ہم کچھ بھی سوچیں اور کہیں‘ یہ حقیقت اپنی جگہ رہے گی کہ بہت کچھ ہاتھ میں نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہمارے ہاتھ میں‘ ہمارے بس میں ہوتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بہت سے معاملات میں ہم مجبورِ محض ہوتے ہیں۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھا ؎
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا
ان کی بات درست ہے مگر ایک خاص حد تک۔ انسان پر مختاری کی تہمت ہے، یہ احساس اُس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب ہم اِسے شدت اختیار کرنے دیتے ہیں۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ مجبورِ محض ہے یعنی اُس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ کسی بھی انسان کو زندگی بھر آپشنز ملتے رہتے ہیں۔ آپشنز یعنی کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے یہ طے کرنے کا اختیار۔
کیا واقعی ہم اپنے وجود پر ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے؟ کیا حالات و واقعات ہمیں کچھ کرنے کا اختیار نہیں دیتے؟ کیا ہماری پوری زندگی تقدیر کے تابع ہے؟ تقدیر یعنی یہ کہ پہلے ہی سے طے کردیا گیا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ جس ہستی نے ہمیں خلق کیا ہے اور روئے ارض پر زندگی جیسی نعمت کے ساتھ بھیجا ہے وہ یقینی طور پر ہر معاملے میں ہمارا بھلا بھی چاہتی ہوگی۔ پھر ہم یہ کیوں سوچیں کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں اور جیسے بھی ممکن ہو، سانسوں کی گنتی پوری کرکے یہاں سے چل دینا ہے؟ اگر ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہ ہو ہمارا خالق اور رب ہم سے حساب کس بات کا لے گا؟ حساب تو لیا ہی اُس وقت جاتا ہے جب کسی کو اختیار دیا جاتا ہے۔ اگر انسان اپنے حالات پر ذرا بھی اختیار نہ رکھتا ہو تو پھر اُس سے حساب بھی نہیں لیا جائے گا۔ حق یہ ہے کہ ہمیں قدم قدم پر اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیار ہے فیصلہ کرنے کا۔ جو فیصلے ہم کرتے ہیں اُن پر عمل کی صورت میں دراصل اس امر کا تعین ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔
اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو کسی بھی درجے میں ہمارے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا، مثلاً کس گھرانے میں پیدا ہونا ہے یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر بینجمن میز کہتے ہیں ''مجھے جو وقت ملا ہے اور جن حالات میں میری پیدائش ہوئی ہے وہ میری مرضی کے نہیں۔ مجھ سے پوچھا نہیں گیا تھا، مرضی معلوم نہیں کی گئی تھی۔ یہ سب کچھ قدرت نے تقدیر کی شکل میں مجھے بخشا ہے۔ انکار کی گنجائش تھی‘ نہ ہے۔ جو کچھ بھی ملا ہے میں اُسے قبول کرنے سے انکار نہیں کرسکتا۔ صرف ایک آپشن ہے... یہ کہ میں اپنے وقت اور حالات کو بہترین طریقے سے بروئے کار لاکر زندگی کو زیادہ سے زیادہ کامیابی اور خوش حالی سے ہم کنار کرنے کی کوشش کروں۔ اگر میں وقت کو کھو بیٹھوں گا یعنی ضایع کروں گا تو نقصان اٹھاؤں گا اورضایع کیے ہوئے وقت کا حساب بھی دینا پڑے گا‘‘۔
اگر ہر انسان یہ سوچ لے کہ وہ جس ماحول میں پیدا کیا گیا ہے وہ اُس کی مرضی کا نہیں تو فکر و عمل کی راہیں مسدود ہو جائیں۔ ایسی میں چل چکی یہ دنیا۔ ہمیں قدم قدم پر ایسی مثالیں ملیں گی کہ لوگ ماحول کو گالیاں دینے اور کوسنے میں زندگی گزار دیتے ہیں مگر اصلاحِ نفس پر مائل نہیں ہوتے۔ ہم جس ماحول میں پیدا کیے گئے ہیں وہ ہماری مرضی کا نہیں تھا مگر ہم اُسے اپنی مرضی کا بنا تو سکتے ہیں یا پھر ماحول تبدیل کرسکتے ہیں یعنی کسی اور ماحول کو آپشن کے طور پر اپناسکتے ہیں۔ دانش کا تقاضا اور مظہر یہی ہے۔ جو کچھ ملا ہے اُسے دل و جان سے قبول کرکے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہنا۔ دنیا میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسان ایسے ہیں جو مرتے دم تک اپنے ماحول کو قبول نہیں کرتے اور اِس کا خمیازہ ناکام زندگی کی صورت میں بھگتتے ہیں۔
ہم کچھ بھی کرنے کے قابل کب ہو پاتے ہیں؟ صرف اُس وقت جب ہم میں شکر گزاری کا جذبہ پنپتا ہے۔ جو کچھ بھی قدرت نے ہمیں بخشا ہے اُسے دل کی گہرائی سے قبول کرنے کی صورت ہی میں کچھ کرنے کا ذہن بنتا ہے۔ جذبۂ تشکر زندگی کی بنیادوں میں کلیدی اہمیت کی حامل نعمت ہے۔ دل و دماغ کے سکون اور روح و ضمیر کی طمانیت کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنے خالق و رب کی مرضی کے مطابق جئیں اور جو کچھ بھی اس نے دیا ہے قدم قدم پر اُس کا شکر ادا کریں۔ جب ہم اپنے ماحول کو قبول کرتے ہیں تب کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جو کچھ بھی قدرت نے ہمیں بخشا ہے اُسے قبول کرنے کی صورت میں ہم اپنے وجود کو بروئے کار لانے اور اپنے لیے بہتر ماحول یقینی بنانے پر مائل ہوتے ہیں۔ ہر وقت روتے رہنا کسی بھی درجے میں کوئی ایسا آپشن نہیں جسے اپناکر ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کا معیار بلند کرسکیں۔ گِلے شِکوے کرتے رہنے سے زندگی کا معیار پست ہوتا ہے‘ بلند نہیں۔ تقدیر کا شِکوہ کرتے رہنے کا صرف ایک مطلب ہے ... کہ آپ نے اپنے ماحول کو قبول ہی نہیں کیا۔ جب آپ ماحول کو قبول نہیں کریں گے تو ماحول بھی آپ کو قبول نہیں کرے گا۔ یہ تو اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے والا معاملہ ہے۔ کوئی بھی چیز کتنی میٹھی ہوتی ہے؟ جس قدر اُس میں میٹھا کرنے والی چیز ملائیے۔ جتنا گُڑ ڈالیے اُتنا میٹھا۔ زندگی کا یہی تو معاملہ ہے۔ جتنی محنت اُتنا پھل۔ جتنا علم اُتنی دانش اور جتنی دانش اُتنی سنجیدگی اور طمانیت۔ نعمتوں کی جتنی ناقدری‘ اُتنی ہی اپنی بے توقیری۔ قدرت اُنہیں کبھی معاف نہیں کرتی جو کائنات میں بکھری ہوئی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ وجود کا نہیں، افادیت اور استفادے کا انکار۔ ہمیں مقدر سے ملنے والا ماحول‘ چاہے جیسا بھی ہو‘ اپنے لیے راستہ بنانا ہمارے اختیار میں ہے۔ دنیا بھر میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے ماحول کا رونا روتے رہنے پر فکر و عمل کو ترجیح دی اور کچھ کرکے‘ بن کر دکھایا۔
آج پاکستانی معاشرے کو جو وصف سب سے زیادہ درکار ہے وہ ہے قبولیت اور تشکر۔ جو کچھ ہمیں ملا ہے اُسے صدقِ دل سے قبول کیے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اگر ماحول میں بہت کچھ غلط بھی ہے تو اُس سے چھٹکارا پانے کے لیے پہلے مرحلے میں اُس کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا اور پھر اُسے قبول کرتے ہوئے گلو خلاصی کی کوشش کی جائے گی۔ اِسے ''تیکھی سوچ‘‘ (lateral thinking) کہتے ہیں۔ معروف دانشور ایڈورڈ ڈی بونو کے نزدیک اس سوچ کا نچوڑ یہ ہے کہ کسی بھی چیز سے جان چھڑانے کے لیے اُس کے ساتھ ساتھ چلیے اور مرحلہ وار اُسے زیر دام لاتے جائیے۔ کسی بھی بُرائی کو اچانک سامنے آکر مکمل طور پر دبوچنا کبھی ممکن نہیں ہوتا۔خلیج کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے امریکی جنرل کولن پاول کہتے ہیں ''ہم میں سے کوئی بھی اپنے ماضی کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ مگر ہاں! ہم سبھی اپنے مستقبل کو ضرور بدل سکتے ہیں۔‘‘
یہ آپشن کبھی نہیں مرتا۔ گزرے ہوئے وقت کو بدلنا کسی کے بس کی بات نہیں مگر آنے والا وقت مکمل طور پر ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ ہم غیر معمولی غور و فکر کے لیے ایسی منصوبہ سازی کرسکتے ہیں کہ مستقبل بہت حد تک محفوظ رہے۔ یہ آپشن ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ طے کرلینا درست نہیں کہ اب کوئی مثبت تبدیلی ہمارے بس کی بات نہیں۔ بہترین انداز سے جینے کا آپشن ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ ہم فکر و نظر کے مرحلے سے گزر کر عمل پسند رویے کے ساتھ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہماری زندگی کا رخ متعین کرتا ہے۔ حالات کا شِکوہ کرتے رہنے کا آپشن اپنانے کے بجائے ہمیں صرف غور و فکر اور سعی و عمل کا آپشن اپنانا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس کے سوا جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اُسے آپشن قرار ہی نہیں دیا جاسکتا۔ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ہم رو پیٹ کر اُسے ضایع کرتے رہتے ہیں۔