تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     14-09-2020

کشمیر کاز کے لیے یکسوئی

پچھلے دنوں انڈیا نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے غائب کرانے کی کوشش کی اور بُری طرح ناکام ہوا۔ دلیل یہ تھی کہ یہ ایجنڈا آئٹم اب بہت پرانا ہو چکا ہے اور اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے۔ مجھے حیرانی ہے کہ انڈیا نے ایسی کوشش کی ہی کیوں، جبکہ یو این کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی بھی ایجنڈا آئٹم کو ختم کرنے کے لیے فریقین کی رضا مندی ضروری ہے‘ یعنی اس سلسلے میں پاکستان کا متفق ہونا ضروری تھا‘ جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دراصل انڈیا کو ڈر یہ ہے کہ اس ماہ شروع ہونے والے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں کشمیر کے حل طلب تنازع کی گونج پھر سنائی دے گی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی بات از سر نو ہو گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ نے وہ فعالیت کیوں نہیں دکھائی جو ایسٹ تیمور کی انڈونیشیا سے علیحدگی کے لیے دکھائی گئی تھی۔ ایسٹ تیمور ایک چھوٹی سی پرتگالی کالونی تھی، جہاں کی آبادی کی اکثریت رومن کیتھولک تھی۔ 1970ء کی دہائی میں ایسٹ تیمور نے آزادی کے بعد انڈونیشیا کے ساتھ الحاق کیا‘ لیکن دنیا کے مقتدر حلقوں کو یہ اقدام پسند نہ آیا۔ ایسٹ تیمور میں علیحدگی پسند تحریک کو شہ دی گئی اور امریکہ، آسٹریلیا اور پرتگال نے آزادی کی حمایت کی۔ اقوام متحدہ نے وہاں اپنی امن فوج بھیجی جس کی قیادت ایک آسٹریلین میجر کر رہے تھے۔ انڈونیشین فوج کو ایسٹ تیمور چھوڑنا پڑا اور نتیجہ آزادی کی شکل میں نکلا۔
اسی طرح جنوبی سوڈان‘ جہاں کی آبادی کی اکثریت کرسچین ہے‘ کو شمالی سوڈان سے علیحدگی میں مدد دی گئی۔ یہاں تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ سوڈان افریقہ کا سب سے بڑا ملک تھا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ سوڈان اور انڈونیشیا دونوں مسلم ممالک ہیں لیکن تقسیم کے وقت دونوں غیر مستحکم تھے اور اقتصادی طور پر کمزور۔ سوال یہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر میں حق خود ارادیت کے حق کو اقوام متحدہ کی وہ حمایت کیوں نہ حاصل ہو سکی جو ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کو مل گئی۔ اس سوال کا جواب بین الاقوامی امور کے ادنیٰ سے طالب علم کے لئے چنداں مشکل نہیں۔
اور اب آتے ہیں کشمیر کی حالیہ صورت حال کی جانب۔ انڈین سفارت کار بڑی تندہی سے پوری دنیا کو باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ اگست 2019 میں ہم نے مسئلہ کشمیر کا دائمی حل کر دیا‘ اب وہاں خوشحالی آئے گی‘ بیرونی سرمایہ کاری کی بارش ہو گی‘ صنعتیں اور ٹورازم کو فروغ ملے گا‘ کشمیری عوام انتہا پسندی کی طرف راغب نہیں ہوں گے‘ کیونکہ وہ انڈیا میں رہ کر خوشحال ہو جائیں گے۔ کیا انڈیا کی حکومت یہ بتانا پسند کرے گی کہ پچھلے ایک سال میں کشمیر میں کتنی سرمایہ کاری آئی ہے؟ جہاں آبادی کی اکثریت غم و غصہ کی حالت میں ہو وہاں سرمایہ کار پیسہ لگانے سے گریز کرتے ہیں۔
ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کی مثالوں سے ہمیں کئی سبق ملتے ہیں‘ اول تو یہ کہ کشمیر کی گتھی سلجھانے کے لیے سیاسی طور پر مستحکم اور اقتصادی طور پر مضبوط پاکستان بے حد ضروری ہے۔ کمزور فریق کی دنیا میں شنوائی نہیں ہوتی۔ دوسرے کسی بھی عالمی مسئلے کا حل نکالنے کے لیے مقتدر طاقتوں کی تائید ضروری ہے۔ چونکہ ان مقتدر طاقتوں کی حکومتوں میں انڈیا کا اثر و رسوخ بڑھا ہے لہٰذا ہمیں وہاں میڈیا اور سول سوسائٹی پر فوکس کرنا ہوگا۔
پچھلے دو سال میں عمومی طور پر اور 5 اگست 2019ء کے بعد خصوصاً عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر پھر سے اجاگر ہوا ہے اور انڈیا اس بات سے خاصا پریشان ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کسی بھی انٹرنیشنل فورم پر کشمیر کے مسئلے کا ذکر بھی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ مغربی میڈیا، اقوام متحدہ، سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا میں زندہ رہے اور اس کیلئے ایک مربوط حکمت عملی مرتب کی جائے۔ پچھلے ایک سال میں چین کی کشمیر پالیسی میں واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ پہلے بھی چین پاکستان کی حمایت کرتا تھا لیکن دبے الفاظ میں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انڈیا کے ساتھ چین کی دو طرفہ تجارت کا حجم بہت زیادہ تھا۔ چین نے اگست 2019ء کے انڈین اقدامات کی نہ صرف مذمت کی بلکہ سکیورٹی کونسل کے ممبران کی اس مسئلہ پر بریفنگ کے لیے خصوصی اجلاس بلانے کے لیے بھی نیویارک میں بھرپور کام کیا۔ چین کے اس تازہ عزم سے پاکستان کو تقویت ملی ہے۔
ہمارے ہاں کشمیر کمیٹی خاصی غیر فعال رہی ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی جگہ مولانا فضل الرحمن نے لے لی اور یہ بالکل غیر مناسب انتخاب تھا۔ کشمیر کے لیے زیادہ فوکس مغربی دنیا میں درکار تھا اور مولانا اس کام کے اہل نہ تھے۔ اب فخر امام کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں لیکن وہ بزرگی کی جانب رواں دواں ہیں اور اس وجہ سے وہ حاضر دماغی اور محنت پچھلے ایک سال میں ان کے کام میں نظر نہیں آئی جس کا کشمیر کاز متقاضی ہے۔ فخر امام ایک ذہین، تجربہ کار اور صاف ستھرے سیاستدان ضرور ہیں لیکن پاکستان کا کشمیر کاز شبانہ روز محنت کا متقاضی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر مسلسل اجاگر کرنے کیلئے کیا کیا جائے؟ میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کو کشمیر کیلئے ایک مشیر مقرر کرنا چاہیے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں یہی کام یوسف بچ مرحوم کیا کرتے تھے۔ وہ خود کشمیری نژاد تھے اور اس مسئلہ پر ان کی معلومات مسلمہ تھیں۔ موجودہ حکومت کو ایک ایسے ہی شخص کی پھر سے ضرورت ہے۔
پچھلے ایک سال میں مسئلہ کشمیر مغربی میڈیا میں اجاگر ہوا ہے۔ اب اس تسلسل کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ فارن آفس میں تین چار اچھے افسروں پر مشتمل ایک کشمیر سیل بنایا جائے جو کشمیر پر تازہ ترین صورت حال سے واقف ہو۔ پاکستان میں موجود متعدد تھنک ٹینکس کی ریسرچ کا جائزہ لے۔ کشمیر پر کتابیں اور آرٹیکل لکھوائے مگر یہ ضروری ہے کہ یہ آرٹیکل اور کتابیں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے ہوں۔ یہ آرٹیکل معروف مغربی اخباروں میں تواتر سے چھپنے چاہئیں۔
ہمیں مسئلہ کشمیر پر اپنے سفارت خانوں کو بھی مستعد رکھنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر کو مذہبی رنگ دینے کے بجائے اگر انسانی حقوق کی پامالی کے طور پر پیش کیا جائے تو مغربی دنیا میں یہ بیانیہ ضرور مقبول ہو گا۔ ہمیں اپنی سول سوسائٹی کو بھی فعال بنانا ہوگا تاکہ کشمیر پر ہمارا بیانیہ تسلسل سے اہم ممالک کی سول سوسائٹی تک پہنچتا رہے۔ بیرونی ممالک میں کشمیری خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں، انہیں متحرک رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان میں اب کئی پڑھے لکھے نوجوان بھی ہیں‘ جو قلم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور آبادی کے تناسب کو بدلنے کے منصوبے کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔ انہیں مغربی اخباروں میں اور ڈیجیٹل میڈیا میں رسائی حاصل کرنا ہوگی۔
آج کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے پبلسٹی کے کام کو آسان کر دیا ہے۔ آپ پاکستان میں بیٹھے بٹھائے انگریزی، فرانسیسی، عربی، چینی، ہسپانوی اور دیگر زبانوں میں مسئلہ کشمیر پر تقاریر اور انٹرویوز ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر اپ لوڈ کر سکتے ہیں؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ کام انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کا ہو۔
کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ سے بہتر ہوتی ہے۔ آج کے زمانے میں جب ہر شخص کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے۔ انڈین مظالم کو کتابی دستاویز کی شکل میں شائع کرنا مشکل نہیں رہا۔ ان تصویری کتابچوں میں ظلم کی تفاصیل درج ہوں یعنی شہید ہونے والے کشمیری کا نام اور تاریخ۔ اس کے ساتھ ہی انڈین فوج کے دستوں کے نام بھی لکھے جائیں جو نہتے کشمیریوں پر گولیاں چلاتے ہیں۔ مظلوم کشمیری پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کا آپشن دور کی بات ہے؛ البتہ اگر کشمیر میں قتل عام شروع ہو جائے تو پاکستان خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا۔ پہلا قدم تو کشمیر پر جامع اور مربوط حکمت عملی تیار کرنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved