سوچتی ہوں کیا لکھا جائے‘ قلم لرز رہا ہے‘ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ذہن ماؤف ہے‘ زندگی میں اتنے دکھ کیوں ہیں؟زندگی اچھی بھی تو ہوسکتی تھی‘ کاش کوئی دکھ نہ ہوتا‘ کاش کوئی غم نہ ہوتا ہم زندگی بس خوشیوں کے ساتھ گزارتے۔مجھے تنہائی پسند نہیں‘ میں اکثر اپنی بہنوں سے کہتی ہوں کہ ایک ہی زندگی ملی ہے‘ انسان اسے اپنوں کے بغیر کیوں گزارے‘ ہمیں ہفتے میں دو بار ضرور ملنا چاہیے اور والدین سے تو روز ملنا چاہیے‘ زندگی کا کیا بھروسا‘کب کون کس موڑ پر ساتھ چھوڑ جائے۔اللہ سب کو صحت اور تندرستی دے اور والدین کا سایہ سلامت رکھے ۔یہ رشتے بہت قیمتی‘بلکہ انمول ہیں۔ماں باپ کی تو جتنی خدمت کی جائے کم ہے‘ مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ امی ابو کے پاؤں دبانے کے بعد اللہ میرے لئے مشکلات کم اور آسانیاں زیادہ کردیتا ہے۔
میرا کوئی بھائی نہیں ‘اس لئے اکثر ہم بہنیں مل کر دفتری کاموں سے فراغت کے بعد گھریلو امور انجام دیتی ہیں‘ ویسے بھی جس وقت گھر کے مرد کام پر گئے ہوتے ہیں تو خواتین ہی ساری ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔والدین اگر بیمار ہو ں تو اس صورت میں بھی ہم بہنیں ہی ان کے ساتھ ہوتی ہیں‘ معتدد بار یہ بھی ہوا کہ امی کی طبیعت خراب ہوئی تو رات گئے ہسپتال جانا پڑا۔رات کا سناٹا اور ہر طرف خاموشی کا راج اکا دُکا گاڑی سڑک پر تھی ‘پر کبھی کوئی خوف محسوس نہیں ہوا کیونکہ اسلام آباد ایک محفوظ شہر سمجھا جاتاہے۔ہمارا بچپن یہیں گزرا ہے‘ ہمیشہ اس شہر کو پرامن اور خواتین کے لیے محفوظ پایا ہے۔اللہ امی کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے ‘ ہمارا ان کے علاوہ اور ان کا ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔پر جو موٹروے پر خاتون کے ساتھ ہوا اس کے بعد سے ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا ہم محفوظ ہیں؟میں اور میری بہنیں محرم بھائی کہاں سے لائیں؟ جب اللہ نے نہیں دیا تو اب ہمیں اپنے روزمرہ کے کام خود ہی کرنے ہیں‘ کوئی اور تو آکر کرے گا نہیں۔ایک بار میں لاہور سے واپس آرہی تھی‘ راستہ جی ٹی روڈ کا تھا‘ مجھے وہاں سفر آرام دہ نہیں لگا مجھے‘ بے چینی رہی‘جبکہ موٹروے مجھے ہمیشہ بہت پرسکون اور محفوظ لگتا ہے۔میری طرح اور بھی بہت سی خواتین ہیں جو پروفیشنل ذمہ داریوں کے ساتھ گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھا رہی ہیں۔
خواتین وہ تمام کام کررہی ہیں جو مرد کرتے ہیں ‘بچوں کو سکول چھوڑنا‘ لینا‘بازار سے خریداری‘ملازمت‘یہاں تک کہ گھر میں تعمیرات‘ لیگل معاملات‘ٹیکس معاملات اور بزنس تک خواتین خود کررہی ہیں۔کچھ شادی شدہ ہیں ‘شوہر کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔کچھ سنگل ہیں کچھ بیو ائیں‘ کچھ یتیم ہیں اور کچھ شوقیہ کام کررہی ہیں‘ لیکن زندگی کی گاڑی بہترین طور پر چلا رہی ہیں۔
اس پر یہ سوال کیا جائے کہ عورت باہر کیوں نکلی؟عورت تو باہر نکلے گی کیونکہ اس دنیا میں ان کی بھی جگہ ہے۔وہ بھی امور انجام دیں گی۔خاتون جس بھی وجہ سے سڑک پر تھی‘ حکومت اور پولیس کا فرض تھا کہ اس کی مدد کی جائے اور فوری طور پر کی جائے۔اسلام آباد میں ایک بار طوفانی بارش میں بہن کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا‘ اس کو ٹائر تبدیل کرنا آتا ہے‘ وہ خود تبدیل کرنے لگی تو دور سے دو اسلام آباد پولیس کے اہلکار آئے اور بہن کو ہٹا کر خود ٹائر بدل کر دیا۔اس دوران وہ مکمل بھیگ گئے لیکن ہمیں زحمت اور بھیگنے سے بچالیا۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی‘ ان کی تربیت کرنے والوں کو سلام۔حادثہ یا مسئلہ تو کہیں بھی ہوسکتا ہے‘ لیکن اس کو حل کرنے والے فرض شناس ہو ں تو عوام کو تکلیف نہیں ہونے دیتے ‘نہ ہی ان کو برابھلا کہتے ہیں ‘نہ ہی الزام دیتے ہیں کہ بی بی اتنی تیز بارش میں گھر سے کیوں نکلی؟وہ آئے مدد کی اور چلے گئے۔
پر پولیس دوسرے صوبوں میں ایسی کیوں نہیں؟ وہ وقت پر شہریوں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟اگر موٹروے پر کھڑی خاتون کے پاس وقت پر مدد آجاتی تو اتنا بڑا سانحہ نہیں ہوتا۔خاتون کے بچوں کو زدوکوب کیا گیا‘ خاتون کے ساتھی زیادتی کی گئی اور سامان لوٹ لیا گیا۔رہی سہی کسر سوشل میڈیا صارفین نے پوری کردی‘ متاثرہ خاتون کی ایف آئی آر سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی۔لوگ اتنے بے حس کیوں ہیں ‘چند لائکس کے لیے کسی کی زندگی سے کھیل جاتے ہیں۔زیادتی سے متاثرہ خاتون یا بچے کی شناخت چھپانا ہم سب پر فرض ہے۔ان کے لیے انصاف مقصود ہے ‘بدنامی نہیں۔اگر کسی کی شناخت ظاہر کرنی چاہیے وہ تو ریپسٹ ہے۔اس کی تصاویر شیئر کریں اور اسے نشانِ عبرت بنایا جائے۔
ہندوستان میں 80 سال کی خاتون کی ساتھ زیادتی ہوئی‘ پاکستان میں پانچ سال کی مروہ کے ساتھ زیادتی کے بعد اس جلا دیا گیا۔حالیہ دنوں میں دو بچیوں اور ایک بچے کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوچکا ہے اور موٹروے پر خاتون کی عصمت دری ہوئی۔سکھر میں بیٹے نے ماں کا ہاتھ توڑ دیا اور گھر سے نکال دیا‘ وہ ٹی وی پر رو رو کر دہائی دی رہی تھی‘ ستر سال کی عمر میں کہاں جائے۔کورونا کی وبا کے بعد تو معاشرے کو سدھر جانا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ہم جتنی پھانسیاں دے دیں‘ جرائم کم نہیں ہوں گے۔معاشرے کو اخلاقی اور دینی انقلاب کی ضرورت ہے۔معاشرے سے انتہا پسندی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
عورتوں بچوں کا احترام کیا جائے ‘وہ انسان ہیں ان کو بھی اس دنیا میں رہنے کا حق حاصل ہے۔حضرت عمر فاروق رضی تعالیٰ عنہ راتوں کو جاگتے تھے اور بھیس بدل کر چکر لگاتے تھے تاکہ رعایا کا دکھ درد جان سکیں ‘ان کی حفاظت کرسکیں۔یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اپنے محلات میں چین کی نیند سوتے ہیں اور گلی بازاروں اور سڑکوں پر قوم کی عزت بے آبرو ہورہی ہے۔
زیادہ تر مرد خواتین کا احترام کرتے ہیں‘ بچوں پر شفقت کرتے ہیں لیکن کچھ اوباش لوگوںکی وجہ سے پورا پاکستان بدنام ہورہا ہے۔عالمی میڈیا میں اس خبر کی سرخیاں لگ رہی ہیں‘ کیا عورت کے لیے پاکستان محفوظ نہیں؟ بالکل ہے‘ آج بھی لمبی لائن کے باوجود مرد پہلی جگہ عورت کو دے دیتے ہیں کہ‘کسی عورت کی گاڑی خراب ہوجائے تو لوگ فوری مدد کو آتے ہیں اور گاڑی ٹھیک کردیتے ہیں‘خواتین کا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھ دیتے ہیں‘گلی محلے کی خواتین کو دیکھ کر مرد نظریں نیچی کرلیتے ہیں ‘راہ چلتے عورت کو کوئی مرد ستائے تو اس کے ہم جنس مرد ہی اس کی درگت بنا ڈالتے ہیں۔ایسے مردوں کو سامنے آنا ہوگا‘ برے مردوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اور عورتوں کا تحفظ کرنے کے لیے‘ سب کو مل کر اس برائی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ریپ کیوں بڑھ رہے ہیں‘بچے‘ بچیوں پر جنسی حملے کیوں ہورہے ہیں ‘اس پر حکومت ‘مفکرین ‘سماجی کارکنوں‘ مذہبی شخصیات اور طبی ماہرین کو مل کر بیٹھنا ہوگا ۔اس مرض کا سدباب کیسے کیا جائے ‘عورتوں اور بچوں کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔اس پر غور کرنا ہو گا۔معاشرے کو اجتماعی توبہ کرنا ہوگی‘ ورنہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو جرائم کی پاداش میں درد ناک عذاب سے دوچار کیا ہے۔مظلوم کی آہ فرش ہلا دیتی ہے اس آہ سے بچیں۔
وجہ بچے ‘ عورتیں یا ان کا لباس نہیں ہے‘ مجرم صرف ریپ کرنے والے ہیں اور وجہ ان کی گندی سوچ اور گندے اعمال ہیں۔ ان کو کٹہرے میں لائیں اور نشانِ عبرت بنائیں تاکہ دیگر اوباش لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور انہیں سدھرنے میں مدد ملے۔ماں اور باپ بیٹی پر پابندیاں لگانے کے بجائے بیٹے کی صحیح تربیت کریں کہ اس نے گھر اور باہر کس طرح سے برتاؤ کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے گھر میں عورت کی تذلیل دیکھے گا تو باہر بھی عورتوں کے ساتھ یہی سلوک کرے گا‘ اگر وہ اپنے گھر میں ماں‘ بہن ‘بیٹی ‘بیوی کی تکریم دیکھے گا تو وہ باہر خواتین کا احترام کرے گا۔ سب اپنا اپنا محاسبہ کریں تو معاشرہ جلد اچھائی کی طرف آ سکتا ہے۔