تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-09-2020

ماں ۔۔۔۔اس وطن کی ماں

گود میں کلکاریاں مارتے ہوئے بچے کو دیکھ کر جینے والی ماں‘ اسے گرتا‘ روتا ‘شرارتیں کرتا‘ ہر گھڑی اس کا لمس اپنے وجود کے اندر سموئے اسے بڑھتا دیکھ کر اس کی سو سو بلائیں لینے والی ماں‘ ایک لمحہ خود سے جدا نہ کرنے والی ماں‘ بڑے چائو لیکن نم ناک آنکھوں سے ایک دن اُسے گھر سے نرسری پھر سکول اورپھر کالج آتے جاتے دیکھتی ہوئی ماں ایک دن اپنے بیٹے کو فوجی وردی پہنا کر وطن کا سپاہی بنا کر بھیج دیتی ہے تا کہ وہ ملک کی حفاظت کرے ۔ 
خاکی وردی پہنا کر اپنے اس لال کے ہاتھوں میں رائفل‘ مارٹر اور کلاشنکوف تھما کر کبھی اسے توپچی اور ٹینک شکن بنا کر تو کبھی اسے آرمرڈ کور کا شہ سوار بنا کر‘ کبھی کسی آبدوز کا کمانڈر اور کبھی جنگی بحری جہاز کا کموڈور تو کبھی فائٹر پائلٹ بنا کر دشمن کو شکست دینے کا حکم دے کر رخصت کرنے والی ماں اپنے جوان کو وطن کی حرمت کے لیے ‘اس کی فضائوں میں گونجتی ہوئی اﷲ اکبر کی صدائوں کو مزید بلند کرنے کے لیے اپنے آگے عقیدت سے سر جھکائے وطن کے سپاہی کی صورت میں کھڑے بیٹے کا ماتھا چوم کر وطن عزیز کے شہروں‘ پہاڑوں‘ صحرائوں اور میدانوں‘ سمندروں اور فضائوں میں سرگرم ہونے والے کسی بھی محاذِ جنگ کی جانب بھیجنے والی ماں‘ اس ملک و قوم کی محسن ہے جو اپنی سب سے قیمتی متاع کو اس ملک اور قوم کے سب سے بڑے دشمن کے مد مقابل لا کھڑاکرتی ہے۔ وہ ماں جس کا دل اپنے لال کے بدن پر ہلکی سی خراش آنے سے بے چین ہو جاتا ہے‘ جس کی معمولی سی تکلیف اسے برداشت نہیں ہو پاتی ‘محاذ جنگ کی جانب بڑھنے والے ان سپائیوں کی مائیں اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کے وطن کا دشمن عددی اعتبار سے ان سے چھ گنا بڑا ہے‘یعنی ہمارے ایک جوان کے مقابلے میں دشمن کے چھ سپاہی ہوں گے‘ ہمارے کے ایک ٹینک کے مقابلے میں دشمن کے پانچ ٹینک ہوں گے‘ ہماری ایک آبدوز کے مقابل دشمن کی دو آبدوزیں ہوں گی‘ ہمارے ایک فائٹر جیٹ کے سامنے دشمن کے تین فائٹر جیٹ ہوں گے‘ اس کے با وجود نم ناک آنکھوں سے ہی سہی ناصر‘ علی‘ ہارون‘ معظم‘ تیمور‘نیک محمد‘ عمران‘ عثمان‘محفوظ‘ لالک جان‘ شبیر‘ شیر خان‘ندیم‘خالد‘ نوید‘ بچل‘ علی رضا‘ بابر‘ احسن‘ سرور‘ طفیل ‘ عزیز‘ اکرم‘ عاقب‘نادر‘ الطاف‘ قدیر اور حفیظ اﷲ جیسے سینکڑوں نام لے کر یہ شیر دل مائیں تاکید کرتی ہیں'' تینوں رب دیاں رکھاں‘‘۔
محاذ جنگ کی طرف بھیجنے کے بعد ہر آہٹ پر چونک جانے والی ماں‘ ہر فون کال پر گھبرا جانے والی ماں سامنے لگی ٹی وی سکرین پر چلنے والی خبروں کو سانس روک کر سنتی ہوئی ماں کو ایک دن اطلاع ملتی ہے کہ اس کا لال وطن پر قربان ہو کر پاک دھرتی کو سر سبز رکھنے کے لیے اپنے خون سے سیراب کر گیا ہے تو اسے لگتا ہے جیسے اس کی محنت کام آ گئی ہے ‘ پھر کئی گھنٹوں بعد جب اپنے لال کو سفید کفن میں لپٹا دیکھتی ہے تو یادوں کاایک سلسلہ اس کی آنکھوں اور تصورات میں چلنے لگتا ہے۔اس کا بچپن‘ لڑکپن‘ تعلیم کا سلسلہ‘ اس کی پسند یدہ خوراک‘ کپڑے‘ کپڑوں کے رنگ‘ سکول‘ کتابیں بستہ‘ استاد‘ دلچسپیاں‘ مسلح افواج کی لگن‘ وطن سے محبت کا جذبہ‘ مسلح افواج میں بھرتی کے لیے گھر سے نکلتا‘ وہ دن جب وہ اپنی ڈیوٹی پر روانہ ہوا‘ ڈیوٹی سے اس کے لکھے ہوئے خط‘ ٹیلی فون‘ چھٹی پر آنا پھر جانا‘یہ سلسلہ جو ایک جوان کی شاندار زندگی کا احاطہ کرتا ہے ‘ اس کی شہادت کے بعد یادوں کا یہ سلسلہ چند لمحوں میں شہیدکی والدہ کے ذہن میں آن کی آن میں برقی رو کی طرح دوڑ جاتی ہے۔ اپنے وجود کے اس ٹکڑے کو ہلکی سی چوٹ لگنے پر بے چین ہو جانے والی ماں ذرا سی دیر ہو جانے پر کبھی دروازے ‘کبھی کھڑکی تو کبھی چھت پر چڑھ کر بے قراری سے اس کی راہ دیکھنے والی ماں کے سامنے جب اس گائوں‘ قصبے یا شہر کی گلی محلے کے راستوں سے گزرتے ہوئے ایک فوجی جیپ اور ایمبولینس ایک عجب قسم کی سوگواری ساتھ لئے رکتی ہے ‘جب اس کے ارد گرد کی عورتیں تابوت میں لیٹے ہوئے اس کے جوان لاشے پر نظر پڑتے ہی آہ و بکا کرنے لگتی ہیں تو یہ ماں بھی چیخیں مارتے ہوئے خود سے بے خبر ہو جاتی ہے۔ پھر اسے یاد آنے لگتا ہے کہ اس نے تو اپنے لال کو تاکید کرتے ہوئے خود ہی کہا تھا‘دیکھو اس ماں کی لاج رکھنا‘ سینہ سپر رہنا‘ غازی یا شہید بن کر لوٹنا۔ ایک ماں میں ہوں جس نے تمہیں جنم دیا اور ایک ہم سب کی ماں ہے جس نے ہم سب کو جنم دیا ہے اور وہ ہماری یہ دھرتی ماں ہے جس نے ہمیں اپنے وجود کے اندر سے اناج ‘ پھل سبزیاں کھلا کر پروان چڑھایا جس نے ہمیں نت نئے میوے دیئے جس نے قسم قسم کا لباس دے رکھا ہے جس نے ہمیں پہچان دے رکھی ہے اور یہی وہ ماں ہے جس کے دامن میں رہنے والی کئی مائیں اپنے بیٹوں کو دشمن کی توپوں‘ ٹینکوں‘ جنگی جہازوں اور کلاشنکوفوں لائٹ مشین گنوں اور راکٹ لانچروں‘ بارودی سرنگوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج میں خوشی خوشی بھیج کر‘ انہیں آگ اور بارود کے کوہ گراں سے ٹکرا جانے کا حکم دیتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ کہیں کفر کے پائوں ان کی ماں کے پاک وجود پر نہ آ جائیں‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی ماں جسے اپنی پاک دامنی پر ناز ہے‘ جسے اپنے اوپر رہنے بسنے والوں پر پورا یقین ہے کہ وہ اس کے وجود کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے رتی بھر دریغ نہیں کریں گے۔ وہ ماں جانتی ہے کہ اس کی عزت اسی دھرتی سے قائم ہے ورنہ اس کا دشمن دلی‘ گجرات‘ یو پی‘ کیرالہ‘ ممبئی‘ دکن ‘ بنگلور‘ پونا‘ چندی گڑھ اور فلسطین میں لا الہ اﷲ کہنے والوں کی گردنیں اور زبانیں کاٹنا اپنا دھرم سمجھے ہوئے ہے۔ اسی لئے پاک دھرتی کی مائیں ایک ایک کر کے اپنے بیٹوں کو محاذ جنگ کی طرف روانہ کرتی ہے کہ ان دھرتی پر بسنے والی مائوں ‘ بہنوں اور بیٹیوں کے وجود کفر کی سیا ہی میں نہ مل جائیں۔
یہ انہی ماؤں کے حوصلے کا ثمر ہے کہ وطن عزیز کی جانب کوئی دشمن آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ ہماری اس دنیا میں ہر روز انقلاب آتے ہیں‘ ملکوں کا نظام تہ و بالا ہوتا ہے‘ شہری مہاجرت کی اذیت اٹھاتے ہیں‘ نظام زندگی کے معمولات کو کون پوچھتا ہے‘ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے چھپتے پھرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ یہ سب کیا ہے؟ اگر اسے سیاسیات ِ عالم کا المیہ نہ کہیں تو جرم ضعیفی کی سزا تو ضرور ماننا پڑے گا۔حقیقت میں یہ کمزور دفاع کا نتیجہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر قسم کی سازش ‘ خواہ وہ اندورونی ہو یا بیرونی اس پر یہ ممالک بھی قابو پا لیتے ‘ اور وہاں کے عوام کو ان مصائب سے نہ گزرنا پڑتا اور زندگی نارمل انداز میں چلتی۔ ان حالات میں جب ہم اپنے گھروں میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں‘ ہمارا یقین ہے کہ اس ملک کی حفاظت کے فرائض انجام دینے والے اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں‘ یہ اعتماد ہمیں حوصلہ دیتا ہے۔تو اس امن اور سلامتی کے محافظوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو دن رات کے کسی لمحے اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوتے۔ ان جانثاروں کی ماؤں کو یاد کریں جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو وطن کی حفاظت کے فریضے کے لیے سونپ دیا۔ وہ جو شہیدوں کی مائیں ہیں‘ جو غازیوں کی مائیں ہیں‘ جن کے پیارے ملک کی حفاظت کی غرض سے دشمن سے جا ٹکرائے ‘ ان میں سے کچھ اس نیک مقصد میں کام آ گئے ‘ کچھ غازی ہوئے۔ان شیر جوانوں کی ماؤں کو سلام جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کیلئے قربان کر دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved