تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-09-2020

نصف صدی

میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں کو چھوڑے آج تقریباً باون برس گزر چکے ہیں۔ ان باون برسوں میں یوں ہوا کہ سکول چھوڑنے کے بعد سات آٹھ سال تک روزانہ شام کو سکول کے گرائونڈ میں فٹ بات کھیلنے جاتا رہا۔ محلے کے لڑکوں کی فٹ بال ٹیم تھی اور ہم روزانہ والی بال ٹیم کے آنے سے پہلے فٹ بال کھیل کر فارغ ہو جاتے تھے۔ والی بال والی ٹیم بڑوں کی تھی۔ ابا جی مرحوم، چچا رؤف مرحوم اور ہمارے ہمسائے چچا عاشق مرحوم، سبھی روزانہ بلاناغہ والی بال کھیلتے آتے تھے۔ سکول کھیلوں کے حوالے سے بڑی رنگا رنگ مصروفیات کو سموئے ہوئے تھا۔ سامنے والا بڑا گراؤنڈ فٹ بال اور والی بال کے کام آتا تھا۔ پیچھے والا چھوٹا گراؤنڈ کرکٹ اور ہاکی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ سکول کا ایک کمرہ باڈی بلڈنگ کلب والوں کے پاس تھا اور اس میں عابد بٹ‘ جو ایشیا کا تن سازی کا چیمپئن رہا تھا‘ یہاں خود بھی باڈی بلڈنگ کرتا تھا اور کئی لڑکے بھی وہاں اس کی شاگردی میں باڈی بلڈنگ سیکھنے آتے تھے۔ ہم بعض اوقات دیر تک عابد بٹ کے مسلز کو حیرانی سے دیکھتے۔ جب وہ اپنے بازوؤں کی مچھلیوں کو ابھارتا، آگے پیچھے ہلاتا اور ''ڈولے‘‘ پُھلاتا تو ہم لوگوں کی آنکھیں پھٹ سی جاتیں۔ 
میں سکول سے 1968ء میں پانچویں جماعت پاس کر کے گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی چلا گیا؛ تاہم جیسا کہ میں نے بتایا‘ تقریباً 1976ء تک فٹ بال کھیلنے روزانہ آتا رہا۔ پھر ٹیم ختم ہو گئی تو روزانہ کے بجائے وہاں ہفتے میں دو تین بار جانا ہوتا۔ گھاس والے گراؤنڈ پر بیٹھ کر دوستوں سے گپ شپ ہوتی۔ والی بال کی ٹیم ابھی قائم تھی اور صرف طوفان یا بارش ہی ناغہ کرواتی تھی۔ تین سال بعد والدہ مرحومہ کا تعلیمی ادارہ قاسم پور کالونی میں اپنی نئی عمارت میں منتقل ہوا تو ہم بھی وہاں پرنسپل کی سرکاری رہائش گاہ میں شفٹ ہو گئے۔ ماں جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہم وہاں سے واپس چوک شہیداں آنے کے بجائے اپنے عثمان آباد والے گھر چلے گئے‘ یوں اس محلے سے رابطہ آہستہ آہستہ تقریباً ختم ہو گیا اور برسوں بعد صرف غمی خوشی کے موقع پر ہی آنا جانا رہ گیا۔ آخری بار سکول کا دیدار ایک شادی کی تقریب میں نصیب ہوا تھا۔ یہ بھی تقریباً تیس بتیس سال پرانی بات ہو گی۔ ایک عزیز کا ولیمہ تھا اور ٹینٹ سکول کے گراؤنڈ میں لگایا گیا تھا۔ آدھے گراؤنڈ میں بارش کا پانی تھا جس پر مچھروں کے پرے کے پرے موج میلا کر رہے تھے۔ دروازے خستہ حال اور کھڑکیوں میں لکڑی کے پھٹے کیلوں سے جڑے ہوئے تھے۔ تب پرانی اور بلند و بالا ''ٹاہلیاں‘‘ (شیشم کے درخت) قائم و دائم تھیں۔
گزشتہ روز تعزیت سے واپسی پر میں نے گاڑی سکول کے دروازے پر روکی اور اندر چلا گیا۔ تیس بتیس سالوں میں سکول کا سارا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا تھا بلکہ سکول کیا؟ اس کا سارا اردگرد بھی بدل چکا تھا۔ سکول کے دروازے کے دائیں طرف گھوڑوں کو پانی پلانے والا حوض غائب تھا۔ ساتھ والے کھوکھے کی جگہ پختہ دکان نے لے لی تھی۔ چچا جان محمد کی چھوٹے سے دروازے والی سٹیشنری کی اکلوتی دکان غائب تھی اور اب وہاں دکانوں کی ایک قطار تھی۔ یہ سب نئی نئی دکانیں تھیں اور گل محمد عرف گلو نائی کی باربر شاپ بھی غائب تھی۔ سکول کی دیوار کے ختم ہوتے ہی پہلی دکان ایران آٹوز تھی جہاں ایک صاف ستھری، چمکتی ہوئی ''پیکارڈ‘‘ کار کھڑی ہوتی تھی جس کے بارے میں روایت تھی کہ ایک بار قائداعظمؒ نے اس پر سواری کی تھی۔ یہ گاڑی دو دکانوں پر مشتمل ایران آٹوز کی ایک دکان میں کھڑی رہتی تھی اور ہفتے میں ایک آدھ بار باہر نکالی جاتی تھی۔ ایک دن ہمیں کار کے شیشوں کے ساتھ چپکے دیکھ کر ایران آٹوز کے مالک نے‘ جس کا ہمیں نام نہیں آتا تھا لیکن ہم اسے تلو باجی کا بھائی کہتے تھے‘ ہمیں گاڑی کھول کر اندر بٹھایا۔ ہم مہینوں تک اس اعزاز کا ذکر ہر ملنے والے سے کرتے رہے۔
سکول میں پہلی تبدیلی تو یہ آئی ہوئی تھی کہ اب یہ پرائمری نہیں بلکہ ہائی سکول بن چکا تھا۔ اس کے ساتھ گلی میں سامنے والا گرلز مڈل سکول بھی ہائی سکول میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو ایک جھٹکا سا لگا۔ جس گراؤنڈ میں ہم برسوں کھیلتے رہے تھے اس کا کہیں نام و نشان تک نہیں تھا۔ سکول کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں طرف سیمنٹ اور بجری سے بنا ہوا پاکستان اور ضلع ملتان کا نقشہ کئی فٹ نیچے دب چکا تھا اور یہاں اب پختہ فرش تھا۔ جہاں گلاب کے پودوں کا بڑا جھنڈ ہوتا تھا وہاں باتھ رومز بن چکے تھے۔ ساتھ والی خالی جگہ پر کوئی سرکاری دفتر بن چکا تھا جس کا دروازہ کسی اور طرف کھلتا تھا۔ دائیں طرف والا گراؤنڈ جہاں ہم سردیوں میں باہر دھوپ میں بیٹھ کر پڑھتے تھے ختم ہو چکا تھا۔ وہاں اب ہیڈ ماسٹر کا کمرہ تھا اور دیگر کمرے تھے۔ سفیدے کے پانچ بلند و بالا درخت بھی موجود نہیں تھے۔
برآمدے کے سامنے والے تھڑے کے آگے لگی ہوئی پرانی دیوہیکل ''ٹاہلیاں‘‘ بھی کہیں نہیں تھیں۔ فوارہ ندارد تھا اور وہ پرانی بیری! اس جگہ پر نئی عمارت بن چکی تھی۔ ہائی سکول کے لیے درکار کمرے گراؤنڈ کے بیشتر حصے اور بیری کے درخت کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔ 1965ء کی جنگ کے دنوں میں بنائے گئے پانی کے بہت بڑے حوض کی جگہ اب کرکٹ کی ایک پختہ پچ تھی۔ سول ڈیفنس والوں کا کمرہ کلاس روم بن چکا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب والا پرانا کمرہ اب شاید کلرک کے پاس تھا۔ اس کے پاس سے گزر کر برآمدے میں داخل ہوا تو پہلا کمرہ جو پنجم (ب) کا تھا اب پہلی کلاس کاکمرہ تھا۔ اس کے آگے میرا کلاس روم تھا۔ جہاں کبھی پنجم (الف) لکھا ہوتا تھا وہاں اب کلاس دوم کی تختی لگی ہوئی تھی۔ درمیان والا ہال کمرہ جو صرف تقریبات اور امتحانات کے لیے استعمال ہوتا تھا کلاس اول کا کمرہ تھا۔ لکڑی کے پرانے دروازے ندارد تھے۔ ان کی جگہ لوہے کی چادر والے دروازے تھے۔ میں نے اپنی جماعت کا کمرہ کھولا۔ اندر ٹاٹوں کی جگہ پر بینچ اور میزیں تھیں۔ پرانا بلیک بورڈ موجود تھا مگر اس کے اوپر نیا وائٹ بورڈ کیلوں سے لگا دیا گیا تھا۔ ہاں! مانیٹر غلام حسین صاحب والی پرانی الماری اسی طرح موجود تھی۔ فرق اتنا تھا کہ تب اس کا رنگ میرون تھا اور اب اس پر کسی نے گرے پینٹ کر دیا تھا۔ سکول بند تھا؛ تاہم دروازوں کی صرف کنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے کئی کمرے کھول کر اندر جھانکا۔ کہیں کسی شناسائی کے آثار نہیں تھے۔
آخری سرے پر عابد بٹ باڈی بلڈنگ والا کمرہ اندر سے بند تھا۔ میں نے اشتیاق کے مارے دوسری طرف جا کر وہی بچوں والے تجسس کے ساتھ جالی سے منہ جوڑ کر اندر جھانکا کہ شاید اندر وہی پرانی بنچیں، قد آدم آئینے، ڈمبل، ویٹ اور باڈی بلڈنگ میں استعمال ہونے والی چیزیں پڑی ہوں مگر وہاں پائپ، بانس، ایک دو ٹوٹی ہوئی کرسیاں اور ایک سٹیل کا کھوکھا سا پڑا تھا۔ پورے سکول کا چکر لگا کر میں واپس آیا تو ایک سکول ٹیچر مجھے ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں لے گیا۔ تعارف ہوا تو ٹیچر نے بتایا کہ اندر برآمدے میں سکول کے چند ایسے فارغ التحصیل طلبہ کا نام بورڈ پر لکھا ہوا ہے جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کوئی نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ اس چودہ ناموں پر مشتمل فہرست میں دوسرے نمبر پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے۔ میں برآمدے میں اس لوحِ اعزاز کو دیکھنے جا رہا تھا تو سامنے لان میں کام کرتے ہوئے مالی نے مجھے خالی سکول میں مسلسل گھومتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ کیا آپ کو کسی سے ملنا ہے؟ میں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ اب بھلا میں کیا بتاتا کہ میں تو یہاں خود سے ملنے آیا تھا مگر میری تو خود اپنے سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ میں نے کسی اور سے کیا ملنا ہے؟ کیسی بدقسمتی ہے کہ آپ کسی سے نصف صدی بعد ملنے جائیں اور اس سے ملاقات نہ ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved