تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     13-09-2020

واردات کے بعد

ڈیفنس لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے موٹروے کے ایک ٹکڑے پر ایک خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے پورے مُلک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اِس واردات کی مذمت کیلئے لغت میں الفاظ کم پڑگئے ہیں۔ نہ صرف لوٹا گیا، بلکہ اس کے بچوں کے سامنے اُس کی آبروریزی بھی کی گئی۔ دو درندوں نے ایک گھرانے،اور ایک خاندان ہی کا نہیں ہر اُس شخص کا سکون چھین لیا، جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دِل موجود ہے۔ واقعہ تو ازحد افسوسناک، بلکہ المناک، بلکہ شرمناک تھا ہی، اس کے بعد جو کچھ سامنے آیا، اس نے تو دِل کو ایسے کچوکے لگائے ہیں کہ جن کی کسک کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ سیالکوٹ لاہور موٹروے کو ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا ہے، لیکن موٹروے پولیس نے اس کی سکیورٹی نہیں سنبھالی، اس کیلئے جو افرادی قوت اور دیگر لوازمات درکار تھے، وزارتِ مواصلات نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اس کے پُرجوش وزیر مرادسعید جو اپنی گرم گفتاری کے سبب خاص شہرت کما چکے ہیں، اور ہروقت اپنی کارکردگی کی تفصیلات پیش کرکرکے داد طلب کرتے رہتے ہیں، فائل پر سوئے رہے۔ پنجاب پولیس تک کو دستے متعین کرنے کیلئے نہیں کہا گیا، لیکن ٹول پلازہ جیب گرم کرنے کیلئے حاضر ہے۔ اگر انتظامات نہیں ہوپا رہے تھے، تو پھر موٹروے کو بند ہی رکھا جاتا، لیکن جان، مال، عزت اور آبرو کے احساس سے یکسر بے نیاز وزارت مواصلات کو شاید معقولیت کی ''م‘‘ بھی چھوکر نہیں گئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ واردات کے فوری بعد لاہور کے سی سی پی او منظر عام پر آئے اور نشانہ بننے والی خاتون ہی کو نشانہ بنا ڈالاکہ وہ رات گئے سفر کیوں کررہی تھی؟ اس نے یہ بے آباد راستہ اختیار کیوں کیا؟ جی ٹی روڈ کے ذریعے کیوں گوجرانوالہ روانہ نہیں ہوئی؟ اس بے شرمی نے قوم کے احساسِ شرم کو مزید گہراکر دیا کہ پولیس کا سربراہ مجرموں کی سرکوبی کیلئے دن رات ایک کرنے کے بجائے مظلوم خاتون پر برس رہا ہے۔ اس جلتی پر تیل یوں ڈالا گیا کہ وزرائے کرام کی بڑی تعداد نے اس کی مذمت کرنے سے انکار کردیا، اور تاویلیں ڈھونڈنے لگے، اور تو اور، اسد عمر جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیر کے سامنے جب برادرم حامد میر نے اپنے شو میں سی سی پی او کے قابلِ مذمت الفاظ رکھے تو ان کا ترت جواب تھا: اس میں کوئی بات غیرقانونی نہیں ہے، پھر سی سی پی او کے خلاف قانونی کارروائی کیسے کی جا سکتی ہے؟ حیران ہوں دِل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو مَیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی محترم کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرما دیاکہ سی سی پی او کے معاملے میں میڈیا نے مبالغے سے کام لیا۔ اس کے بعد سی سی پی او کو اپنی ادائوں پر غور کرنے کی ضرورت کیا تھی، وہ مزید بونگیاں مارنے میں مصروف ہو گئے۔
اخبار نویسانہ چھان پھٹک سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ مظلوم خاتون دوگھنٹے سے زیادہ موٹروے کے ویرانے میں موجود رہی۔ گاڑی کا پٹرول ختم ہوگیا تھا، اس نے کئی دروازوں پر دستک دی لیکن بروقت امداد نہ مل سکی۔ موٹروے پولیس نے اسے ایف ڈبلیو او کے سپرد کر دیا، ایف ڈبلیو او نے ایک اور دروازہ دکھا دیا، وقت ضائع ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ درندے آ پہنچے۔ اگر ایف ڈبلیو او کے اہلکار ذمہ داری اٹھاتے اور پولیس کو حرکت میں لے آتے، یا ٹول پلازہ پر موجود افراد کو دوڑاتے تو گاڑی تک پہنچا جا سکتا تھا۔ متعلقہ اداروں میں سے کسی کے کسی اہلکار نے اس حقیقت کا ادراک نہ کیاکہ خاتون جہاں پھنس چکی ہے، وہاں اندھا ویرانہ ہے اور پٹرول کی فراہمی سے زیادہ اسکی اور اسکے بچوں کی سلامتی کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔
مخدوم جاوید ہاشمی نے تو وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ طلب کرلیا ہے کہ اس گھنائونی واردات اور اس کی وجوہ میں پوشیدہ حکومتی اداروں کی غفلت، بے حسی اور نااہلی کی ذمہ داری براہِ راست ان پر عائد ہوتی ہے۔ یہ کہ وزیراعظم صاحب نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر جو جو کچھ کہہ رکھا ہے،اس کی روشنی میں (ان کے اپنے فراہم کردہ دلائل کے مطابق) ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس مطالبے کی تائید کے بجائے توجہ مجرموں کی تلاش اور انہیں انتہائی کڑی سزا دلانے کی طرف مبذول رکھی جائے تو مناسب ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی روح فرسا واقعات پیش آ سکتے ہیں، اور آتے رہتے ہیں، کہا جا سکتا ہے کہ کسی معاشرے کو جرائم سے مکمل طورپر پاک نہیں کیاجا سکتا۔ ہر ملک میں موجود قانون نافذ کرنے والے ادارے، بھری ہوئی جیلیں، اور سزائیں سنانے والی عدالتیں موجود ہیں، لیکن یہ ضرور کہاجا سکتا ہے کہ کسی واردات کے ذمہ دار کو جلدازجلد کیفر کردار تک پہنچانا مہذب معاشروں میں اولین فریضہ قرار دیا جاتا ہے۔ وطنِ عزیز میں آئے روز بچیوں اور بچوں کو جنسی خواہشات کی بھینٹ چڑھا ر قتل کر دیا جاتا ہے۔ سڑکوں پر حادثات میں بھی سینکڑوں افراد لقمۂ اجل بنتے چلے جاتے ہیں، اور ان سے زیادہ اپاہج ہوجاتے ہیں،لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ وزیراعظم اپنی جماعت کے سابق صدر کی بات پر توجہ نہ دیں تو بھی ان سے یہ مطالبہ تو کیا جا سکتا ہے کہ جب تک موٹروے سانحہ کے درندے گرفتار نہیں کر لیے جاتے، انہیں اپنے اوپر نیند حرام کر لینی چاہیے۔ مجرموں کی سرکوبی، یعنی عوامی مطالبے کے مطابق انہیں پھانسی پر لٹکا دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے معاملات پر گہرے غوروخوض کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوریاں، انہیں حکومتی سیاست کیلئے استعمال کرنے کا شوق عدالتی نظام کی پیچیدگیاں، میڈیا کی پیداکردہ ثقافتی الجھنیں، بے راہروی، اور بدکرداری کی تلقین کرتے ڈرامے، بڑھتی ہوئی آبادی، بیروزگاری اور جہالت کا طوفان، سب مل کر ہماری جنت کو جہنم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے کو بے عزت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، مذہبی حلقوں میں نعرہ باز، فرقہ پرست دندناتے پھرتے ہیںکہ قوم کو تقسیم کرنے کے یہ موثر ترین ''آلات کار‘‘ ہیں۔ اگر ہمہ گیر اقدامات نہ کیے گئے، پھر جو ہوگا، اسکا اندازہ لگانے، اور اسے (قبل ازوقت) دیکھنے کیلئے کسی سرمۂ سلیمانی کی ضرورت نہیں۔ مدینے کی ریاست بنانے کے جو دعوے وزیراعظم کرتے، اور اس حوالے سے امید کی جوت جگائے رکھتے ہیں، ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنی ساری توانائی قانون کی حاکمیت کیلئے صرف کریں۔ اداروں کو غلام بنانے کی خواہش دِل سے نکال دیں، الفاظ کی جمع تفریق سے منزل حاصل ہونا تو کجا اس کی طرف چند قدم بھی بڑھائے نہیں جا سکیں گے۔
ڈاکٹر صفدر محمود کی دو کتابیں
گزشتہ دنوں دو ایسی کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن کا مطالعہ پاکستانی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہر شخص کیلئے ضروری ہے۔ Introducing Founders of Pakistan ڈاکٹر صفدر محمود اور جاوید ظفر کی مشترکہ تصنیف انگریزی زبان میں ہے، جس میں شاہ ولی اللہ سے لے کر قائداعظم محمد علی جناحؒ تک آٹھ اُن شخصیات کا دلآویز تذکرہ ہے، جنہیں تحریک پاکستان میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ دوسری کتاب ''سچ تو یہ ہے‘‘ ڈاکٹر صفدر محمود کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ انکی عمر کا بڑا حصہ سرکاری ملازمت میں گزرا، اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، لیکن پاکستان کی تاریخ اور تحریک سے انکی دلچسپی کم نہیں ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس موضوع پر اتھارٹی کی حیثیت حاصل کرچکے۔ قائداعظم ؒ اور تحریک پاکستان کے حوالے سے جو غلط فہمیاں دانستہ یا نادانستہ پھیلائی جاتی ہیں، وہ تحقیق و جستجو کے بعد ان کا رد کرتے اور حقیقت تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ اہلِ صحافت کو تو اسے سطر سطر‘ ورق ورق یاد کر لینا چاہیے کہ جھوٹوں اور جھوٹ پھیلانے والوں کو ان کی نانیوں اور دادیوں سمیت ان کے گھر تک پہنچایا جا سکے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved