پندرہ ستمبر کو دنیا بھر میں عالمی یومِ جمہوریت منایا جاتا ہے‘ آج ہم یہ دن پاکستان میں بھی منائیں گے؛ تاہم یہاں موجود جمہوریت کو ہم نیم جمہوریت ہی کہہ سکتے ہیں۔ 1947ء میں ملک آزاد ہوا لیکن ابھی تک فلاحی ریاست اور مکمل جمہوریت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ آمریت اور آمرانہ مزاج کے سیاست دانوں کی ذاتی چپقلش کے سبب جمہوریت یہاں پنپ نہیں سکی۔ میں سکول میں تھی جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو برطرف کرکے خود ملک کی باگ ڈور سنبھال لی تھی، ضیا دور تو دیکھا نہیں تھا لیکن سنا تھا کہ اس میں بہت گھٹن تھی، البتہ پرویز مشرف‘ جنرل ضیا کے برعکس لبرل نکلے۔ اُن کے دور میں کافی ترقی ہوئی، پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے، خواتین کو سیاست میں زیادہ نمائندگی دی گئی، نجی میڈیا کو کام کرنے کی اجازت ملی؛ تاہم انہوں نے ہمیں پرائی جنگ میں دھکیل دیا‘ ہمارا بچپن بم دھماکوں اور دہشت گردی کی نذر ہوگیا۔ ہمارے سکول‘ کالجز تک دھمکیوں کی زد میں تھے۔ ہر روز پاکستانیوں کی لاشیں گرتیں۔ ان کے دور میں سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ پھر جب ان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے قریب تھا تو سابق سیاسی قیادت کے ساتھ این آر او ہو گیا۔ اس وقت نئی نسل کولگا تھا کہ اب شاید عوام کے اصل نمائندے ملک کی خدمت کریں گے لیکن الیکشن سے قبل ہی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں‘ اس عظیم سانحے پر ملک بھر میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری نے نوجوان بیٹے کو چیئرمین اور خود کو شریک چیئرمین بناکر پارٹی کو متحد کیا۔ اس وقت مجھے پہلی بار سمجھ آیا کہ پاکستان میں جمہوریت بھی موروثیت پر قائم ہے؛ باپ کے بعد بیٹی‘ اس کے بعد بیٹا‘ اسی طرح پاکستان میں راج نیتی کی جاتی ہے۔
پی پی پی کے دور میں فوج نے وزیرستان میں آپریشن شروع کیا اور اور ملک کو دہشت گردوں سے صاف کیا جانے لگا۔ اس وقت تک انتہا پسندی معاشرے میں سرایت کر چکی تھی؛ کراچی تک کا برا حال تھا، ایک فون کال پر معاشی حب بند ہو جاتا تھا، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی۔ بلدیہ فیکٹری میں ڈھائی سو سے زائد مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور صوبائی وزیر شہباز بھٹی کو قتل کر دیا گیا۔ بجلی کا بحران اتنا سنگین تھا کہ 15سے 20گھنٹے لوڈشیڈنگ معمول بن چکی تھی۔ البتہ قانون سازی پر پی پی پی نے بہت محنت کی‘ صوبوں کو زیادہ بااختیار کیا؛ تاہم عوام ویسے ہی سسکتے رہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ کے درمیان کچھ عرصہ تو رومانس چلتا رہا لیکن پھر راہیں جدا ہو گئیں۔ نواز شریف کالا کوٹ پہن کر حکومت کے خلاف عدالت پہنچ گئے۔ وزیراعظم گیلانی برطرف ہو گئے اور اقتدار راجہ پرویز اشرف کے پاس آگیا؛ تاہم اصل گیم پلیئر آصف علی زرداری تھے۔ وہ بہت بہت سوچ سمجھ کر سیاست کرتے ہیں‘ اتنے سالوں کی قید نے ان کی شخصیت پر گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ ان کے مقابلے میں نواز شریف جذباتی ہیں‘ اپنے تمام ادوار میں اداروں سے خواہ مخواہ الجھتے رہے۔ ان کو اس بات کا زعم تھا کہ وہ بھاری اکثریت سے آئے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی عام لوگوں اور پارٹی کارکنان کا رابطہ ان سے بالکل کٹ جاتا، وہ بس مخصوص لوگوں کے نرغے میں رہتے۔ پھر ان کی بیٹی مریم نواز 2013ء سے سیاست میں متحرک ہوگئیں۔ خوبصورت‘ خوش لباس اور ذہین‘ ان میں وہ تمام خوبیاں تھیں جس سے عوام ان سے متاثر ہوتے۔ شومئی قسمت پاناما لیکس اور ڈان لیکس کے بعد ان پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں۔ یہ بات لیکن ماننا ہوگی کہ نواز شریف ہر بار جیل سے تنگ ہوئے لیکن مریم نواز ڈٹ گئیں۔ وہ اب بھی پاکستان میں ہیں‘ اب وہ جذباتی مریم نہیں بلکہ ایک سمجھدار سیاستدان کے طور پر اپنے کارڈز کھیل رہی ہیں۔
پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو لوگوں کو امید تھی کہ اب ہمارے مسائل حل ہوں گے‘ عمران خان موروثیت پر یقین نہیں رکھتے‘ وہ میرٹ کے حامی ہیں لیکن عمران خان نے اپنے دوستوں کو عہدے دینا شروع کر دیے جس پر بہت تنقید ہوئی۔ کئی میگا کرپشن کیسز میں عمران خان کے دوستوں کے نام آئے؛ تاہم اس بات کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کہ کم از کم انکوائری ہوئی اور رپورٹ عوام کے سامنے آئی وگرنہ پہلے تو یہ بھی نہیں ہوتا تھا۔
اس وقت پاکستان کی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں پر کرپشن کے چارجز ہیں، جس کسی کے کیس کھلتے ہیں‘ وہ بیمار ہو جاتا ہے اور احتساب کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے دیتا ہے۔ کوئی بھی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اس کے پاس اتنی دولت آئی کہاں سے؟ ہمارے سیاستدان امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے رہے۔ پارٹیوں میں سینئر اور تجربہ کار سیاست دان ہونے کے باوجود صدارت کا قرعہ صرف پارٹی لیڈر کے بچوں کے نام نکلتا ہے۔ بزرگ سیاست دان ان کے پیچھے کھڑے ہوکر ان کی بچکانہ تقاریر سن رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا مطلب چند خاندان ہیں اور جمہوریت کے لئے جہدوجہد کا مطلب عدالتوں میں اپنی اور پارٹی سربراہان کی دولت کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ پاکستانی جمہوریت میں بیٹا‘ بیٹی‘ بہو‘ داماد‘ نواسے‘ نواسیاں‘ پوتے‘ پوتیاں، ان کے بعد خالہ زاد‘ چچا زاد‘ تایا زاد‘ پھوپھی زاد‘ ماموں زاد وغیرہ ان کے بعد امیر کبیر سیاست دانوں کا نمبر آتا ہے۔ کارکنان صرف نعرے مارنے کے لئے ہوتے ہیں یا سڑکوں پر ڈنڈے کھانے کے لئے‘ عہدے ان کو نہیں دیے جاتے۔ اکثر کارکنان سوشل میڈیا پر لیڈران کے دفاع میں دوسروں کو گالیاں تک دیتے ہیں‘ اگر متعلقہ اداروں کی طرف سے انہیں پکڑ لیا جائے‘ تب بھی ان کی مدد کے لئے کوئی نہیں آتا، یوں یہ انقلاب خود ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ دوسری طرف سیاست دان خود بھی ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشیں کرکے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔
ایک کارکن اپنے لیڈر کی جھلک کے لئے ترس جاتا ہے‘ تین‘ چار کروڑ کی گاڑی میں بیٹھا لیڈر اقتدار میں آنے کے بعد کھڑکی سے باہر ہوائی چپل اور بوسیدہ شلوار قمیص میں ملبوس کارکن کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ لیڈر کے گارڈز غریب کارکن کو قیمتی گاڑی کو ہاتھ تک لگانے نہیں دیتے کہ کہیں میلے ہاتھ گاڑی کی چمک دمک خراب نہ کر دیں۔ غریب کارکن کو دھکے دے کر خود سے دور کر دیا جاتا ہے بلکہ کبھی تو ٹائر تلے کچل بھی دیا جاتا ہے۔ ہاں! جب لیڈر پر برا وقت آ جائے تو پھر انہی کارکنوں کو بلایا جاتا ہے، خود مگرمچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں کہ ہم اور جمہوریت تو لازم و ملزم ہیں۔ پاکستانی جمہوریت میں صرف امیر خاندان پھل پھول سکتے ہیں، ویسے بھی الیکشن صرف امرا کا کھیل بن کر رہ گیا ہے، غریب کہاں کروڑوں کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ جہاں تک مخصوص نشستوں کی بات ہے تو وہاں بھی اقربا پروری پر ہی زور ہوتا ہے۔
میں قطعاً آمریت کی حامی نہیں لیکن 2008ء کے بعد سے ہم نے جمہوریت بھی اچھی طرح دیکھ لی ہے۔ بارش ہو یا سیلاب‘ لوگ ڈوب جائیں، آگ لگ جائے، عمارتیں گر جائیں، قحط پڑ جائے، زلزلہ آ جائے، اشیائے ضروریہ و ادویات مہنگی ہو جائیں‘ سیاست دان ہر چیز پر سیاست شروع کر دیتے ہیں، شاید ان کو اس کے علاوہ کچھ اور آتا بھی نہیں۔ اب جب موٹروے پر ریپ جیسا سفاکانہ جرم ہوا تو اس پر بھی سیاست شروع کر دی گئی۔ مجھے یاد ہے جب ننھی زینب کا قتل ہوا تھا تب بھی اسی طرح سیاست ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ پریس کانفرنس میں زینب کے والد گم سم درمیان میں بیٹھے تھے اور اردگرد سیاست دان قہقہے لگا رہے تھے۔ گزشتہ روز بھی جب موٹر وے سانحے کا ایک مجرم پکڑا گیا تو پھر ہر طرف مبارک بادوں کا شور تھا۔ پاکستانی جمہوریت کو بالغ ہونے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ سیاست کے‘ سیاست برائے دولت سے سیاست برائے عوامی خدمت میں تبدیل ہونے میں خاصا وقت درکار ہے‘ جب ایسا ہوگا تبھی ہم حقیقی یومِ جمہوریت منا سکیں گے۔