تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     16-09-2020

ہم کچھ نہیں سیکھیں گے!

4 جنوری 2018 کے دن قصور کی چھ سالہ زینب غائب ہوئی اور پانچ دن بعد اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ پوسٹ مارٹم سے پتا چلا کہ اس بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ جیسے ہی قتل و زیادتی کی یہ اطلاع پھیلی، قصور کے شہری سڑکوں پر آگئے۔ ان کا غم وغصہ اس لیے تھاکہ زینب سے پہلے بھی ایک سال کے اندر اندر بچوں سے زیادتی و قتل کے دس واقعات ہو چکے تھے جس کا سراغ پولیس نہیں لگا سکی تھی۔ جب لوگ سڑکوں پر آ گئے تو پولیس نے روایتی انداز میں وہی کیا جو کرتی ہے یعنی لاٹھی سے بات شروع ہوئی اور گولی تک پہنچ گئی‘ پھر سرکاری انتظامیہ کو شہر چھوڑ کر بھاگنا پڑ گیا۔ تھانے سے لے کر ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک‘ سب کچھ بند ہوگیا اور شہر بھر میں گلی محلے کے لڑکوں نے اپنی حکومت قائم کرلی۔ پولیس کو دیکھتے ہی لوگ اتنے بے قابو ہوجاتے کہ انہیں روکنا مشکل ہوجاتا۔ پھر شہر کے بزرگ بیچ میں پڑے اور معاملہ اس حد تک حل ہواکہ پولیس والے چھپ چھپا کر تھانوں میں آگئے۔ ڈی پی او کو تبدیل کردیا گیا۔ وہ چلا گیا توشہر میں کچھ سکون ہوا اور زینب کے قاتل کی تلاش کا آغاز ہو گیا۔ یہ ان دو دنوں کی کہانی ہے جب میڈیا میں اس حوالے سے کوئی خبر نہیں آرہی تھی۔ گیارہ جنوری کے تمام اخبارات کی لیڈ سٹوری (شہ سرخی) قصور کے واقعات کے بارے میں تھی۔ ٹی وی سکرینیں قصور کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال بیان کررہی تھیں۔ میں اگلے دن قصور پہنچا تو جگہ جگہ لڑکوں کے لگائے ناکوں سے واسطہ پڑا۔ ایک موٹی کھال کے رپورٹر کے طور پر میں زینب کے رشتہ داروں سے ملا‘ مظاہرے میں جاں بحق ہونے والوں کے گھر گیا۔ مقامی سیاستدانوں سے رابطہ کیا۔ جب زینب کی قبر پر پہنچا تو مجھے لگا یہ میری ہی تو بیٹی تھی، اس کے ساتھ یہ ظلم کیوں؟ موٹی کھال والا رپورٹر کھو گیا اور ایک باپ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
زینب کی موت کی وجہ سے ایک شہر کچھ دن کے لیے ہی سہی عملاً حکومتی کنٹرول سے نکل گیا تھا۔ مجھے لگا‘ اب ہماری پولیس اور حکومتیں کچھ سیکھ لیں گی۔ انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ایک چھوٹا سا واقعہ ریاست کا نظم و ضبط داؤ پر لگا سکتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ میری امید ایک نقش بر آب سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ پاکستا ن میں حکومتیں، حکومتیں کرنے والے، بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان میں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کچھ آپ کو پسند ہوتے ہیں اور کچھ برے لگتے ہیں۔ کوئی ہماری زینب کو مارڈالے یا موٹروے پر جاتی ہماری کسی عورت کو اس کے بچوں کے سامنے روند ڈالے، انہیں کوئی پروا نہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کی عورتیں اور بچے ان ملکوں میں رہتے ہیں جہاں قانون اتنا کمزور نہیں۔ یہاں پر انہیں صرف اسی وقت پریشانی ہوتی ہے جب لوگوں کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچنے لگتے ہیں۔ پھر یہ کچھ حرکت میں آتے ہیں۔ چونکہ ان میں سے اکثر نکمے، نالائق اور بددیانت ہیں اس لیے جب حرکت میں بھی آتے ہیں تو کچھ سمجھ نہیں پاتے۔ 
سانحہ موٹروے کو ہی لے لیجیے۔ ایک خاتون رات کو ملک کی محفوظ ترین سڑکوں میں سے ایک پر اپنے بچوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے لاہور میں ہی جنسی درندگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ میڈیا چیخ اٹھتا ہے تو یہ چیخ اندھے بہرے نظام کو تھوڑا بہت ہلانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ نظام کا جو پہلا ذمہ دار ہے‘ یعنی لاہورکا پولیس چیف عمر شیخ وہ سامنے آتا ہے اور آتے ہی خاتون کے باہر نکلنے کے اسباب پر پست سطح کی گفتگو شروع کردیتا ہے۔اس کو اس عہدے پر لانے والے یعنی وزیر اعظم کے محترم و مکرم مشیر شہزاد اکبر اس کے دفاع میں سامنے آجاتے ہیں۔ اس کے بعد حکومت کا ہر فرد عمرشیخ کی وضاحت پیش کرنے لگتا ہے۔ آپ خود ہی سمجھ لیجیے کہ زینب کے واقعے سے کوئی بھی کچھ سیکھ چکا ہوتا تو انہیں لاہور جیسے شہر کا پولیس چیف لگایا جاتا؟ عمر شیخ بھی اگر کسی قابل ہوتے تو وہ رات کو متاثرہ خاتون کے نکلنے کے اسباب پر وہی بات کرتے جو انہوں نے کی؟ یہ صاحب 'اگردل آزاری ہوئی ہے‘ کی شرط لگا کر معافی مانگ کر یعنی جرم تسلیم کرکے بھی اپنے عہدے پر قائم ہیں۔ 
اب آجائیے پولیس کی تفتیش کی طرف۔ حالت یہ ہے کہ سانحہ موٹر وے کے حوالے سے جو لوگ اب تک پکڑے گئے ہیں وہ سب کے سب پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق ڈکیتیوں میں ملوث تھے لیکن پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے ہمیشہ بچ نکلتے رہے۔ فرانزک سائنس کی وجہ سے اس واقعے کے مرکزی ملزم کا سراغ مل بھی گیا تو اسے گرفتار نہیں کیا جا سکا اور وجہ یہ بیان کی گئی کہ ملزم عابد اپنی بیوی کے ہمراہ کھیتوں میں فرار ہوگیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ پولیس اسے پکڑ نا چاہتی نہیں تھی ۔ اصل معاملہ غالب یہ ہے کہ پولیس والے اس قابل ہی نہیں تھے کہ خود کو بچانے کے لیے سب کچھ کر گزرنے والے کسی شخص کو پکڑسکیں۔ تربیتی نظام، بھرتی کے طریق کار اور پھر یکے بعد دیگرے اعلیٰ افسروں میں تبدیلیوں نے اس ادارے کو مستحکم ہی نہیں ہونے دیا۔ تبدیلی والوں نے الیکشن سے پہلے پولیس اصلاحات کے نعرے تو حلق پھاڑ پھاڑ کر لگائے تھے لیکن حکومت میں آتے ہی اس کے ساتھ جو کچھ کیا وہ یہ ہے کہ اس پولیس نے کچی پکی تفتیش کا اعلان وزیراعلیٰ کو ساتھ بٹھا کر کیا جوصر ف چوبیس گھنٹوں میں غلط ثابت ہوا۔ پولیس نے اپنی بھد تو جو اڑائی سو اڑائی غریب وزیر اعلیٰ کے دفتر کا بھی مذاق بنا دیا۔ 
زینب کیس جنوری میں شروع ہوا اور اکتوبر میں مجرم عمران پھانسی چڑھ گیا۔ میڈیا نے اس کیس کا پیچھا ایک لمحے کیلئے بھی نہیں چھوڑا۔ شاید اسی لیے عدالت سے لے کر صدر مملکت تک کسی نے بھی مجرم پر رحم نہیں کیا۔ اس کے برعکس وہ سانحے جو میڈیا کی نظر میں نہیں آئے ان کی حالت یہ ہے کہ دوہزار تیرہ میں سانحہ موٹروے کا مرکزی کردار ڈکیتی اور عصمت دری میں بہاولنگر سے پکڑا جاتا ہے مگر بری کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت اس کا ڈی این اے ٹیسٹ ہوتا ہے جس کا نتیجہ اس کی بریت کے بعد سامنے آتا ہے مگر قانون یہ ٹیسٹ دیکھ کر بھی دوبارہ حرکت میں نہیں آتا۔ اس کے بعد یہی شخص قتل سمیت آٹھ مقدمات میں ملوث ہوتا ہے لیکن اسے بار بار ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے۔ کیوں؟ اس کیوں کے جواب میں کمزورتفتیش کا سہارا لیا جاسکتا ہے لیکن نظام عدل پر بھی تو بات ہونی چاہیے۔ جب کسی گھناؤنے جرم میں ملزم کو ضمانت دی جاتی ہے تو پولیس سے کم ازکم یہ تو پوچھا جانا چاہئے کہ اس کے خلاف دیگر مقدمات کس کیفیت کے ہیں۔ ہمارے قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر عدالت کے سامنے پیش کردہ شخص پر ایک سے زیادہ گھناؤنے الزامات ہیں تو اس کے عمومی چال چلن پر سوال اٹھایا جا سکے۔نہ جانے کیوں اتنا سادہ ساسوال بھی کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ 
ہم سمجھ سکتے تو یہ سمجھ لیتے کہ معاشرے گھناؤنے جرائم سے کمزور نہیں پڑتے بلکہ جرائم کا مقابلہ کرنے والے نظام کی ناکامی سے برباد ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں نظام اپنی خرابیوں کی طرف توجہ کرتا رہتا ہے، ہم جیسے ملکوں میں کوئی جرم ہوجائے تومجرم کو دردناک سزاکی بے معنی بحث شرو ع ہوجاتی ہے۔ نظام کی خامیوں کو دور کرنے پر کوئی نہیں سوچتا۔ ہم زینب کے واقعے سے بھی کچھ نہیں سیکھے، ہم اب بھی کچھ نہیں سیکھیں گے۔ شاید ہم کچھ سیکھ ہی نہیں سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved