تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     17-09-2020

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا؟

نائن الیون کی انیسویں برسی کے موقع پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں انٹرا افغان مذاکرات میں پہلی بار خود افغان گروپوں کو ایک میز پہ بٹھانے کی اہمیت فقط علامتی ہے کیونکہ یہی سانحہ افغانستان پر امریکی حملے کا محرک بنا تھا لیکن اس تازہ پیش رفت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغان بحران اب عالمی ایشو نہیں رہا بلکہ بتدریج اسے ایک نوع کے لوکل تنازع میں ڈھال دیا جائے گا جس کے حل کی خاطر عالمی طاقتیں مقامی دھڑوں کی سہولت کاری کرتی دکھائی دیں گی۔ ہفتے کے روز مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سمیت کئی ممالک کے سفارتکاروں اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے خطبات کا لب و لباب بھی یہی تھا کہ رواں امن مذاکرات افغانستان اور خود افغانوں کے مفاد میں ہیں حالانکہ اس سے قبل امریکی مقتدرہ افغان ایشو کو اپنی قومی سلامتی اور عالمی امن کے ساتھ جوڑتی رہی ہے۔ اگرچہ عالمی میڈیا اور مغرب کی اجتماعی فراست ثابت یہی کرے گی کہ چار دہائیوں پہ محیط یہ معاملہ افغانوں کا داخلی مسئلہ ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لیبیا کی طرح افغانستان بھی عالمی طاقتوں کی تزویراتی کشمکش کا میدانِ کارزار بنا رہا اور ہمیشہ کی طرح استعماری قوتوں نے اس بار بھی اپنی کارستانیوں کے سارے وبال کو تباہ حال افغانوں کے گلے کا طوق بنا دیا ہے۔
ہفتے کے روز سے شروع ہونے والے مذاکرات کیلئے جو ایشوز فریم ہوئے‘ ان میں مستقل جنگ بندی کی شرائط، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور طالبان کے وفادار جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنے سمیت دیگر سیاسی امور شامل ہیں۔ دوحہ مذاکرات کے فریق چند آئینی ترامیم اور شراکتِ اقتدار کے نئے فارمولے پہ بھی اتفاقِ رائے تک پہنچنا چاہیں گے لیکن حالیہ مذاکرات کو کچھ لوگ امریکی انتخابات سے قبل ایک بے مقصد مشق بھی سمجھتے ہیں کیونکہ امریکہ نے فروری کے جس تاریخی معاہدے پر دستخط کئے اسے امن معاہدہ کہنے سے گریز کیا؛ بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ واشنگٹن نے ایسا کیوں کیا تھا۔ طالبان کی طرف سے بین الاقوامی فوجی دستوں پر حملے تو رُک گئے مگر افغان سکیورٹی فورسزسے جھڑپیں جاری رہیں۔ معاہدے میں افغانستان سے غیر ملکی دستوں کے انخلا کی ابتدائی تاریخ اس بات سے مشروط تھی کہ طالبان‘ القاعدہ کو امریکہ اور اتحادیوں پر حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ اسی معاہدے میں پہلی بار طالبان اور افغان حکومت کے مابین براہ راست مذاکرات کا وعدہ لیا گیا تاکہ اس تنازعے کو افغان لیڈر شپ کے گلے میں ڈالا جا سکے۔
ان مذاکرات کو مارچ میں شروع ہونا تھا لیکن قیدیوں کی رہائی میں تاخیر رکاوٹ بنی رہی۔ امریکہ طالبان معاہدے میں طے یہ پایا تھا کہ طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو افغان حکومت مذاکرات سے قبل رہا کرے گی، بدلے میں سکیورٹی فورسز کے وہ ایک ہزار اہلکار چھوڑ دیے جائیں گے جو طالبان کی قید میں ہیں۔ اُس وقت افغان حکومت نے‘ جو امریکہ طالبان مذاکرات کا حصہ نہیں تھی، اس شرط پر اعتراض اٹھایا؛ تاہم افغان حکام کو امید تھی کہ طالبان قیدیوں کی رہائی پر کچھ رعایت مل جائے گی لیکن طالبان نے چھڑپوں اور کارروائیوں کا راستہ اپنائے رکھا۔ امریکہ طالبان معاہدے کا ضمیمہ‘ جسے تاحال عوام کے سامنے نہیں لایا گیا‘ محض جھڑپوں میں کمی لانا تھا، قابل اعتماد ذرائع کے مطابق بڑے شہروں کے سوا طالبان کو دیہی علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی، امریکہ کسی کیمپ یا گاؤں میں موجود طالبان جنگجوؤں پر براہ راست فضائی حملہ کرنے کے بجائے صرف ایسی جگہوں پر‘ جہاں جنگ جاری ہو‘ کچھ فاصلے پر علامتی فضائی حملے کرتا رہا۔ اس سے طالبان کو دور دراز علاقوں میں چیک پوائنٹس پر موجود افغان سکیورٹی فورسز پر حملے بڑھانے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔ امریکی ردعمل کو جانچنے کے لئے بسا اوقات جنگجوگروہوں نے بعض شہروں میں بڑے حملے بھی کئے اور افغان حکومت کے حامی بعض رہنماؤں کو ہدف بنا کر قاتلانہ حملے بھی کئے لیکن کسی گروہ نے ان کی ذمہ داری قبول نہ کی، اس طرح انہوں نے افغان حکومت پر دباؤ بڑھایا۔ آخرکار صدر اشرف غنی نے حراست میں لئے گئے 400طالبان قیدی رہا کردیے۔ قیدیوں کی رہائی میں جو تاخیر ہوئی اس کی ایک وجہ تو طالبان کی قید میں موجود افغان فوجیوں کی بازیابی تھی‘ دوسری طرف فرانس اور آسٹریلیا نے ایسے طالبان قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کی جو افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث تھے؛ تاہم امریکی تیزی سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے گئے چنانچہ تمام طالبان قیدی گزشتہ ہفتے رہا کر دیے گئے، صرف سات ایسے قیدی جو غیر ملکیوں پہ حملوں میں ملوث تھے‘ قطر گورنمنٹ کے حوالے کئے گئے؛ تاہم اب بین الافغان مذاکرات کا محور اصل امن معاہدہ ہو گا۔
حکام اور یقینا عام افغانوں کو امید ہے کہ جنگ بندی پر اتفاق ہو جائے گا لیکن اپنے مطالبات پورے ہونے تک طالبان جنگ جاری رکھنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ طالبان کو جھڑپوں اور عسکری کارروائیوں میں ہی فائدہ دکھائی دیتا ہے، وہ اپنے جنگجوؤں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت دینے کے بارے میں محتاط ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ خدشہ ہے کہ کہیں جنگجوؤں کو دوبارہ منظم کرنا مشکل نہ ہو جائے، دوسرا، یہ بھی کہ کہیں یہ حریف تنظیم داعش میں شامل نہ ہو جائیں۔ بہرحال حقیقی امن کا حصول ایک مشکل ہدف ہو گا، کس طرح ایک دوسرے سے متصادم اور مقابلہ کرنے والے تصورات کو ہم آہنگ کیا جائے گا؟ ایک طرف طالبان کی بے لچک سوچ تو دوسری طرف ایسا افغانستان جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران زیادہ جدید اور زیادہ جمہوری بنیادوں پر استوار ہوا۔
نوے کی دہائی کے وسط سے 2001ء میں امریکی حملے تک‘ طالبان نے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر حکومت کی، انہوں نے شرعی قوانین پر اپنی سخت گیر تشریح کے مطابق عمل کروایا۔ خواتین کے فیلڈ میں کام کرنے اور طالبات کے سکول جانے پر پابندی عائد رکھی لیکن اب طالبان کا اصرار ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں اور وہ اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ انہوں نے کبھی لڑکیوں کی تعلیم پر قدغن لگائی تھی؛ تاہم اکثر افغانوں کو یقین نہیں آتا کہ طالبان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ امن کی کوششوں پر نظر رکھنے والے سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ طالبان اپنے سیاسی تصورات کو بیان کرنے میں جان بوجھ کر ابہام رکھتے ہیں۔ گزشتہ برس ایک انٹرویو میں طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار سے خاص طور پر یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا وہ جمہوری عمل کو قبول کریں گے؟ انہوں نے کہا: وہ کچھ کہہ نہیں سکتے‘ افغانستان میں کئی طرح کے طرزِ حکومت کو آزمایا گیا، کچھ لوگ اماراتی نظام تو کچھ صدارتی نظامِ چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کرنے والوں کی اکثریت جو بھی چاہے گی طالبان اسے قبول کر لیں گے۔ 
امریکہ‘ طالبان معاہدے کے مطابق امریکی فورسزکی واپسی مئی 2021ء تک ممکن ہوسکے گی؛ تاہم امریکی فوج کا انخلا اس بات کا پابند نہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاملات طے پا جائیں۔ صدارتی انتخاب سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار عندیہ دیا تھا کہ وہ امریکی فوج کو جلد از جلد واپس لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے نومبر تک امریکی فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار تک محدود کرنے کا اعلان بھی کیا، یہ تعداد 2001ء میں امریکی مداخلت کے بعد سب سے کم تعداد ہو گی۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی اولین ترجیح طالبان سے انسدادِ دہشت گردی میں تعاون کی یقین دہانی حاصل کرنا تھی، خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کو کبھی ترجیح اوّل نہیں بنایا گیا۔ کچھ ماہرین کے مطابق اگر ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن صدر منتخب ہو گئے تو وہ امریکی انخلا کی رفتار کافی سست کرسکتے ہیں۔ یہ شبہ بھی ظاہر کیاگیاکہ افغان صدر اشرف غنی نے شاید جان بوجھ کر قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ آیا امریکی قیادت اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی کرتی ہے یا نہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے ساتھ ہی طالبان کے کئی حامی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب اس بات کا تعین کرنے پر قادر ہیں کہ یہاں کس طرز کا معاشرہ قائم کیا جائے گا۔ تاحال طالبان قیادت ایسی 'اسلامی حکومت‘ قائم کرنے کی بات کر رہی ہے جس میں 'سب کی شمولیت‘ ہو گی لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ کیسے ممکن ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved