دنیا میں کچھ بھی بے قیمت نہیں۔ ہر چیز، ہر جذبے اور ہر خیال کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ادا کرنا پڑتی ہے۔ قیمت کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے۔ زندگی حقیقی مسرّت سے اُسی وقت ہم کنار ہوتی ہے جب ہم طے کرلیتے ہیں کہ جو قیمت ادا کرنی ہے‘ وہ ادا کریں گے، ماحول ہمیں روکتا رہتا ہے۔ ہمیں زندگی بھر ایسے معاملات کا سامنا رہتا ہے جو ہمیں ڈراتے ہیں۔ کوئی بھی نیا کام کرتے وقت خوفزدہ ہونا کسی بھی درجے میں غیر فطری نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم اِسی مرحلے میں الجھ کر‘ پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ میری کے ایش کہتی ہیں ''آپ اس دنیا میں کچھ بھی کرسکتے ہیں، شرط صرف ایک ہے... یہ کہ آپ کچھ کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہوں اور قیمت چکانے کے لیے بھی تیار ہوں‘‘۔
لوگ کامیابی کو حلوہ سمجھ کر کھانا تو چاہتے ہیں مگر اُس کے لیے جو قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اُسے کڑوا جان کر تُھو تُھو کرتے رہتے ہیں۔ مفت تو کچھ بھی نہیں ملتا۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ اِس دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں یعنی یہ کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے‘ جو چکانا ہی پڑتی ہے۔ ہر قیمت بلا واسطہ طور پر زر کی شکل میں نہیں ہوتی۔ بات اِتنی سی ہے کہ کچھ دیے بغیر کچھ ملتا نہیں۔ اور یہ بھی ہمیں ہی طے کرنا ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز کو پانے کے لیے کس حد تک کچھ دینا ہے۔ جو کچھ ہم چھوڑ رہے ہوں‘ اُس کے بقدر حاصل ہونا چاہیے۔ یہ اصول پوری زندگی پر محیط ہے۔کامیابی یقینی بنانا ہر اُس انسان کے لیے ایک آسان مرحلہ ہے جس نے کچھ کرنے کی ٹھان لی ہو اور اِس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو۔ ہر کامیابی ہم سے صرف صلاحیت و سکت اور محنت ہی نہیں بلکہ اور بہت کچھ بھی مانگتی ہے۔ ہمیں چند ایک معاملات میں ایثار سے کام لینا پڑتا ہے، کوئی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر زندگی پوری شان کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر نہیں ہوتی۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور اُس کے لیے کس حد تک ایثار کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، کتنی قربانی دے سکتے ہیں۔ مگر اِس سے قبل آپ کو قیمت ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہونا پڑے گا۔ بے داغ کامیابی اُنہیں ملتی ہے جو اُس کا حق ادا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ونس لمبارڈی نے کہا ہے ''جب آپ اس قیمت کا تعین کرلیتے ہیں جو بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو چکانا ہے‘ تب کسی بھی زخم، کسی بھی خوف اور کسی بھی درجے کی ناکامی کو نظر انداز کرنے کی قوت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے‘‘۔کسی بھی شعبے میں دوسروں سے خاصی زیادہ اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے کی ایک ہی صورت ہے ... قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیے۔ جو لوگ کامیابی کی قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں اُنہیں قدرت آسانیوں سے نوازتی جاتی ہے۔ صلاحیت کس میں نہیں ہوتی اور سکت بھی سب میں ہوتی ہے۔ کامیابی کی خواہش بھی کم و بیش ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ محنت کرنے کی لگن بھی پیدا ہو ہی جاتی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ اِس کے باوجود بیشتر افراد کامیاب نہیں ہو پاتے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ قیمت ادا کرنے سے متعلق ذہنی یا نفسی تیاری نہیں کر پاتے۔ کامیابی بہت کچھ مانگتی ہے۔ صلاحیت و سکت بھی، محنت کرنے کی خواہش و لگن بھی اور سب سے بڑھ کر ایثار۔ ایثار یعنی یہ کہ آپ چند معاملات میں اجتناب کی راہ پر گامزن ہوں اور چند معاملات میں آگے بڑھ کر دوسروں کے لیے وہ کریں جس کی انہوں نے آپ سے توقع وابستہ نہ کی ہو۔ کامیابی کی قیمت ایک پورا پیکیج ہے جس میں کئی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ کسی ایک بات کو بنیاد بناکر اُسے کامیابی کی قیمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔
دور کیوں جائیے، اپنے ماحول میں موجود کسی بھی غیر معمولی کامیاب انسان کو دیکھ لیجیے، اُس کے شب و روز اور طرزِ زندگی کا جائزہ لیجیے۔ آن کی آن میں اندازہ ہو جائے گا کہ اُس نے دوسروں سے نمایاں ہونے کے لیے کیا بھگتان کیا ہے۔ ہر کامیاب انسان بہت مختلف ہوتا ہے۔ اُس کی زندگی میں ایسا بہت کچھ نہیں ہوتا جو عام آدمی کی زندگی میں بہت بڑے پیمانے پر اور قدم قدم پر پایا جاتا ہے۔ کامیاب انسان کسی بھی حال میں وقت ضایع کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ وہ وقت کو بہت سوچ سمجھ کر بروئے کار لاتے ہیں، غور و فکر کے ذریعے منصوبہ سازی کرتے ہیں اور پھر منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے پر متوجہ رہتے ہیں یعنی کامیاب انسانوں کی زندگی میں فکر و عمل کا توازن پایا جاتا ہے۔
کامیاب انسانوں کی زندگی میں رشتے اور تعلقات دانش و حکمت سے مزیّن ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی رشتے یا تعلق کو اپنے معاملات پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ اُنہیں ہر معاملے کو حد میں رکھنا آتا ہے۔ زندگی کا اصل فن یہی تو ہے۔ ہر کامیاب انسان کی زندگی میں تمام رشتے اور تعلقات ایک عقلی حد تک دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کبھی جذبات کی رَو میں نہیں بہتا۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ محض جذباتی ہوکر کیے جانے والے فیصلے حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں نہ دیرپا۔ ایسے لوگوں پر حالات آسانی سے اثر انداز نہیں ہوتے۔ وہ یہ نکتہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی صورتِ حال کا اثر منطقی حد تک ہی قبول کرنا چاہیے۔ اور یہ منطقی حد بھی خود ہی متعین کرنا ہوتی ہے۔ اگر ڈھیلے پڑے تو کام بگڑ جاتا ہے۔
کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کامیابی اب کوئی کھیل نہیں۔ ایک دور تھا کہ صلاحیت کا اظہار کرنے کے مواقع کم پائے جاتے تھے مگر کامیاب ہونا زیادہ مشکل نہ تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ صلاحیتوں کا اظہار مشکل نہیں کیونکہ بہت سے پلیٹ فارمز موجود ہیں مگر ہاں! کچھ کر کے دکھانا اور دوسروں سے منفرد رہتے ہوئے غیر معمولی کامیابی یقینی بنانا بہت مشکل ہے۔ کسی مقام تک پہنچنے میں ایک عمر کی ریاضت درکار ہے۔ اب صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والوں کی بھیڑ میں خود کو منوانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ گا بھی رہے ہیں، لکھ بھی رہے ہیں، اداکاری کے جوہر بھی دکھا رہے ہیں مگر اپنی شناخت قائم کرکے دوسروں سے منفرد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہوگیا ہے۔ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے کوئی بھی فنکاری کے جوہر دکھا سکتا ہے اور لوگ داد بھی دیتے ہیں مگر بھرپور اور نمایاں کامیابی یقینی بنانے کے لیے اپنے آپ کو کھپانا پڑتا ہے۔ اس الجھن سے کوئی بھی شعبہ مبرا یا مستثنیٰ نہیں۔
ساری کہانی اِتنی ہے کہ ہمیں زندگی بھر کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں کسی کے لیے کوئی استثنا نہیں۔ جسے کچھ بننا ہے، کچھ کر دکھانا ہے اُسے اپنے پورے وجود کو بروئے کار لانا ہی پڑے گا۔ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں دوسروں سے بہت آگے جانا لازم ہے۔ ایسا نہ ہو تو بات بنتی نہیں‘ دال گلتی نہیں۔اگر آپ نے طے کیا ہے کہ کسی شعبے میں غیر معمولی مقام پانا ہے تو یہ سوچ لیجیے کہ اِس راہ پر سفر آسان نہیں۔ پورے وجود کو بروئے کار لاکر ہی کچھ ایسا کیا جاسکتا ہے جس کی طرف دنیا متوجہ ہو۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ دنیا اُن کی موجودگی محسوس کیے بغیر نہیں رہتی۔ ہر دور نمایاں کامیابی کے لیے ایثار اور قربانی کا طالب رہا ہے۔ فی زمانہ سب سے بڑی قربانی ہے غیر متعلق امور سے بچنا، وقت ضایع کرنے والے ہر عمل سے دور رہنا۔ جو اس مرحلے سے کامیاب گزرا وہی کامیاب رہا۔
ہر شعبے میں طبع آزمائی کرنے والوں کی کمی نہیں۔ مشکل تر اور انسان کو نچوڑنے والا مرحلہ ہے اپنی شناخت قائم کرنا، خود کو منوانا۔ اس کے لیے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اور یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ کامیابی کی قیمت ادا کرنے کا ذہن بنالیا تو عمل کی راہ پر بڑھنے اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اچھے اچھوں کو دیکھا ہے کہ ذہن سازی کے مرحلے ہی میں ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔