مجھے حیرانی ہوئی کہ میں نے اب تک وہ ٹی وی شو کیوں نہیں دیکھا تھا ۔
اپنے اپنے ٹی وی شوز کے بعد ارشد شریف‘ راجہ عدیل‘ علی عثمان اور میں نے کہیں کھانے کا پروگرام بنایا ۔ اکثر خاور گھمن‘ ضمیر حیدر اور شاہد بھائی ساتھ ہوتے ہیں‘ لیکن کل رات لیٹ ہوگئے‘ لہٰذا ہم صرف چار تھے۔ ایک دوسرے سے پوچھا: پروگرام میں کیا موضوع رکھا یا میں اور عامر متین نے کون سی توپ چلائی ؟ اس ایک دو گھنٹے کی ملاقات میں جہاں دنیا جہان کی باتیں ہوتی ہیں ‘وہیں ذاتی ‘پروفیشنل اور ملکی حالات بھی زیربحث آتے ہیں۔
لاہور میں ہونے والے ریپ کے وقوعے نے سب کو افسردہ کر دیا ہے۔ عدیل راجہ بتانے لگا: پروگرام میں مظفرگڑھ سے مختاراں مائی کو بھی شو میں لیا ہوا تھا ۔ راجہ عدیل بولا: مختاراں مائی نے کہا: پرویز مشرف نے اس کے ساتھ ہونے والے گینگ ریپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی خواتین جان بوجھ کر ریپ کراتی ہیں تاکہ ان کو کینیڈا کی نیشنلٹی مل سکے۔ وہ بولی: آج وہی جنرل مشرف دبئی میں مفرور ہے جبکہ وہ پاکستان میں اپنے گھر رہتی ہے۔
میں کانپ کر رہ گیا کہ بعض دفعہ ہمارے کہے گئے الفاظ کیسے پلٹ کر ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ ارشد شریف اور راجہ عدیل نے مجھ سے پوچھا: تم نے ایک ٹی وی شو ''دہلی کرائمز‘‘ دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ابھی تک نہیں دیکھا ۔ وہ دونوں بولے: اس شو کو ضرور دیکھو‘ تم بہت کچھ سیکھو گے۔ میں گھر پہنچا تو چھوٹا بیٹا جاگ رہا تھا ۔ اسے اداکار اور فلم میکر بننے کا شوق ہے۔ اس کا خیال ہے کہ میں اس کی آسکر ایوارڈ جیسی اداکاری کی راہ میں رکاوٹ ہوں ورنہ وہ اب تک سٹار بن چکا ہوتا ۔ میں نے کہا: پہلے اپنی تعلیم مکمل کرو پھر جو دل کرے کرتے رہنا ۔ خیر میں نے اسے کہا: یار تمہارے ارشد انکل اور عدیل بھائی نے اس شو کا کہا ہے‘ آئو اکٹھے دیکھتے ہیں ۔وہ حیران ہوا اور بولا: آپ نے ابھی تک نہیں دیکھا ‘ میں نے تو پچھلے سال ہی اس کی سات قسطیں دیکھ لی تھیں۔میں نے کہا: یار بندہ پوچھ ہی لیتا ہے۔ وہ بولا: آپ نے ایک دفعہ شروع کیا تو آپ اسے چھوڑ نہیں سکیں گے‘ بہتر ہوگا آپ ویک اینڈ پر دیکھیں۔ خیر ایک باپ بھلا کب بیٹے کی سنتا ہے‘ میں اسی وقت دیکھنے بیٹھ گیا اور وہی ہوا ‘جونہی سیریز شروع ہوئی‘ سکرین سے نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا ۔
یہ دراصل چند سال قبل دہلی میں ایک چلتی بس میں چھ لوگوں کے ایک لڑکی کو ریپ کرنے کے واقعہ پر بنائی گئی ایک منی سیریز ہے‘ جس کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اس نے سرکاری فائل سے یہ سکرپٹ لکھا ہے ‘لہٰذا یہ سچے واقعات پر مبنی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد رات گئے ایک بس میں ایک لڑکی اور اس کا دوست سوار ہوتے ہیں اور راستے میں وہ بس ڈرائیور اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں تشدد کے بعد بدترین ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ اب پولیس نے ایک ایسے جرم کا سراغ لگانا تھا جس کا ان کے پاس کوئی سراغ نہیں اور اتنے بڑے نیو دہلی میں کیسے چھ لوگ تلاش کرنے ہیں‘ یہ سب سیزن اسی پر بنا ہوا ہے۔
اس پورے شو میں ایک بات میرے دل کو لگی۔ چھ ملزمان میں سے ایک ملزم پکڑا جاتا ہے تو پولیس افسرخاتون اس سے تفتیش کے دوران پوچھتی ہے: تم نے اس لڑکی کا ریپ اور بدترین تشدد کیوں کیا؟ جیسا تم نے اس کا حشر کیا ہے اس سے بہتر تھا تم اسے قتل ہی کردیتے۔ اس پر وہ ملزم جواب دیتا ہے: اس لڑکی کا ریپ دراصل اس کے بوائے فرینڈ نے کروایا تھا ‘جو اس کے ساتھ تھا ۔ وہی اس کا ذمہ دارہے۔وہ خاتون افسر حیران ہو کر پوچھتی ہے وہ کیسے؟ وہ جواب دیتا ہے: دراصل وہ دونوں بس میں پیچھے بیٹھے ایک دوسرے سے گپیں لگا رہے تھے بلکہ وہ لڑکا اس لڑکی کو ٹچ بھی کررہا تھا ۔ ہمیں غصہ آیا کہ دیکھو ایسے ماڈرن بوائے‘ گرل فرینڈز دیش کو دنیا بھر میں بدنام کررہے ہیں۔ انہی کی وجہ سے فحاشی بڑھ رہی ہے۔ پھر ہم نے سوچا :یہ لڑکی تو لگتی ہی ایسی ہے تو پھر کیوں نہ کچھ اپنا حصہ وصول کر لیں۔ اس لیے ہم چھ لوگوں نے باری باری ریپ کیا ۔ بولا: مجھے تو اتنا غصہ تھا کہ میں نے نہ صرف اس کے پورے بدن پر کاٹا بلکہ اس پر ایسا تشدد کیا جس کے لکھنے کے لیے الفاظ نہیں ۔ یہ چھ کے چھ مجرم ہندوستان کی ریاست راجستھان کے ایک گائوں سے دہلی میں گزر بسر کے لیے مزدوری کرنے آئے تھے۔
یہ کہانی ہمارے معاشرے پر بھی پوری اترتی ہے۔ مجھے یہ سین دیکھتے ہوئے ملتان کے مرحوم دوست راشد رحمن یاد آگئے۔ وہ ملتان میں ہیومن رائٹس سیل کے انچارج تھے اور بعد میں مظلوم لوگوں کی وکالت کے جرم میں قتل کر دیے گئے تھے۔وہ سب مظلوموں کے کیسز مفت لڑتے تھے۔ ایک دن مجھے کہنے لگے: رئوف تمہیں پتہ ہے ایک لڑکی اگر حدود کے مقدمے میں کسی لڑکے کے ساتھ پکڑی جائے تو اسے پولیس سٹیشن سے لے کر عدالت اور جیل تک کیا کچھ بھگتنا پڑتا ہے؟ ایک سپاہی سے لے کر عدالتی اہلکار تک سب اس لڑکی سے نفرت اس لیے نہیں کرتے کہ اس نے غلط کام کیا تھا ۔ وہ سب اس لیے نفرت کررہے ہوتے ہیں کہ وہ کسی اور لڑکے کے ساتھ پکڑی گئی۔ یہی بات ایک بھارتی ملزم کہہ رہا تھا کہ اس لڑکی کو بس میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گپیں لگاتے اور ٹچ کرتے دیکھ کر انہیں یہی محسوس ہوا کہ اس میں ایسا کیا تھا جو ان چھ لوگوں میں نہیں اور وہ بھارت کو بدنام کررہی تھی۔
یہ وہ سوچ ہے جس نے پاکستان ہو یا بھارت‘ معاشرے کو تباہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ بحث آج کل چل رہی ہے کہ ریپ ہونے کی وجہ خود عورتیں ہیں ۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ بغیر محرم باہر نکلنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اب بتائیں بھارت میں چلتی بس میں جس لڑکی کا ریپ ہوا اس کے ساتھ تو اس کا دوست بھی تھا ۔ ایک طبقے میں یہی سوچ پیدا ہوچکی ہے کہ عورت اپنے ریپ کی خود ذمہ دار ہے۔ ایک اور طبقے میں یہ سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ جو چیز ان کے پاس نہیں وہ دوسرے کے پاس بھی نہیں ہونی چاہیے۔ طبقاتی نفرت اور احساس ِمحرومی کے پیچھے یہی گھنائونا احساس موجود ہے۔ کچھ لوگ جاتے جاتے کسی کی نئی گاڑی پر لکیریں گھسیٹ دیں گے‘ رات کو کسی کی کھڑی کار کا شیشہ توڑ دیں گے‘ ایسے احساسِ کمتری کے مارے لوگ یونیورسٹی میں جن کے ساتھ لڑکیاں گپیں نہیں ماریں گی‘ اُس بدمعاش گروپ کے ساتھ ہوں گے جو ان پر اپنا اخلاقی نظام نافذ کرنے کا ٹھیکہ لے لیں گے ۔
جرائم ہمیشہ انسانی محرومیوں سے جنم لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگ وائٹ کالر کرائمز کرتے ہیں وہ ریپ‘ ڈاکے اور راہزنی جیسے جرائم میں کم ہی ملوث پائے جائیں گے کیونکہ وہ زندگی کی سب عیاشیاں افورڈکرسکتے ہیں۔ جو طبقات افورڈنہیں کرسکتے وہ موقع ملنے پر سب کچھ چھین لینے پر یقین رکھتے ہیں اور وہ اس کا جواز بھی تلاش کرلیتے ہیں ۔ لہٰذا عابد ملہی جیسے بے رحم لوگ جو بہاولنگر کے کسی گائوں سے مزدوری کرنے لاہور آئے تھے‘ موٹر وے پر اچانک رات کو موقع ہاتھ آنے پر کسی عورت پر رحم کرنے پر یقین نہیں رکھتے‘ چاہے ان کا مظلوم شکار رات کی تاریکی میں تین چھوٹے بچوں کی چیختی چلاتی ترلے منتیں کرتی ‘روتی پیٹتی بے بس ماں ہی کیوں نہ ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے راجستھان کے گائوں سے دہلی مزدوری کیلئے آئے چھ افراد کو شہر کی سڑکوں پر چلتی بس میں رات گئے چیختی چلاتی لڑکی پر اس لیے رحم نہیں آیا کہ وہ بوائے فرینڈ کے ساتھ کیوں بیٹھی تھی‘ جس سے بھارت بدنام ہورہا تھا اور انہیں اس کا پچھتاوا بھی نہیں تھا ۔