تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     18-09-2020

خبردار! ایک قدم بھی آگے نہ بڑھانا

ٹینا امریکی ریاست کینٹکی کے شہر لوئی ول کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں نرس ہے۔ وہ شہر سے کئی کلومیٹر دور کنٹری سائیڈ کے ایک بڑے گھر میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ ٹینا کی عمر لگ بھگ تیس برس ہو گی۔ اس نے بتایا کہ دو تین ماہ قبل وہ ہسپتال سے نکل کر ہائی وے پر آئی تو اس نے محسوس کیا کہ ایک بڑی وین جسے امریکہ میں ٹرک کہتے ہیں، اس کے پیچھے لگ گئی ہے۔ ٹینا نے بیک مرر سے اندازہ کرلیا کہ اس میں ایک ہی شخص ہے جو اس کا پیچھا کررہا ہے۔ امریکہ میں ''ٹرک‘‘ امارت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ٹینا کہتی ہے: جونہی میں اپنے گائوں جانے والی برانچ روڈ پر مڑی تو وہ ٹرک میرے آگے آ کر رک گیا اور میرا راستہ بلاک کر دیا۔ وہ شخص اپنے ٹرک سے اتر کر میری گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ میں نے فوراً اپنے پرس سے اپنی گن نکالی اور تھوڑا سا شیشہ نیچے کرکے چیخ کر کہا: خبردار! ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو شوٹ کر دوں گی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے گن کی نالی کو شیشے سے باہر نکال دیا۔ وہ بدنیت شخص موقع کی نزاکت سمجھتے ہوئے فوراً اپنے ٹرک میں بیٹھا اور چلا گیا۔
اسی امریکی شہر لوئی ول کا ایک اور واقعہ بھی سن لیجئے۔ وہاں ہمارے ایک دوست کا سپا سنٹر ہے۔ فزیوتھراپی کا یہ سنٹر شہر کے وسط میں ہے۔ میں خود ایک بار اس جگہ کا وزٹ کر چکا ہوں۔ یہاں کی انچارج میری ہے۔ میری کا میاں پولیس افسر ہے۔ میری کا کہنا ہے کہ اُس نے نشانہ بازی کی تربیت لے رکھی ہے اور اُس کا نشانہ خطا نہیں جاتا۔ ایک روز شام کے بعد ایک سیاہ فام امریکی سپا سنٹر میں داخل ہوا اور اس نے کیشیئر اور کسٹمرز کو دھمکی دی کہ جو کچھ ہے نکال دو۔ میری نے دراز سے گن نکالی اور بجلی کی سی سرعت کے ساتھ سیاہ فام ڈاکو کے سامنے جاکر کھڑی ہوئی اور اپنی گن ہوا میں لہراتے ہوئے ڈاکو کو انتباہ کیا ''تمہارے پاس صرف ایک منٹ ہے ورنہ میں شوٹ کردوں گی‘‘۔ ڈاکو یہ صورتحال دیکھ کر کان لپیٹ کر سنٹر سے باہر نکل گیا۔
یوں تو امریکہ کی اکثر ریاستوں میں گن خریدنا اُتنا ہی آسان ہے جتنا چاکلیٹ خریدنا۔ آپ AR-15 ملٹری رائفل سپر سٹور سے صرف 7 منٹ میں خرید کر باہر آ سکتے ہیں؛ تاہم لوئی ول میں گن خریدنا آسان تر ہے۔ ہر سال یہاں گن شو ہوتا ہے جس میں امریکہ بھر کی گن ساز کمپنیاں اور بندوقوں کے بڑے بڑے تاجر اپنے اپنے سٹال لگاتے ہیں جہاں سے اپنی پسند کی بندوق اُسی طرح خرید کر گھر لا سکتے ہیں جیسے آپ جمعہ بازار سے ٹی سیٹ خرید لیتے ہیں۔ اس سال 31 اکتوبر تا یکم نومبر گن شو ہوگا۔ ایک سروے کے مطابق ریاست کینٹکی کی تقریباً 90 فیصد خواتین اپنے ساتھ اسلحہ رکھتی ہیں۔ اُن کی محبوب گن نائن ایم ایم ہے جو بآسانی پرس میں رکھی جا سکتی ہے۔ اس میں سات گولیاں لوڈ ہوتی ہیں جبکہ حسب ضرورت سات مزید لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ بندوق کی محبت ہر امریکی کی رگوں میں گردش کرتی ہے اس لیے اکثر امریکی خواتین و حضرات حتیٰ کہ ٹین ایجرز کے پاس بھی گن ہوتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق دنیا کے پچیس ممالک میں سے گن اونرشپ میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ وہاں 100 آدمیوں کے پاس اوسطاً 121 بندوقیں ہوتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر حالت جنگ میں مشغول یمن ہے۔ وہاں سو میں سے 58.8 کے پاس اسلحہ ہے۔ کینیڈا میں 34.7 فیصد اور فن لینڈ میں 32.4 فیصد کے پاس بندوقیں یا پستولیں ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ فن لینڈ جیسے پُرامن ملک کے شہریوں نے بھی اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ رکھا ہوتا ہے۔ آسٹریا میں 30 فیصد کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔ دنیا کے پچیس ممالک میں پاکستان کا نمبر 20واں ہے۔ یہاں 22.3 فیصد لوگوں کے پاس بندوق یا پستول ہوتا ہے۔ یقینا اس شرح میں زیادہ حصہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا ہو گا۔ ایک پاکستانی تحقیقی ادارے ''ساحل‘‘ کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اوسطاً دس بچے روزانہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ 235 واقعات ڈسٹرکٹ راولپنڈی میں پیش آئے جبکہ 63 فیصد واقعات پنجاب، 27 فیصد سندھ، چار فیصد خیبر پختونخوا اور دو فیصد بلوچستان میں پیش آئے۔ جہاں جہاں عام لوگوں کے پاس اسلحہ ہے وہاں وہاں یہ واقعات بہت کم ہیں۔دنیا کے تمام ممالک میں رائج جرم و سزا کے نظاموں کو دیکھیں تو ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ چین نے شدید ترین قوانین اور اُن کے فوری نفاذ کے ذریعے، سعودی عرب نے شرعی قوانین کے نفاذ کے ذریعے، یورپ کے اکثر ممالک نے تہذیب و تعلیم‘ اپنے عادلانہ سیاسی نظام اور قوانین کے بلاتفریق نفاذ کے ذریعے جنسی جرائم پر قابو پا رکھا ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہاں پولیس بھی مستعد ہے اور ہر شہری کے پاس اپنی حفاظت کا انتظام بھی ہوتا ہے۔
یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہمارے حکمران نہ دستور پر عمل درآمد کرتے ہیں اور نہ ہی قانون کا احترام کرتے ہیں۔ پولیس کی غفلت کی توجیہات کرتے ہیں کیونکہ پولیس سے وہ سیاسی کام لیتے ہیں۔ پرانی حکومتیں یہی کرتی چلی آ رہی تھیں مگر جناب عمران خان کے بلند بانگ دعووں سے لوگوں نے امیدیں باندھ لی تھیں کہ اب ان کا نیا پاکستان بنے گا‘ اب ہر محکمے میں اصلاحات آئیں گی اور سب سے پہلے پولیس میں ریفارمز ہوں گی۔ لاہور میں خان صاحب نئے سی سی پی او کو لائے ہیں جن کی پولیس اور عوام میں شہرت اچھی نہیں مگر خان صاحب نے ان کے لیے ایک آئی جی کو قربان کیا ہے اور دوسرے آئی جی کو یہ کہہ کر ملفوف میسج دیا ہے کہ نہ جانے یہ آئی جی صاحب بھی کب تک چلتے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے آئی جی سے کہا ہے کہ وہ نئے سی سی پی او کو کام کرنے کی آزادی دیں۔ جناب عمران خان کی پارلیمانی، تعلیمی اور عدالتی اصلاحات کا حساب کتاب رہنے دیجئے۔ ان کی پارٹی کے وزرا اور ترجمان فخریہ اپوزیشن کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دینے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اپوزیشن کی اکثریت کو پس پردہ جادوگری کے ذریعے اقلیت میں بدل دینا قابل فخر نہیں، قابل ندامت اور قابل مذمت ہے۔ مگر خان صاحب ایک ایک کرکے اپنے اصولوں، اپنے خوابوں اور اپنے منصوبوں کو اپنے سیاسی مفادات کی قربان گاہ پر قربان کرتے جا رہے ہیں۔
ایک طرف سارا معاشرہ خواتین اور بچوں سے زیادتی جیسے گھنائونے جرم کے مجرموں کو نشانِ عبرت بنانے کیلئے شرعی احکامات کے مطابق سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کررہا ہے تو دوسری طرف چند ماڈرن دانشور خواتین و حضرات نہ صرف سرعام پھانسی بلکہ پھانسی کی سزا کی ہی مخالفت کر رہے ہیں۔ جرم سے پہلے جرم کو روکنے کیلئے معاشرے کی اصلاح ازبسکہ ضروری ہے مگر ایسے بھیانک جرائم کے بعد ہمدردیاں مظلوموں کے ساتھ ہونی چاہئیں نہ کہ مجرموں کے ساتھ۔ پاکستان میں ایسے مکروہ جرائم کے کئی اسباب ہیں جن میں غربت، جہالت، بیروزگاری اور کثرتِ آبادی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری جیلوں کا کلچر جرائم کو مزید پروان چڑھاتا ہے۔ 
اگر امریکی نرس ٹینا کی طرح موٹروے کی خاتون ڈرائیور کے پرس میں گن ہوتی اور اُس نے اپنی حفاظت کی تربیت بھی لی ہوتی تو یقینا وہ نہایت کامیابی سے اپنا دفاع کر سکتی تھی۔ پولیس جس طرح پندرہ منٹوں کے بجائے اڑھائی گھنٹے میں جائے واردات پر پہنچی اس سے عوام کو بڑا واضح میسج ملا ہے کہ 'جاگدے رہنا‘ ساڈے تے نہ رہنا‘۔ جناب عمران خان اصلاحات نہ سہی مگر ایک مہربانی ضرور کریں کہ خواتین کیلئے اسلحہ لائسنس کا اجرا آسان بنا دیں‘ باقی کام ان شاء اللہ خواتین خود کر لیں گی اور مجرموں کیلئے اُن کا پیغام بڑاواضح ہو گا ''خبردار! ایک قدم بھی آگے نہ بڑھانا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved