کیا ریاست رات کو بارہ بجے کے بعد سو جاتی ہے؟ مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزایافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''کیا ریاست رات کو بارہ بجے کے بعد سو جاتی ہے؟‘‘ اور اگر واقعی ایسا ہے تو اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا جائے تا کہ حکومت کے ستائے ہوئے جو لوگ راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہوں وہ رات بارہ بجے کے بعد اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں، مثلاً جو ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں اور حکومت جن کے راستے کی دیوار بنی ہوئی ہے وہ آرام سے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکیں کیونکہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے جس سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہی تھیں۔
وقار الحسن نے گرفتاری نہیں دی، اسے مجبور کیا گیا: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وقار الحسن نے گرفتاری نہیں دی‘ اسے مجبور کیا گیا‘‘ جو کہ سراسر زیادتی ہے، کیونکہ اس آزاد مملکت میں کسی کو کسی بات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اگر وہ خود گرفتاری نہیں دینا چاہتا تھا تو ضرور اس میں کوئی مصلحت ہو گی اور اس طرح اسے گرفتاری پر مجبور کر کے اس کے جذبات کی توہین کی گئی ہے جس پر انتظامیہ کی طرف سے میں معذرت خواہ ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ کسی کو گرفتاری دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
اے پی سی میں شرکت کے لیے ن لیگ
میں دو تین رہنما تیار ہیں: پرویز ملک
نواز لیگ کے رہنما پرویز ملک نے کہا ہے کہ ''اے پی سی میں شرکت کے لیے ن لیگ میں دو تین رہنما تیار ہیں‘‘ جنہیں بڑی مشکل سے تیار کیا گیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا بھی نتیجہ کچھ نہیں نکلنا بلکہ مفت میں باقیوں کی چودھراہٹ میں مزید اضافہ ہو گا جبکہ مریم نواز کے حوالے سے میاں شہباز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جانے سے کوئی جھگڑا کھڑا نہ ہو جائے کیونکہ وہ جہاں بھی جائیں‘ کہا جاتا ہے کہ پتھروں سے بھرا ہوا ٹرک ان کے ہمراہ ہوتا ہے اور چونکہ گزشتہ حملے سے ان کی شہرت میں خواہ مخواہ اضافہ ہو گیا تھا، اس لیے بھی وہ اُن کی شرکت کے خلاف ہیں کیونکہ شہرت حاصل کرنے کا حق یا تو پارٹی قائد کو ہے یا پارٹی صدر کو‘ اور نواز شریف کے واپس نہ آنے سے ان کی سیاست ویسے ہی ختم ہو جائے گی‘ اس لیے پہلا حق ان کے ضامنوں کا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
حمزہ پیشکش کے باوجود ہسپتال منتقل نہیں ہو رہے: شوکت بسرا
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت بسرا نے کہا ہے کہ ''حمزہ شہباز پیشکش کے باوجود ہسپتال منتقل نہیں ہو رہے‘‘ اور ہسپتال سے ان کی نفرت ویسے بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اُن کے تایا جان بھی‘ جو لندن میں علاج کرانے گئے تھے‘ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود ہسپتال داخل نہیں ہوئے بلکہ حمزہ شہباز کی نیت تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہسپتال داخل نہ ہونے اور علاج نہ کروانے پر اگر خدانخواستہ بیماری شدت اختیار کر جائے تو اسے حکومت کے کھاتے میں ڈالا جا سکے کیونکہ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، شاید وہ یہ بھی سمجھتے ہوں کہ ساری عمر جیل میں سڑنے کے بجائے وہ کوئی ایسا کام کر جائیں جو تاریخ میں یادگار رہ جائے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
نواز دور میں پولیس تعیناتیاں سفارش پر نہیں ہوتی تھیں: شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف دور میں پولیس کی تعیناتیاں سفارش پر نہیں ہوتی تھیں‘‘ بلکہ ہمارے کچھ لوگ نہایت مناسب طریقے سے یہ تعیناتیاں کر دیتے تھے اور ہر افسر سے تعیناتی کے وقت نذرانہ مقرر کر لیا جاتا تھا تا کہ یہ رقم عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں خرچ کی جا سکے اور اس نیک مقصد کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے ہر افسر باقاعدہ مقررہ نذرانہ پہنچانے میں مستعدی کا اظہار کرتا تھا اور ہمارے دورِ اقتدار میں عوام خوش حالی کی جس منزل کی طرف تیزی سے گامزن تھے‘ وہ بھی اس کارِ خیر کے نتیجے میں تھی اور یہ ہر طرح سے پولیس کی نیک نامی کا باعث بھی تھی۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز کو واپس لانے کیلئے پوری کوشش کریں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف خود نہیں آئیں گے، انہیں واپس لانے کے لیے پوری کوشش کریں گے‘‘ اگرچہ باقی کوششوں میں سے ہماری کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی کیونکہ یہاں بدقسمتی سے کوششوں کو کامیاب ہونے کی عادت ہی نہیں ہے؛تاہم کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے، یعنی تیر نہیں تو تکا ہی سہی، اگرچہ ہر چھوڑا ہوا تیر بھی چلانے والے کی طرف واپس آ جاتا ہے جس سے بطورِ خاص بچنا پڑتا ہے کیونکہ جان بچانا فرض ہے اور دیگر فرائض سے بھی بڑھ کر یہ فرض ہم باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنی جان کی فکر رہتی ہے کہ کہیں کوئی اتحادی پھر نہ روٹھ جائے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینلل کے پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں حبیب احمد کی یہ غزل:
ہنستے یاروں کی دل آزاری نہیں ہو سکتی
دل! ابھی تیری عزاداری نہیں ہو سکتی
طیش میں بات کوئی ذہن میں بیٹھے گی کہاں
سخت موسم میں شجر کاری نہیں ہو سکتی
آنکھ باقی ہے مگر ذوقِ نظر خرچ ہوا
جیب خالی سے خریداری نہیں ہو سکتی
جتنا آسان اسے موت نے سمجھا ہوا ہے
زندگی اتنی بھی بے چاری نہیں ہو سکتی
یار! ایمان رکھو‘ مر تو نہیں جائو گے
عاشقی کچھ بھی ہو، بیماری نہیں ہو سکتی
قہقہے اتنے نہ کردار مرے میں ڈالیں
مجھ سے اس درجہ اداکاری نہیں ہو سکتی
کون روکے گا جواں فکر کی آزادہ روی
اب یہ دوشیزہ کبھی کاری نہیں ہو سکتی
بعض اوقات غلط کوش ہیں خود بھی نکلے
اندھا دُھند اپنی طرفداری نہیں ہو سکتی
اور بھی اہل ہیں اس شہر میں افراد کئی
جسم پر دل کی ہی سرداری نہیں ہو سکتی
صرف آنے کی ہے ترتیب یہاں پر احمدؔ
لوٹ جانے کی کوئی باری نہیں ہو سکتی
آج کا مطلع
کرتا ہوں توڑ پھوڑ‘ کراتا ہوں توڑ پھوڑ
پھر اس میں تھوڑی اور ملاتا ہوں توڑ پھوڑ