تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     12-09-2020

مڈل ایسٹ میں جنگ کے نئے کردار

عالمی منظر نامے میں جوہری تبدیلی یہ آ رہی ہے کہ لیبیا سے لے کر ایران تک پھیلے پورے مڈل ایسٹ پہ محیط جنگوں کی آگ سے امریکی مقتدرہ اپنے قدم باہر نکال کے اس خطے میں اسرائیلی بالادستی کی راہ ہموار کرتی نظر آ رہی ہے۔ کچھ دن قبل عرب امارت کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ اسی تغیر کی نمایاں علامت بنا۔ عرب نیوز نے خبر دی ہے کہ یو اے ای نے لیبیا کے مشرقی علاقوں پہ قابض وار لارڈ‘ خلیفہ ہفتار کو اسلحہ کی جو نئی کھیپ روانہ کی‘ اس میں پانچ اسرائیلی ساختہ LYNX راکٹ لانچر بھی شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ عرب امارت نے لیبیا کے وار لارڈ کو اسرائیلی اسلحہ بھیجا، اس سے قبل بھی ابوظہبی نے جنرل ہفتار کو اسرائیلی ساختہ ڈرون طیارے فراہم کرنے کے علاوہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے ایسی ڈیل بھی کی جس میں جنرل ہفتار کی فوجی معاونت سمیت سنائپر رائفلز اور اندھیرے میں دیکھنے والے آلات کی فراہمی شامل تھی۔ اسرائیل کی جانب سے خلیفہ ہفتار کو خفیہ مدد ملنے کی ایسی کئی رپورٹس منظر عام پر آئیں جن میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج خلیفہ ہفتار کے سپاہیوں کو گلی کوچوں میں جنگ لڑنے کی تربیت دیتی رہی۔ لیبیا میں برسرپیکار جنرل ہفتارکو یو اے ای، مصر، سعودی عرب اور روس کے علاوہ فرانس کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ متذکرہ مملکتیں لیبیا میں مرکز گریز ملیشیا کے علاوہ کرائے کے غیر ملکی فوجیوں کے گروپ ایل این اے کو اسلحہ اور فوجی امداد دے کر افراتفری بڑھا رہی ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا میں اگرچہ حریف دھڑوں نے 21 اگست کو جنگ بندی معاہدہ کر لیا؛ تاہم تناؤ اب بھی برقرار ہے۔ خدشہ ہے اس معاہدے پہ عمل درآمد نہیں ہو پائے گا۔ یورپی یونین کی کونسل آف انٹرنیشنل ریلیشن نے اپنی رپوٹ میں تسلیم کیا کہ جب بھی جنگ بندی کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے‘ ہفتار کی فورسز رات کی تاریکی میں حملے کر کے اسے سبوتاژ کر دیتی ہیں۔
یورپ کے بعد لیبیا کی شورش کے سب سے بھیانک اثرات مصری ریاست پہ مرتب ہوئے جس کے لیبیا سے منسلک گیارہ سو کلو میٹر صحرائی بارڈر کے علاوہ بن غازی کی بندرگاہ سے جڑے سستے تیل کی ترسیل کا پورا نظام غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ مصر کے صدر السیسی کی ایما پہ منحرف جنرل نے بن غازی میں عسکری تحریکوں کو کچلنے کی مہم کا آغاز کیا ہے جس سے اسے وسیع تر سیاسی اثر و رسوخ پانے کا موقع ملا۔ یہ مصر ہی تھا 2014ء میں جس نے اپنی سرحدوں کے قریب ''آپریشن وقار‘‘ شروع کرکے جنرل ہفتار کو فوجی و سفارتی مدد دی۔ شدت پسندوں کے خلاف مہم کی بدولت مصر اور ہفتار کے مابین تعلقات تیزی سے بڑھتے گئے؛ تاہم کچھ عرصہ قبل مصر نے محسوس کیا کہ جنرل ہفتار نے فرانس، روس اور متحدہ عرب امارات سے رابطے استوار کرنے کے بعد اسے پیچھے دھکیل دیا ہے‘ ان خدشات نے کہ جنرل ہفتار خود کو خطرناک حد تک طاقتور بنا رہا ہے‘ مصر کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے دیگر راستوں کی تلاش پر آمادہ کیا؛ چنانچہ وہ لیبیا کی عالمی طور پہ تسلیم شدہ جی این اے حکومت کے وزیراعظم فائز السراج اور پارلیمنٹ کے سپیکر اگیلا صالح کے مابین پاور شیئرنگ کا معاہدہ کرا کے منتخب حکومت کی بحالی کی ایسی سکیم پہ کام کرنے لگا جو ہفتار کو قانونی نظام کے اندر لانے کے علاوہ کم از کم اس وقت تک ریاست کو متحد رکھ سکتی تھی جب تک لیبیا میں الیکشن نہیں ہو جاتے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مصر نے افریقی یونین کے اپنے صدارتی اثر و رسوخ کو بروئے کار لانے کے علاوہ اقوام متحدہ کی قومی کانفرنس کو وسیلہ بنانے کی کوشش بھی کی لیکن جون 2019ء میں خلیفہ ہفتار نے طرابلس پہ چڑھائی کی مہم شروع کرتے وقت ''ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن کے ساتھ‘‘ کا دھمکی آمیز حربہ استعمال کر کے ایک بار پھر مصر کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ یہ جنرل السیسی تھے جنہوں نے وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کر کے انہیں خلیفہ ہفتار کو فون کرنے پہ قائل کیا جس کی وجہ سے جنرل ہفتار کو مضبوط ڈپلومیٹک کور مل گیا؛ تاہم السراج حکومت نے ترکی کی حامی ملیشیائوں کی مدد سے جنرل ہفتار کی طرابلس پہ یلغارکو ناکام بنا دیا۔
خلیجی ریاستوں کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ ان شورشوں کو نمائندہ حکومتوں کے امکانی قیام کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔ خلیجی رہنماؤں کو خوف ہے کہ بلاد العرب کی وہ جماعتیں جو کئی دہائیوں سے کسی نہ کسی صورت حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی آئی ہیں اور جن کی اکثریت مذہب سے وابستگی رکھنے کے باعث بھاری عوامی حمایت رکھتی ہے‘ وہ کسی نہ کسی دن بیلٹ باکس کے ذریعے اقتدار میں آ سکتی ہیں۔ پڑوسی ممالک میں بنیادی حقوق کی علمبردار اور عوامی نمائندگی کی مانگ کرنے والی سیاسی قوتوں کو کامیاب ملی تو یہی رجحانات ان کی سرحدوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
2011ء سے تمام عرب ریاستوں نے مذہب پسند سیاسی گروپوں، خاص طور پر اخوان المسلمون کے خلاف جنگ کو اپنے اوپر فرض کر لیا ہے۔ جس طرح انہوں نے السیسی کے مصر پر قبضے کی حمایت کرکے مقبول سیاسی قیادت کو پسپا ہونے پہ مجبور کیا، اسی طرح وہ لیبیا میں بھی عوامی نمائندگی کی حامل حکومت کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ تصور کرتے ہوئے وہاں ہفتار آمریت کو دیکھنے کے متمنی ہیں بلکہ تمام خلیجی بادشاہتیں اس جدوجہد میں لیبیا کو مرکزی میدانِ عمل کے طور پر دیکھ رہی ہیں؛ تاہم لیبیا تنازع کے حوالے سے یورپ کے خدشات مختلف ہیں۔
لیبیا میں متضاد مفادات کے حامل غیر ملکی قوتوں کی تلویث نے تنازع کو لاینحل بنانے کے علاوہ وہاں سیاسی حل کی خاطر اقوام متحدہ کی مساعی کو نقصان پہنچایا۔ تمام غیر ملکی کردار اپنے مؤکل گروپوں کے لئے باہمی جنگ کو آسان بنانے کی خاطر انہیں مالی، ابلاغی اور فوجی مدد فراہم کر کے تنازعات کو بڑھانے میں سرگرداں ہیں۔ شام یا یمن کی طرح اس تنازع کو کسی پیچیدہ جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لئے یورپ کو لیبیا میں دیگر غیر ملکی اداکاروں کے کردار کو سمجھنا ہو گا۔ اس طرح کی جنگ لیبیا کے ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنے کے علاوہ براہ راست یورپی سکیورٹی مفادات اور عالمی توانائی کے بازاروں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یورپی ممالک اس مسئلے کے حل کی راہ پر گامزن ہیں لیکن امریکہ اور روس جیسی بڑی طاقتیں لیبیا میں تعمیری کردار ادا کرنے کو تیار نہیں جبکہ یورپی ممالک لیبیا میں بر سرپیکار گروپوں کی پشت پناہی کرنے والے غیر ملکی اداکاروں کو غیر جانبدار بنانے کے علاوہ وہاں شفاف انتخابی عمل کے ذریعے منتخب حکومت کے قیام کے خواہشمند ہیں۔ اس لئے وہ لیبیا پر ایک جامع بین الاقوامی ورکنگ گروپ قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ خلیفہ ہفتار کی سربراہی میں طرابلس پر ایل این اے کی حالیہ یلغار نے لیبیا کو ایک ایسی شورش کی طرف دھکیل دیا ہے جو یورپ کے جنوبی بارڈر پر دوررس پراکسی جنگوں کا محرک بن سکتی ہے۔ اس لئے یورپی یونین کے ممبر ممالک کو اس شورش کو ملک گیر جنگ کی شکل میں ڈھلنے سے روکنے میں بھرپور دلچسپی ہے، لہٰذا یہ بات نہایت اہم ہے کہ لیبیائی تشدد کی بین الاقوامی حرکیات کو یورپی باشندے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں؛ تاہم اگر لیبیا میں بیرونی مداخلت جاری رہی تو یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی پاور شیئرنگ معاہدے کے ذریعے بحران کے حل کی کوششیں رائگاں چلی جائیں گی جس کے نتیجہ میں شام جیسا ایک پیچیدہ علاقائی بحران پیدا ہو گا۔
لیبیا میں علاقائی پراکسی جنگوں کے اجرا سے قبل یورپی یونین کو فوری طور پر غیر ملکی اداکاروں کے کردار سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کر لینی چاہیے تھی، اب غیر ملکی کرداروں کی لیبیا میں خاطر خواہ سرمایہ کاری اس کام کو مشکل بنا رہی ہے۔ خاص طور پر فرانس نے ہفتار کی حمایت کر کے مسائل کے حل کی راہیں تقریباً مسدود بنا دی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اب بھی یورپی ممالک اس معاملے میں مثبت پیش رفت کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اسلحہ پابندی معاہدے کو لیبیا پر نافذ کرنے اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو استعمال کرکے لیبیا میں بڑھتے ہوئے تشدد سے ہر ایک کے مفادات کو لاحق خطرے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved