تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-09-2020

استعفیٰ دو

اپوزیشن کے بعض رہنمائوں نے گجر پورہ میں ہونے والے انسانیت سوز واقعہ پر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیراعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کیا جس پر اپوزیشن بنچوں کی جانب سے بے تحاشا ڈیسک بجائے گئے۔ یہ مطالبہ ان کی جانب سے کیا گیا جن کے دور میں قصور کے ایک گائوں حسین خان والا سے 100 سے زائد بچوں ‘ جن میں سے بعض کی عمریں پانچ سال سے بھی کم تھیں‘ سے زیادتی کی فلمیں بر آمد ہوئی تھیں، جس نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک کہرام مچا دیا اور مجھے خود بہت سے غیر ملکی میڈیا کے لوگوں سے‘ جو اس بین الاقوامی طور پر مشہور ہو جانے والے ''پیڈو فیلیا‘‘ سکینڈل کی کوریج کے لئے قصور آئے تھے، ملنے کا موقع ملا۔ میں قصور کی معصوم زینب کا حوالہ نہیں دوں گا اور نہ ہی اس کیس کی تفصیلات پر بات کرنا منا سب سمجھتا ہوں کیونکہ وہ دکھ ایک ایسی راکھ ہے جس کو جب بھی ہاتھ لگانے کی کوشش کی جائے گی اس سے اتنی دھکتی ہوئی چنگاریاں اٹھیں گی جو سب کے دامن جلا کر رکھ دیں گی اور راکھ میں دبی ان چنگاریوں کو دبا ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہو گا۔
استعفے کا مطالبہ کرنے والوں کو پتا تو ہو گا کہ اس جرم عظیم کے ملزمان رہا کیے جا چکے ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے گجرپورہ کا مرکزی ملزم‘ عابد علی بیس روز قبل ضمانت پر رہا ہو کر آیا۔ پھر رانا ثنا اللہ‘ جو سابق وزیر قانون ہیں اور میاں شہباز شریف جو مسلسل دس برس وزیراعلیٰ پنجاب رہ چکے تھے‘ کے دفاتر سے کچھ فاصلے پر ان کی وزارت قانون اور وزارت اعلیٰ کے زیر کمان ماڈل ٹائون میں منہاج القران مرکز کے سامنے 14 افراد کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا جن میں دو خواتین تنزیلہ اور شازیہ بھی شامل تھیں اور انہیں کہیں دور سے نہیں بلکہ پوائنٹ بلینک‘ یعنی منہ اور سر کا نشانہ لے کر قتل کیا گیا تھا اور ان میں سے ایک شہید خاتون تنزیلہ بی بی کے پیٹ میں اللہ کی طرف سے دنیا میں بھیجی جانے والی امانت بھی پرورش پا رہی تھی۔ کیا اس وقت وزیر قانون، وزیراعلیٰ یا وزیراعظم میں سے کسی نے استعفیٰ دیا تھا؟
کیا قوم یہ سننا پسند کرے گی کہ ماڈل ٹائون کے اس خونیں واقعہ کا تمام کچا چٹھا ''والیم 10‘‘ میں موجود و محفوظ ہے اور اگر آج بھی تمام پابندیاں اور مصلحتیں ختم کرتے ہوئے قوم کے سامنے اس والیم 10کو نہ لایا گیا تو یہ ملک و قوم سے بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ 
تحریک انصاف کی حکومت کو اب اپنی مصلحتیں ترک کرنا ہوں گی اور انہیں دیکھنا ہو گا کہ جس طرح گجرپورہ واقعہ کی24/7 عجب عجب کہانیاں سناتے ہوئے حکومت کے مخالفین کی ٹون پر جس طرح اور جس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے سانحہ موٹر وے کی کوریج کی گئی اس پر دنیا بھر میں بیٹھے ہوئے پاکستانی بھی بلبلا اٹھے ہیں۔ بوسٹن سے ایک پاکستانی خاتون نے مسیج میں کہا ہے کہ خدا کے لئے میڈیا کو کہیں کہ بند کر دیں یہ سب‘ پاکستان کو دنیا بھر میں مزید رسوا نہ کریں۔ بوسٹن میں بھارت اس کی بری طرح تشہیر کر رہا ہے تاکہ امریکی عوام کے سامنے ہمارے ملک کی غلط تصویر کشی کی جائے۔ اس خاتون نے لکھا ہے ''میری رہائش ہارورڈ یونیورسٹی اور ہارورڈ سکوائر کے بالکل قریب ہے جو بہت مہنگا لیکن انتہائی مہذب علاقہ گردانا جاتا ہے لیکن اس مشہور و معروف درسگاہ کے طلبہ و طالبات ر ات گئے آزادی اور بے خوفی سے باہر نہیں جا سکتے، یہاں ہر دوسرے دن جنسی ہراسانی کا واقعہ پیش آتا ہے اور اس یونیورسٹی میں داخل ہونے والے نئے طلبہ و طالبا ت کو تو انتظامیہ کی طرف سے بریف کیا جاتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں انتہائی محتاط رہا کریں۔لیکن یہاں اس معاملے کا کبھی چرچا نہیں کیا گیا‘‘۔
ممکن ہے کہ اس کالم کی اشاعت تک گجرپورہ سانحہ کے باقی ملزمان کی گرفتاری کی باقاعدہ اطلاعات بھی آ چکی ہوں اور ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر پی پی پی اور نواز لیگ کی سیا سی پوائنٹ سکورنگ بھی کسی حد تک کمزور پڑ چکی ہو لیکن ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ہمارے قانونی نظام کے سقم ان درندہ صفت مجرموں کو پھر نہ بچا لے جائیں۔ فیصلہ سازوں کو اب سوچنا نہیں‘ عمل کرنا ہو گا کہ قانون میں اس قدر سقم کیوں ہیں؟ ملک دشمنوں اور انسانیت دشمنوں کے لئے شک کا فائدہ کیوں؟ ملک کی قسمت سے کھیلنے والا یہ گلا سڑا اور بوسیدہ نظام کون تبدیل کرے گا؟ نہ تو اراکین قومی اسمبلی اور نہ ہی سینیٹ اراکین کو اس ملک و قوم کی قسمت بدلنے میں کوئی دلچسپی دکھائی دیتی ہے نہ ہی کوئی اور اس حوالے سے متفکر ہے۔ ڈھکا چھپا کچھ بھی نہیں‘ بینکوں میں ڈاکے، پٹرول پمپوں پر ڈاکے، دن دہاڑے بسیں اور گاڑیاں روک کر مسافروں سے ان کی ہر شے لوٹ لی جاتی ہے۔ ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں‘ ہائی وے پر گاڑیاں ، ٹرک روک کر راہزنی عام ہو چکی ہے اور اگر کوئی مزاحمت کی کوشش کرے تو اسے گولی مارنا معمولی واقعہ بن چکا ہے۔ جگہ جگہ انسانوں کو اس طرح قتل کیا جاتا ہے جیسے مکھیاں ماری جاتی ہیں اور یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ اکثر و بیشتر ایسے واقعات میں مجرموں کو پولیس، انتظامیہ اور مقامی سیاست دانوں کی پشت پناہی میسر ہوتی ہے بلکہ اب تو ایک اور طبقہ بھی اس حمام میں کود چکا ہے جس سے تعلق رکھنے والے کچھ گروہ تو اب باقاعدہ مقدمات کے ٹھیکے لینا شروع ہو گئے ہیں۔
اپنے ارد گرد معاشرے پر نگاہ ڈالیں‘ چوریاں، ڈاکے، راہزنی، تاجروں‘ دکانداروں کی لوٹ کھسوٹ، اشیائے خوردنی میں مہلک ملاوٹیں، ناپ تول میں کمی، دھوکا بازی ہے، یہاں تک کہ جان بچانے والی ادویات میں بھی جعل سازی اور دو نمبریاںہیں‘ جو مریضوں کو قبروں میں اتار رہی ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کرنے والوں کے اپنے دورِ حکومت میں لاہور کے کارڈیالوجی ہسپتال میں 212 سے زائد دل کے مریض جعلی ادویات سے موت کی نیند سلا دیے گئے‘ کسی نے استعفیٰ نہیں دیا، کسی نے پبلک میں آ کر معافی نہیں مانگی، کسی نے جعلی دوائیوں سے موت کے گھاٹ اتر جانے والے امراضِ قلب کے ان مریضوں کے خاندانوں کی کفالت کا ذمہ نہیں لیا (سوائے ایک نیک صفت انسان کے جنہوں نے اپنا نام کسی بھی صورت میں ظاہر نہ کرنے کی التجا کر رکھی ہے)
انٹرنیٹ پر فحش فلمیں آٹھ سے چودہ برس کے بچوں کو وقت سے پہلے جوان کرنے کے ساتھ ان میں جنسیت کا جنون بھر رہی ہیں۔ ان وحشیوں نے پورے معاشرے پر جنسیت ہی نہیں بلکہ وحشت بھی طاری کر رکھی ہے جو معصوم بچے‘ بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر رہی ہے۔ اس کے با وجود بد قسمتی دیکھئے کہ خون کے آنسو اب بھی کوئی نہیں رو رہا، سب اپنی اپنی سیاست اور پارٹیوں کے نام پر گجرپورہ واقعے پر اسی طرح ٹسوے بہا رہے ہیں جس طرح ہمارے ملک کے کچھ حصوں نے خاص مقاصد کے لئے بہائے، وگرنہ تھیٹر کے نام پر جگہ جگہ فحاشی کو بھی رسوا کرنے والے ''ڈانس‘‘ سب کی آنکھوں کے سامنے شرافت کو نوچتے رہے، پھر یہی فحش ڈرامے اور ڈانس کیبل کے ذریعے ہر گلی‘ ہر محلے‘ ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچ گئے۔ سب جاگتی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ اس کے بعد جگہ جگہ جنسی درندگی کے شکوے کیوں؟ سر پکڑ کررونا دھونا کیوں؟ آپ کے ہی تو دور میں ان ساری رسوائیوں کے بیج بوئے گئے تھے...
''YOU ASKED FOR IT'' ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved