امریکہ کے سفر کے دلچسپ مشاہدات اکثر یاد آتے ہیں۔ ہماری امریکہ کی تقریباً تمام امریکی شہروں کیلئے فلائٹس ساؤتھ ویسٹ ایئر لائن سے بک تھیں۔ یہ ایک بڑی ائیر لائن ہے جس کے لاتعداد جہاز ایئرپورٹس پر اترتے، چڑھتے اور کھڑے نظر آتے تھے۔ سب سے بڑا فائدہ سامان کا تھا یعنی ہر فلائٹ میں دو بیگ بطور لگیج اور ایک کیبن بیگ فی مسافر لے جانے کی اجازت تھی ورنہ دیگر ایئرلائنز میں یہ بڑا مسئلہ ہے ۔ بہت سی دیگر ایئرلائنز کی طرح ساؤتھ ویسٹ میں بھی دوران پرواز کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا جاتایا ایک چھوٹا سا سنیکس کا پیکٹ پکڑا دیا جاتا ہے جو اتنابدمزہ ہوتا ہے کہ اسے کھولنے کا بھی دل نہیں چاہتا‘لیکن کچھ باتیں بہت قابل ذکر ہیں ۔ اول‘ فلائٹس ننانوے فیصد وقت پر ہوتی ہیں۔ دوئم‘ ایئرپورٹ پر مسافر اور لگیج کے اترنے کی جگہ کے ساتھ ہی بلڈنگ کے باہر چیک ان کاؤنٹرز ہوتے ہیں۔ وہیں سامان آپ سے لیکر بورڈنگ پاس دے دیا جاتا ہے۔ سوئم‘ خواتین فضائی میزبانوں کو دیکھ کر دنیا سے خاص بے رغبتی محسوس ہوتی تھی اور یقین آتا تھا کہ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں لیکن پائلٹس عموماً شگفتہ مزاج اور مزے کی گفتگو کے ماہر تھے۔ وہ پرواز کے دوران کوئی نہ کوئی بات ایسی کرتے رہتے کہ پورے جہاز میں قہقہے گونج اٹھتے تھے۔
پورے امریکہ کے سفر کے دوران جہاں جہاں سیاہ فام عملے سے واسطہ پڑا ،عموماً تاثر اچھا نہیں تھا ۔ یہ تاثربے مروت،بے لحاظ، ٹپ کے طالب، کام ٹالنے اور نہ کرنیوالے اور بلند آواز میں جھگڑا کرنے والوں کا ہے ۔ایئر پورٹس پر بلڈنگ کے باہر چیک ان کاؤنٹرزجنہیں کرب سائیڈ (kerbside)کہتے ہیں‘ پر زیادہ کالا عملہ ہے۔ ایک دو بار وہاں خواہ مخواہ کے اعتراضات کا سامنا ہوا تو میزبانوں نے یہ ٹپ دی کہ آپ جایا کریں تو دس ڈالرز کا ایک نوٹ نکال کر انگلیوں میں اس طرح پھنسالیا کریں کہ سامنے سے نظر آتا رہے ۔ آپ کا کام جلدی اور بغیر اعتراض کے ہو جایا کرے گا۔ اس ٹپ پر عمل کرنے سے بہت مسائل حل ہوگئے۔ ثابت ہوا‘ کاغذی زر امریکہ میں بھی قاضی الحاجات ہے بلکہ بہت صورتوں میں دیگر ملکوں سے زیادہ‘ لیکن ایک بات یہ بھی سننے میں آئی کہ کرب سائیڈ کاؤنٹرز کا عملہ اگرچہ ائیرلائن کی یونی فارم پہنتا ہے لیکن وہ ائیرلائن کے تنخواہ دار ملازم نہیں ہوتے اس لیے ان کا گزارا اسی ٹپ پر ہے ۔
ہم شکاگو سے الاباما ریاست کے خوب صورت شہر برمنگھم جارہے تھے۔ ابھی جہاز نے ٹیک آف نہیں کیا تھاکہ پائلٹ کی آواز آئی: خواتین و حضرات! مجھے میرے عملے نے ایک بٹوہ لاکر دیا ہے جو بظاہر مسافروں میں سے کسی کا ہے۔ براؤن رنگ کے اس بٹوے میں بہت ڈالرز بھرے ہوئے ہیں۔یہ آپ میں سے کس مسافر کا ہے ؟ جہاز میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ تمام مسافر متوجہ ہوگئے۔ آدھا منٹ خاموشی کے بعد پائلٹ نے کہا‘ اب جبکہ سب چپ ہوکر متوجہ ہوہی گئے ہیں تو سامنے میرا عملہ جو حفاظتی اقدامات بیان کر رہا ہے، انہیں غور سے سنیں۔ بٹوہ وغیرہ کچھ نہیں‘سب مذاق تھا‘بہرحال حفاظت کے طریقے بٹوے سے زیادہ قیمتی ہیں۔
برمنگھم ایک خوب صورت،سرسبز،نیم پہاڑی شہر ہے۔ ہلکی ہلکی بارش نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دئیے تھے۔ یہ شہر کبھی اسلام آباد،کبھی ایبٹ آباد اورکہیں کہیں مری کی یاد دلاتا تھا۔ مجھے ایسے پہاڑی شہر ہمیشہ اچھے لگتے ہیں جہاں ٹریفک اور انسانوں کے ہجوم سے الگ ایک دنیا ہو۔ سبزہ، پہاڑ، سکوت، نیلا آسمان،خوب صورت موسم۔یہ سب مل کر الاباما کا برمنگھم بناتے تھے۔ہم شکاگو کی سردی سے بھاگ کر آئے تھے اس لیے یہاں کا معتدل موسم بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ہوٹل صاف ستھرا اور مزے کا تھا۔معلوم ہوا کہ رات تک بارش اور اولوں کے طوفان کی پیشگوئی ہے اس لیے کہیں نکلنا بیکار ہے ۔ یہ خیال خود مزے دار تھا۔ صادقین کی رباعی کیا کمال ہے ؎
اک کام جو کرنا ہے ضروری، کر لوں
پھر سے دلِ خاکی کو میں نوری کر لوں
یہ وصل کی راتوں کی مسلسل نیندیں
آئے جو شب ہجر تو پوری کر لوں
کمرے کی کھڑکی سے گرتی بارش اور سبزپوش پہاڑ وں کا منظر خوب صورت تھا۔تھوڑی سی کھڑکی کھول لی تو چچا تقی کی نظم مری کا مصرعہ یاد آنے لگا:
خنک ہواؤں سے دل میں جوان گرمائی
آدھے دن اور پوری رات کی نیندنے تازہ دم کردیا ۔ اگلے دن راحت کہکشاں کا صبح صبح فون آگیا۔ وہ ہمارے برمنگھم کے میزبانوں میں سے ایک تھیں ۔ حید رآباد دکن سے تعلق ہے۔حیدر آبادی لہجے میں ان کی گفتگو اور ان کے ہاتھ کے بگھارے بینگن خاصے کی چیز ہیں۔ نہایت خوش اخلاق، شعر دوست اور مہمان نواز خاتون ہیں۔ آج کا دن انہوں نے ہمارے سیر سپاٹے کیلئے رکھا تھا۔وہ ہوٹل پہنچیں تو ہم ناشتے کے بعد تیار تھے۔ بارش تھم چکی تھی اور آوارہ سیاہ ٹکڑیاں کہیں کہیں آسمان پر منڈلا رہی تھیں ۔ برمنگھم سے کم و بیش بیس میل کے فاصلے پر وہ نیشنل پارک ہے جسے اوک ماؤنٹین نیشنل پارک کہتے ہیں۔ ساڑھے نو ہزار ایکڑ میں پھیلے ہوئے اس پارک میں تین جھیلیں ہیں جہاں مچھلی کے شکار کی اجازت ہے۔ متنوع جنگلی حیات موجود ہے۔ اس کے علاوہ ہائیکنگ ٹریک اور مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کی سہولیات بھی موجود ہیں ۔
ہم اس پارک میں پہنچے تو چمکیلی دھوپ نکل آئی تھی اور اس نے ایک نگاہ ڈال کر درختوں کے سبھی رنگ تازہ اور چمکدار بنا دئیے تھے۔ گاڑی رکتے ہی سامنے کے ایک تالاب کے پار درختوں کے سبز،ارغوانی ،نارنجی ، آتشی، زرد اور گلابی رنگوں نے متوجہ کرلیا۔ ایک ہی درخت میں کئی کئی رنگ موجود تھے اور ایسے بھی‘ جو ایک ہی رنگ میں رنگ دیئے گئے تھے۔جیسے جیسے پارک میں آگے بڑھتے گئے سکوت اور سبزہ گھنا ہوتا گیا۔ بے ترتیب قدرتی ترتیب کا اپنا حسن ہوتا ہے جو تراش خراشی، منصوبہ بندی، تناسب اور ترتیب کی خوبصورتی سے جداگانہ ہوتا ہے۔ یہاں انسانی کاوشیں بس اسی قدر ہیں جتنی قدرت کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت نہ سمجھی جاسکیں۔یہی کسی قدرتی منظر کا حق بھی ہے ۔ ہم اس جھیل کنارے پہنچ گئے جس کے پہلو میں سبزے کا وسیع قالین بچھا ہوا تھا‘اور لہریں لیتی جھیل، کہیں روپہلی، کہیں سرمئی اور کہیں سنہری رنگوں میں جھلملا رہی تھی۔ درختوں تلے لکڑی کے بھیگے بنچوں پر اس منظر کو جذب کرنے بیٹھے تو جیسے وقت تھم گیا۔کبھی کبھار ہمارے سر پر جھکی درختوں کی شاخیں ایک مستی میں جھوم کر بتاتی تھیں کہ یہ منظر منجمد نہیں سیال ہے۔
نرمئی رمز و کنایہ کا تقاضا یہ ہے
پرتوِ شاخ کہے سایۂ دیوار سنے
ہونٹ ہلنے بھی نہ پائیں کہ معانی کھل جائیں
لمحۂ شوق کہے، ساعت دیدار سنے
ایک طرف پتھروں سے بنا ایک احاطہ اور ایک لکڑی کا کیبن موجود تھا۔ پتھروں کی دیوار یا تو قدیم تھی یا اسے قدیم رنگ دینے کیلئے سیاہ پتھروں کا بنایا گیا تھا۔ ہم نے تصویریں بنائیں۔ یہ رنگا رنگ اور خوبصورت تصویریں دیکھتا ہوں تو وہ حسن یاد آتا ہے جو ان تصویروں میں ایک ذرے کے برابر بھی محفوظ نہیں ہوسکتا۔ اوک ماؤنٹین پارک سے سہ پہر کے وقت واپس لوٹے توبھوک لگ چکی تھی۔ راحت ہمیں ایک چائنیز ریسٹورنٹ میں لے گئیں جہاں کے غیر معمولی مزیدار اور بڑے جھینگے یاد رہیں گے۔ہم ہوٹل پہنچے تو تھکن اور شادابی دونوں نے جسم میں پڑاؤ ڈال رکھے تھے۔آنکھیں بند کرتا تو کلائیڈو سکوپ کی طرح رنگ آنکھوں کے سامنے بکھرنے، ٹوٹنے اور جڑنے لگتے۔ تینوں صورتوں میں ایک نیا منظر تخلیق ہوجاتا تھا۔
ہاں تو میاں سعود عثمانی ! زندگی بکھرے،یا ٹوٹے یا جڑے ۔ منظر تخلیق کرنے سے کسی ایک پل نہیں چوکتی ۔