تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-06-2013

کل دھوپ کے میلے سے کھلونے تھے خریدے

بحران قوم کی بیداری سے تمام ہوگا۔ عصرِ حاضر سے ہم آہنگ‘ صاحبِ کردار‘ درمیانی طبقے کا علم سرفراز ہونے سے۔ وگرنہ یہی رحمن ملک‘ زیادہ سے زیادہ اسحق ڈار! اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی دعویٰ ایک چیز ہے اور ترجیحات دوسری۔ خدا کی بستی میں یہ جو اس قدر زیاں ہے‘ اتنی بے شمار زندگیاں رائگاں تو یہی ایک سبب ہے۔ ادراک اور علم کے ساتھ شعوری طور پر مقصدِ حیات کا تعین کرنے والے بہت تھوڑے۔ خواہشات کی گرفت میں جبلّتوں کی پیروی پر تلے بہت زیادہ۔ تقدیروں کے فیصلے کرنے والا رب فقط دلوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے‘ حسنِ اظہار نہیں۔ اس کے بندے بھی کیوں؟ الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے قائداعظم محمد علی جناح کے بعد کبھی کوئی ایسا لیڈر نصیب نہ ہوا جو آشنا ہو کہ حیات اجتماعی کو سنوارنے کے لیے معاشرے کی ساخت اور مزاج کے گہرے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی چھوٹی سی آسٹن کار اور کبھی ریل گاڑی میں سوار‘ وہ ڈھاکہ سے پشاور تک کیا ڈھونڈتے تھے؟ کس لیے ٹی بی میں مبتلا رہنما اس قدر اذیت جھیل رہا تھا؟ لندن کی آخری گول میز کانفرنس کا احوال ڈان کے مدیر الطاف حسین نے لکھا تھا۔ محمد علی جناح لوٹ کر آتے تو نمایاں نکات ان سے بیان کرتے۔ انہوں نے لکھا کہ سلیقہ مندی اور مجلسی آداب کے لیے ضرب المثل آدمی نے ایک شب انہیں طلب کیا تو بات کرتے نڈھال ہو گئے۔ گفتگو مکمل کیے بغیر ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ انہی دنوں لیاقت علی خاں قائداعظم کے کمرے میں داخل ہوئے تو ششدر رہ گئے۔ چراغ جل رہے تھے‘ پردے برابر نہ کیے تھے اور جوتوں سمیت مکمل لباس پہنے‘ صوفے پر انہیں دراز پایا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ سیاسی جدوجہد کے آخری برسوں میں قائداعظم نے ایک سے زیادہ اخبارات و جرائد کے اجرا کو اپنا قیمتی وقت دیا۔ انتہا یہ ہے کہ مشینوں کی خریداری اور مدیروں کی تقرری تک ایک ایک تفصیل پوچھتے رہے۔ ملک کے وجود پانے سے قبل ایک فضائی کمپنی‘ ایک بینک اور انشورنس کمپنی کی تشکیل کو یقینی بنایا۔ مستقبل کی مسلح افواج کے لیے اس قدر وہ فکر مند تھے کہ کانگرس کے ہمنوا علماء نے فوج میں بھرتی کے خلاف فتویٰ دیا تو قائداعظم نے تائید سے انکار کردیا۔ بمبئی اور بانٹوا کے تاجروں سے‘ ذاتی مراسم انہوں نے استوار کیے۔ ان میں سے درجنوں کو دارالحکومت کراچی میں کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے پر آمادہ کیا۔ ان کی اپنی رہائش گاہ بمبئی میں تھی۔ اپنی آمدن کا بڑا حصہ‘ دور دراز لاہور میں سرمایہ کاری پر کیوں صرف کیا؟ اقتدار سنبھالنے کے بعد‘ خواہ غیر معمولی اکثریت ہی کیوں حاصل نہ ہو‘ ہماری سیاسی قیادت بھگدڑ‘ ذہنی افراتفری اور ہیجان کا شکار کیوں ہو جاتی ہے؟ اس لیے کہ سب توانائی حکومت کے حصول پر صرف کردی جاتی ہے۔ مطمح نظر محض طاقت کا حصول ہے۔ ملک کی حالت سدھارنا ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ میاں محمد نوازشریف ان دنوں ایک تقریر نویس کے لیے پریشان ہیں۔ اس آرزو کی چھوٹ اب بعض اخباری شہ پاروں پہ بھی پڑی ہے۔ الیکشن سے قبل نعرے تراشتے اور مخالفین کی کمزوریاں تلاش کرنے والے مصاحبین‘ بعد میں طفل تسلیاں دینے والے ماہرین! نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کرنے والے ایک سرکاری افسر نے بتایا: کوئی سنگین سوال درپیش ہوتا تو میاں صاحب مکرم زیادہ سے زیادہ دو منٹ اور محترمہ تین منٹ سے زیادہ منہمک (Focused) نہ رہ سکتیں۔ خشک ڈھیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت پانچ برس کوس لمن الملک بجانے اور ہرروز ایک نیا دعویٰ کرنے والے شہباز شریف کو، اب اچانک احساس ہوا ہے کہ عام لوگوں کی زندگی پولیس اور پٹواریوں نے اجیرن کررکھی ہے۔ پانچ سال نہیں‘ پانچ بار وہ جن سفاک اداروں کے بل بوتے پر حکومت کرتے رہے، اب وہ انہیں تحلیل کرنے کا وعدہ فرماتے ہیں تو یقین کیسے ہو؟ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا اور چوتھا برس۔ کھلی آنکھوں سے ہم دیکھ رہے تھے کہ پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کی بجائے، جو 20فیصد پہ میسر آتی، زرداری حکومت فرنس آئل اور پٹرول ہی نہیں، کرایے کے بجلی گھروں پہ تلی ہے۔ اس تمام عرصے میں نون لیگ کی قیادت کیا کرتی رہی؟ ظاہر ہے کہ کوئی مربوط منصوبہ بنانے کی انہوں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اب وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں‘ شہباز شریف کبھی چھ ماہ اور کبھی دوسال میں بحران کے مکمل خاتمے کی نوید سناتے۔ الیکشن کے بعد فتح کے علم لہرائے اور شادیانے بجائے جاچکے تو میاں محمد نواز شریف نے قوم کو بتایا کہ برادر خورد جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ یعنی بے پر کی اڑاتے ہیں۔ کل دھوپ کے میلے سے کھلونے تھے خریدے جو موم کا پتلا تھا تو وہ گھر تک نہیں پہنچا بجٹ کیا ہے؟ اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ۔ واقعہ یہ ہے کہ نون لیگ کوئی حکمت عملی رکھتی ہی نہیں۔ کبھی انہوں نے سوچا ہی نہ تھا۔ کمیٹیاں بنا دی تھیں‘ دکھا وے کے لیے۔ پیہم زوال کا شکار ہوتی ریلوے کے بارے میں بعض باتیں ہم سب جانتے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ اگر اسے منافع بخش بنایا جاسکتا ہے تو فقط مال گاڑیوں کے نظام کو بہتر بناکر۔ خوش قسمتی سے پاک افغان تجارتی معاہدے کی ایک بنیادی شق یہ ہے کہ افغانستان کے لیے درآمد کی جانے والی اشیاء‘ ریل کے ذریعے سرحد تک پہنچیں گی۔ اس سمجھوتے کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ اگر چند درجن اچھے افسروں اور نگرانی کے ایک معقول نظام کا اجرا کیا جاسکے تو افغان سرحد سے سمگلنگ کے گھنائونے کاروبار کا خاتمہ ہوجائے۔ کم ازکم تیس ارب روپے کی زائد آمدنی۔ ریلوے کو اگر خسارہ بھی ہو تو تلافی ہوجائے۔ سرکاری پارٹی، حکومت پنجاب کے کھربوں روپے کے وسائل رکھتی تھی، دو بار اسے مرکز اور پانچ بار پنجاب میں اقتدار کا تجربہ تھا، سیدھے سادے‘ اس کام کے لیے کون سی منصوبہ بندی اس نے کی؟ کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں۔ رہی ٹیکس وصولی تو یہ ان کے بس کی بات ہی نہیں۔ تاجر ان کے لاڈلے فرزند ہیں۔ لاہور کے ایک نواحی گائوں میں ایک مرحوم وفاقی سیکرٹری کی بیوہ دن بھر حقّہ گڑگڑایا کرتی ہیں۔ ان کے چاروں بیٹے چٹے ان پڑھ۔ شوہر سے وہ کہا کرتیں: میرے کلیجے کے ٹکڑے ہیں۔ سکول نہیں بھیج سکتی۔ نگاہوں سے انہیں دور نہیں کر سکتی۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والے دکاندار اور تاجر نون لیگ کے لیے کلیجے کے ٹکڑے ہیں۔ ان کے محبوب اور محبوب کی بارگاہ میں گستاخی کا کیا سوال؟ دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے عشق بن یہ ادب نہیں آتا سب سے بڑا مسئلہ امن کا قیام ہے۔ دہشت گردی کے علاوہ، دوسرے جرائم سے نمٹنے کے لیے جس طرح کی پولیس اور انٹلی جنس کے جن جدید اداروں کی ضرورت ہے، اس کے لیے کبھی کسی طرح کی کوئی منصوبہ بندی؟ خوش آئند کہ آئی بی کی سربراہی اچھی شہرت کے ایک افسر کو سونپ دی گئی۔ سوال دوسرا ہے۔ کیا یہ احساس اور ادراک موجود ہے کہ نئے زمانے میں خفیہ کاری کے انداز اور قرینے بدل چکے۔ چین ایک مثال ہے اور ایران دوسری۔ امریکہ ان دونوں میں نقب لگانے کا آرزومند ہے۔ اگر وہ ناکام رہا تو ایک بڑا سبب ان کی جدید خفیہ کاری ہے‘ چین میں تو ایسے نئے تجربات ہوئے ہیں کہ خفیہ کاری کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کیا نون لیگ سے ہم ایسی کوئی امید کر سکتے ہیں؟ تر دماغ اور ہوش مند تو وہ بہت ہیں مگر چودھری نثار علی خان اگر اپنے من پسند افسر بھرتی نہ کریں۔ اگر شاہی خاندان کے علاوہ‘ ان کے ذاتی مخالف محفوظ رہ سکے تو یہ ایک کارنامہ ہوگا۔ تب کوئی حنیف عباسی یا مشاہد اللہ خان چیخ چیخ کر ٹیلی ویژن پر ہمیں بتائے گا کہ دیکھیے‘ ہم نے من مانی سے گریز کیا۔ دیکھیے‘ ایسا بھی ایک شعبہ ہے‘ جہاں کہ ہم مرتکب نہ ہوئے۔ تحریک انصاف؟ اس کا حال بھی پتلا ہے اور میرا فرض ہے کہ نشان دہی کروں‘ مگر آج بجٹ کا دن ہے۔ مکھی پر مکھی مارنے والے‘ لکیر کے فقیر! آدمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ اس قوم پر افسوس جو یہ نہیں جانتی کہ نیچے سے اوپر تک زندہ اقوام اپنے رہنما خود تلاش کرتی ہیں۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والوں میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں۔ برسات میں کھمبیوں کی طرح اگتے لیڈروں کی فراوانی سے نہیں‘ بحران قوم کی بیداری سے تمام ہوگا۔ عصرِ حاضر سے ہم آہنگ‘ صاحبِ کردار‘ درمیانی طبقے کا علم سرفراز ہونے سے۔ وگرنہ یہی رحمن ملک‘ وگرنہ زیادہ سے زیادہ یہ اسحق ڈار! اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی حرف آخر: رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی نے کہا تھا: عاشقی قیدِ شریعت میں جو ڈھل جاتی ہے۔ جلوئہ کثرتِ اولاد دکھا جاتی ہے۔ تجارت جب سیاست میں ڈھلتی ہے‘ تب بھی یہی ہوتا ہے۔ سنا ہے کہ ایک سرپرست پی آئی اے پر ہاتھ صاف کرنے کی تیاری فرما رہے ہیں۔ کچھ سٹیل مل کے در پے ہیں جہاں اس کی تاریخ کے سب سے کامیاب منتظم کو بالآخر التجا کر کے بلایا گیا تھا۔ اخبار نویس ٹوہ لگائیں تو بات کھلے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved