اگر آپ انٹر نیٹ کے صارف ہیں تو گوگل، سکائپ، فیس بک، مائیکروسافٹ، یاھو اور ایپل سے خبردار رہیں۔ یہ آپ کے سائبر معاونین نہیں بلکہ آپ پر نظر رکھنے والے ’’بڑے بھائی ‘‘ ہیں۔ تاہم ان کا بھی اتنا قصور نہیںہے ، اصل فساد ’’بڑے ڈیڈی ‘‘ کا ہے جس نے ان کے سرورز میں اپنے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں جو دنیا بھر کی انتہائی پیچیدہ سابئر سپیس پر نظر رکھتے ہیں۔ شاید پاکستان کو علم بھی نہ ہوتا کہ اُن کی جاسوسی کی جارہی ہے اگر ایک نوجوان قدم آگے بڑھا کر اس کا انکشاف نہ کرتا۔ ہم انتیس سالہ، سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل اسسٹنٹ ایڈورڈ سنو ڈن کے بے حد شکرگزار ہیں۔ یہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے مشہور برطانوی اخبار ’’گارڈین‘‘ کو بتایا کہ گزشتہ مارچ میں امریکہ کی این ایس اے (نیشنل سیکورٹی ایجنسی ) نے پاکستان سے 13.5 بلین انٹیلی جنس رپورٹس چرائی تھیں۔ امریکہ نے جن ممالک کی سب سے زیادہ معلومات پر نقب لگائی ہے، اُن میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اخفائے راز کا اب نتیجہ کیا نکلے گا ؟ کیا ہمارا دفترِ خارجہ امریکی نائب سفیر ھوگلینڈ کو بلا کر اُسے احتجاجی مراسلے دینے کی جسارت کرے گا؟ تاہم ، ہم جانتے ہیں کہ اُن کا رد ِ عمل کیا ہوگا۔ صورت ِ حال یہ ہے کہ امریکہ عام پاکستانیوںکے انٹر نیٹ تک رسائی رکھتا ہے، اُن کی ای میلز پڑھتا ہے اور ان کی فون کالز سنتا ہے لیکن اس بات کا انکشاف ہونے پر کوئی احتجاجی صدا بھی بلند نہیں ہوتی۔ یہ بات کتنی احمقانہ لگتی ہے۔ اس طرح تو ڈرون حملوں پر بھی شکایت نہیں کرنی چاہیے۔ نواز شریف سے پہلے گیلانی، زرداری اور ان سے پہلے پرویز مشرف پاکستانیوںکی ہلاکت پر امریکیوںکے سامنے (بظاہر ) شکوہ کرتے ہوئے حملے روکنے کا کہا کرتے تھے۔ نئے حکمران ، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ حملے رکوا دیںگے، کو اقتدار سنبھالنے کے دو دن بعد ہی شمالی وزیر ستان میں ڈرون حملے کا صدمہ سہنا پڑا۔ ڈرون حملے کئی سالوںسے جاری ہیں، اس لیے یہ توقع کرنا حماقت کے زمرے میںہی آتا ہے کہ امریکہ ایک نو منتخب شدہ وزیر ِ اعظم کی محض ایک شائستہ درخواست پر اُنہیں روک دے گا۔ نواز شریف خارجہ اور دفاعی امور کا تجربہ رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیںکہ امریکہ جو چاہے وہی کرے گا۔ نواز شریف کے نہایت ذی فہم اور جہاندیدہ، چوراسی سالہ مشیر برائے خارجہ امور، سرتاج عزیز اچھی طرح جانتے ہیںکہ پاکستان امریکہ کو حکم دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، چنانچہ ڈرون حملوںکے وا ویلے سے آگے بڑھتے ہوئے اس بات کی تفہیم کریں کہ سائبر جاسوسی بھی کم سنگین معاملہ نہیں ہے۔ اس سے صرف وزیرِ اعظم ہی نہیں ، ہر پاکستانی جو انٹر نیٹ استعمال کرتاہے، کو تشویش لاحق ہونی چاہیے۔ اگر اس معاملے کو دوسرے زاویے سے دیکھیں کہ کیا پاکستانیوں کی جاسوسی کرنے پر امریکہ کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟کیا یہ بات غلط ہے کہ شمالی وزیر ستان میں جنگجو موجود ہیں اور وہ دنیا کی واحد سپر پاور کو شکست دینے کے لیے کمر بستہ ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہماری دفاعی اسٹیبلشمنٹ نے ان قبائلی علاقوں کو انتہا پسندوں سے پاک کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کی نظروںکے سامنے طالبان اس ملک میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ بڑی بے خوفی سے لوگوں کو اپنے نظریات کے نام پر ہلاک کر رہے ہیں لیکن ان کے خلاف بھی کوئی قابل ِ ذکر کارروائی نہیںکی گئی ہے۔ اگر معاملات کو اس نظر سے دیکھیں تو امریکہ کی تشویش بجا لگتی ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے کہیں ان جنگجوئوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ ہمارے خفیہ ادارے بن لادن کا پتہ چلانے میں ناکام رہے حالانکہ وہ حساس ترین علاقے میں رہ رہا تھا۔ اس حوالے سے امریکیوں کا غصہ بجا لگتا ہے کہ وہ شخص جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کا ذمہ دار تھا، وہ پانچ سال تک نہایت سکون سے ایبٹ آباد کے ایک مکان میں اپنی متعدد بیویوںکے ساتھ رہ رہا تھا اور اس دوران وہ بہت سے بچوں کا باپ بھی بنا۔ این ایس اے کے پروگرام ، جس کا کوڈ نام PRISM تھا، کے تحت پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھا جہاں سے امریکی حکومت نے انٹر نیٹ سروس سے مواد چوری کیا۔ تاہم اب ایک شخص، ایڈورڈ سنوڈن کے انکشاف کی وجہ سے امریکہ کو بدنامی کا سامنا ہے جبکہ اوباما انتظامیہ اپنا دفاع کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ صدر اوباما امریکی شہریوںکو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس مواد کو چرانے کا مقصد ان کو مستقبل میںدھشت گردی کے مزید حملوں سے بچانا تھا۔اُنھوںنے اپنی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کانگرس انہیں فون اور انٹر نیٹ سے مواد حاصل کرنے کا اختیار دے چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے یہ کہہ کر امریکیوںکو یقین دلایا ۔۔۔’’یقین کر لیں کہ آپ کی فون کالز کوئی نہیں سن رہا ‘‘ تاہم لبرل ان باتوں پر اعتماد کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ سماجی اور شخصی آزادیوں کے داعی نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ کی اٹھارہ رکنی ٹیم نے اوباما انتظامیہ کوسخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے۔۔۔’’اب امریکی انتظامیہ اپنا تمام اعتماد کھو چکی ہے۔ مسٹر اوباما اس دعوے کو سچ ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیںکہ ان کی انتظامیہ خود کو حاصل اختیار کا منفی استعمال کرتے ہوئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔‘‘نیویارک ٹائمز عام طور پر اس طرح سخت الفاظ میں اداریے نہیں لکھتا۔ اسی اخبار میں اوباما کی ایک نقاد میرین ڈوڈ (Maureen Dowd) لکھتی ہیں۔۔۔’’یہ درست ہے کہ امریکی اپنا تحفظ چاہتے ہیں لیکن اُن اقدار کی قربانی دیتے ہوئے نہیں جو ہمیں امریکی بناتی ہیں۔ محض اتفاق ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے انتہائی خفیہ کیبل چرانے پر دفاعی تجزیہ کار بریڈلے میننگ کا بارہ ہفتے کا کورٹ مارشل کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان خفیہ اداروں یا ان افراد کو ٹیلی فون، سائبر سپیس اور ڈیپارٹمنٹ کیبلز چرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سب سے پہلے این ایس اے کے ’’بڑے ڈیڈی ‘‘ کی بات کر لیتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ امریکیوں کو مستقبل میں ہونے والے دھشت گردی کے حملوں سے بچانا چاہتا ہے، اس لیے اسے دھشت گردوں، خاص طور پر وہ جو پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں، کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ بریڈلے میننگ نے بہت زیادہ کیبلز وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو فراہم کیں۔ اُس نے عدالت کو بتایا کہ عراق اور افغانستان کے بارے میں وکی لیکس کا عنوان تھا۔۔۔’’ضمیر کا فعل‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ امریکی فوج کی طرف سے آزادی اور تحفظ کو جواز بنا کر کئی گئی زیادتیوں کو دنیا کے سامنے لانا بجا طور پر ضمیر کا فیصلہ سمجھتا تھا۔ آخر میں ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی حکومت کے ہاتھوں وہ خفیہ معلومات فروخت کرتے ہوئے اربوں کمائے ہیں۔ اس وقت وہ ھانگ کانگ کے کسی ہوٹل میں ہے۔ دی گارڈین سے بات کرتے ہوئے اُس نے بتایا کہ وہ جانتا تھا کہ اس راز کو فاش کرنے کی سزا ملے گی، لیکن اس کا ضمیر بوجھ ڈال رہا تھا کہ امریکی حکومت لوگوں کی نجی زندگی کے حقوق اور شخصی آزادی کی پامالی کرے۔ اس طرح ان دونوں نوجوانوںنے ’’بڑے ڈیڈی ‘‘ سے سرتابی کرتے ہوئے دنیا کو بتانے کی جرات کی ہے کہ امریکہ دنیا کا پولیس مین بننے کی کوشش کررہا ہے۔ ہمارے امریکی دوست تو پاکستانیوںکی خامیاں تلاش کرنے میں تو بہت پھرتی سے کام لیتے ہیں، لیکن معاملہ یہ ہے کہ ’’مسیحا کو اپنا علاج خود کرنا ہے‘‘۔جب آپ کا اپنا دامن ہی آلودہ ہے تو پاکستان کو نصیحت کرنے کا کیا جواز ہے؟ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے افشائے راز ہی امریکہ کی دکھتی رگ بننے والے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved