جنگ کے مترادف کہا ہے اور ان کی عبرتناک سزائیں بتائی ہیں۔ یہ واقعہ زنا کے دائرے کا کوئی جرم نہیں۔ ایسے جرائم کے ثبوت کیلئے چار مسلمان مردوں کی گواہی کی شرط نہیں رکھی جا سکتی۔ یہاں ہمیں واقعاتی شواہد کو بھی بطور ثبوت قبول کرنا ہوگا۔ ڈی این اے ٹیسٹ کو بھی بطور گواہ تسلیم کرنا ہوگا۔
ایسے واقعات میں گواہوں کی فراہمی مدعی کی ذمہ داری نہیں۔ یہ ریاست کاکام ہے کہ وہ مجرموں کو تلاش کرے اور شواہد جمع کرے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک بیگناہ کو کسی صورت سزا نہیں ہونی چاہیے۔ تحقیقات اتنی شفاف ہوں کہ غلطی کا اندیشہ کم سے کم باقی رہ جا ئے۔ علما کو بھی یہی بات بتانی چاہیے کہ یہ زناکا نہیں، فساد فی الارض کا واقعہ ہے اور یہاں ثبوتوں کا بار مدعی پر نہیں ہے جو ظلم کا شکار ہوا۔
ہمارے لبرل طبقات کے لیے بھی اس میں عبرت کا بہت سامان ہے جو سخت سزاؤں کے خلاف ہیں۔ ایسے مجرموں کے ساتھ نرمی دراصل پورے معاشرے کے ساتھ ظلم ہے۔ ہر عدالت فیصلہ دیتے وقت مجرم کے حالات کی رعایت رکھتی ہے لیکن جہاں تک اصولی موقف کا تعلق ہے، سنگین جرائم اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی سزا بھی سخت ہو۔ سزا کا ایک پہلو مجرم کی اصلاح ہے لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دوسروں کو عبرت ہو اور انہیں یہ پیغام ملے کہ ایسی حرکت کاانجام کیا ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید نے یہ کہا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔ یعنی یہ سزا دراصل زندگی کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ جرم اور سزا میں نسبت عقل کا تقاضا ہے۔
علمااور میڈیا کو اس پہلو سے بھی سوچنا ہے کہ عورت کے احترام کے لیے انہوں نے معاشرے کو کتنا حساس بنایا ہے۔ ہم نے مذہب کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ عزت و عفت کی حفاظت عورت کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ ملفوف ہونا چاہیے کہ کسی کے جذبات مشتعل نہ ہوں۔ عورت نے عام حالات میں گھر سے باہر نکلتے وقت کس طرح کا لباس پہننا ہے، اسے سورہ نور میں بتا دیا گیا۔ صرف اسے ہی نہیں مرد کو بھی بتایا گیا ہے۔
ہم نے اس لباس کا کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اس میں علاقوں کے رسم و رواج کو شامل کر کے سب پر اسلام کا لیبل لگادیا۔ نتیجہ یہ نکالا کہ عورت اپنی عفت کی خود حفاظت کرے۔ سی سی پی او کا جو بیان ہدفِ تنقید ہے، وہ دراصل اسی سوچ کا اظہار ہے۔ علما سے گزارش یہ ہے کہ عورت پر بہت زور دیا جا چکا‘ اب ضرورت ہے کہ محراب و منبر سے مرد، ریاست اور معاشرے کو بھی اس کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا جائے۔
میڈیا کو بھی سوچنا ہے کہ اس نے عورت کو جس طرح اشتہار اور نمائش کی شے بنا دیا ہے، اس سے عورت کی توقیر میں اضافہ نہیں ہوا، کمی آئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اداکار کا انٹرویو زیرِ بحث ہے جو فخر کے ساتھ شادی شدہ خواتین سے اپنے معاشقوں کا ذکر کر رہا ہے۔ کیا یہ خواتین کے لیے باعثِ تذلیل نہیں؟
رہی بات حکومتوں کی تو افسوس کہ ان کی ترجیح عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت نہیں رہی۔ جو کل تھا، وہی آج بھی ہے بلکہ اس سے بدتر۔ کل پولیس کو بتایا گیا تھا کہ ان کی پہلی ذمہ داری اشرافیہ بالخصوص حکمرانوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ آج بھی ان کو یہی سکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے کہ خبردار کوئی حکومت کے خلاف بولنے نہ پائے۔ حکومت کی پریشانی یہ نہیں ہے کہ عام لوگ جرم سے محفوظ ہیں یا نہیں، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مریم نواز کے لیے لوگ گھروں سے کیوں نکلے اور ان پر سختی کیوں نہیں کی گئی؟ اب بھی ساری کوشش یہ ہے کہ ملک میں خوف کی ایسا فضا پیدا کر دی جائے کہ کوئی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہ نکلنے پائے۔ اچھا پولیس افسر وہی ہوگا جو اس کو یقینی بنائے گا۔
جب تک پولیس اور دوسرے اداروں کا یہ آموختہ تبدیل نہیں ہو گا، عام آدمی غیر محفوظ رہے گا اور عورت سب سے زیادہ۔ ساہیوال کے مظلوموں کے لیے وزیراعظم ابھی قطر سے واپس نہیں آئے۔ اس واقعے کو تو ابھی صرف تین دن ہوئے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved