تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     18-09-2020

دی گریٹ لانڈرنگ

ہم اس کو محض اتفاق بھی کہہ سکتے تھے لیکن واہگہ بارڈر کے دونوں جانب ایک ہی طرح کی بحث کا اُبھر کر آنا اور وہ بھی ایک ہی وقت میں‘ محض اتفاقیہ بات نہیں ہو سکتی بلکہ غالباً یہ اتفاق کی فائونڈری سیریز ہے۔ ایک دلچسپ اتفاق یہ بھی ہے کہ اس فائونڈری کا سَمر ہیڈ کوارٹر لندن میں واقع ہے۔ امپیریل اِزم کی مدر لینڈ یا پھر کیپیٹل آف Colonialism‘ لندن شریف میں۔ 
ہمارا آج کا اصل موضوع دی گریٹ لانڈرنگ ہے۔ اسی گریٹ لانڈرنگ کی ماری ہوئی معیشت اور بدنامِ زمانہ منی لانڈرنگ کے گلوبل نیٹ وَرک پر ہاتھ ڈالنے کے لئے بدھ کا دن پاکستان کے لئے تاریخی اہمیت کا مومنٹ آف ٹروتھ ثابت ہوا۔ سچ کے اس موڑ تک پہنچنے میں پاکستان کو دو سال لگ گئے حالانکہ یہ موڑ شہر اقتدار کے اندر ہی آتا تھا کسی پتلی گلی میں نہیں بلکہ شاہراہِ دستور پر۔ بدھ کے روز پارلیمنٹ کے دونون ایوانوں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نمبر آف ججز ایکٹ 2020ء جوائنٹ سیشن سے پاس کروا لیا گیا۔ اس ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے سے وفاق کی ایک بہت اہم عدالت میں مزید تین نئے فاضل ججز ایلیویٹ کئے جائیں گے جن کے ناموں کو فائنل کرنے کا آئینی اختیار اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ صاحب‘ سینئر ترین فاضل جسٹس جناب جسٹس عامر فاروق صاحب اور ان کے برادر ججز کے پاس ہے۔ میڈیکل پروفیشن میں میڈیکل اینڈ ڈینٹسٹری کے فیلڈ میں ایکسیلنس اور ٹریننگ کے ساتھ ساتھ احتساب پر مشتمل ٹریبوبل قائم کرنے کے دو بل بھی وزیر اعظم جناب عمران خان کے منشور کے مطابق تھے۔ وہ بھی پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن نے منظور کر لئے۔ باقی قانون سازی بلز FATF سے متعلقہ اور ڈرٹی منی لانڈرنگ جیسے وائٹ کالر کرائم پر کنٹرول کے لئے لائے گئے ہیں۔
اب اگر آپ پارلیمنٹ کے اس مشترکہ سیشن کی کارروائی کو ذرا غور سے دیکھیں تو آپ کو صاف طور پر پتہ چل جائے گا کہ کل شور شرابہ، ہنگامہ اور نعرے بازی سب ملا جلا کر اپوزیشن کے اعتراضات صرف دو ہی تھے۔ پہلا اعتراض ٹیکنیکل قسم کی بحث کے ذریعےFATF کے قوانین کو پھر سے منظور نہ ہونے دینا تھا‘ جس کا ایک حیران کُن ثبوت جمعرات کے دن کی پارلیمنٹری کارروائی سے کھل کر نظر آ گیا۔ اس روز صبح یعنی پہلے ٹائم سینیٹ آف پاکستان کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سینیٹ فنکشنل کمیٹی نے بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ یاد رہے کہ اس کمیٹی کے سربراہ کا تعلق حزبِ اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پی پی پی سے ہے۔ اس کمیٹی کے وہی ممبر حضرات جب کمیٹی روم کے اجلاس سے نکل کر ایوان میں پہنچے تو اُن کو اُصولی سیاست کرنے والوں نے ووٹ کی عزت کی ''وصولی‘‘ کا حکم دے دیا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کی حکومتی ٹیم کے سربراہ نے اس وصولی پر بات کرنے سے صاف انکار کر دیا جس کے نتیجے میں کمیٹی کے اپنے فیصلے کو اپوزیشن نے صرف 40 منٹ کے اندر اندر جمہوریت کا ''حُسن‘‘ بنا کر رکھ دیا۔
اس کی وجہ پوری قوم جانتی ہے۔ وہ ہے‘ فنانشل فراڈسٹرز کے لئے سب سے عظیم اور سب سے محفوظ چُھپنے کی جگہ‘ لندن‘ جس کو مفرور ارب پتی بہت اچھے لگتے ہیں۔ مفرور ارب پتی ہونا یہاں ایسی خوبی ہے جس کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان مفرور ارب پتیوں کا رنگ، علاقہ یا پھر ان کا جرم یا فریب کیا ہے۔ اگر آپ مفرور ارب پتی ہیں اور آپ کی جیبیں گہری ہیں اور آپ اپنے ملک کے قانون سے بچنا چاہتے ہیں تو یقین جانیے کہ خوش آمدید کہا جائے گا۔ جن کے پاس دکھانے کے لئے اربوں نوٹ ہیں، اُن کا فراخ دلی سے استقبال ہوتا ہے۔ جدید تاریخ بتاتی ہے کہ نہ صرف یہاں آپ کو پناہ ملے گی اور قیام گاہ بھی ملے گی بلکہ وہ اس بات کو یقینی بنا دیں گے کہ آپ کی بزنس ایمپائر کا سورج کبھی غروب نہ ہو۔ پچھلے کچھ عشروں سے اس گریٹ فنانشل کیپیٹل میں ہر طرح کے کَون مین نے پناہ لے رکھی ہے‘ جن میں افریقہ کے ظالم حکمران، عرب ملکوں کے امیر زادے، روسی اولی گارک۔ مشرق وسطیٰ کے کرمنلز سے لے کر مفرور ارب پتی پاکستانی سیاست دانوں اور انڈیا کے ٹیکس فیوجیٹیوز تک سب شامل ہیں۔
اپنے سائیکل مین اور آئرن مین ارب پتی مفرور خاندانوں کی کہانیاں دُہرانے کے بجائے، آپ سب وِجے مالیہ کو شاید جاننا چاہیں۔ وجے مالیہ کی ایک ایئر لائن بھارت میں چلا کرتی تھی۔ پھر وجے مالیہ نے فیصلہ کیا کہ اب اپنے ملک کو ہی سواری کے لئے استعمال کیا جائے؛ چنانچہ اس ہائی فلائنگ وجے مالیہ‘ جسے کِنگ آف گُڈ ٹائمز کہا جاتا ہے‘ کے اوپر 17 بینکوں سے لیا ہوا تقریباً 9000 کروڑ انڈین روپے کا قرضہ چڑھ گیا (9000 کروڑ روپے انڈین یعنی پاکستانی تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے) پھر اس نے بھارتی جہاز پر سواری کرکے لندن جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وِجے مالیہ اب بھی لندن میں کنگ آف گڈ ٹائمز کہلاتے ہیں‘ جن کی وطن واپسی کے لئے ہمارے مفروروں کی طرح بھارتی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ لندن کی ایک کورٹ نے کنگ آف گڈ ٹائمز کی بھارت واپسی پر سٹے لگا رکھا ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق عدالت کی آخری تاریخِ پیشی پر کنگ آف گڈ ٹائمز فینسی سگار کا دھواں اڑاتے پہنچے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور انڈین مفرور ارب پتی نیرَو مودی کو جب آخری بار دیکھا گیا تو اس نے اس روز 10,000 پائونڈ سٹرلنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ نیرو مودی کے حامی سیاست دان اس کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے وہ ہندوستان کے لئے کوہِ نور ہیرا واپس لینے کے لیے لندن میں جدوجہد کر رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارا کوئی پاکستانی مفرور ارب پتی، انڈیا کے اس نیرو مودی کا بھی باپ نکلے اور وہ کوہِ نور ہیرے کو تاج برطانیہ سے خرید کر اپنی دستی گھڑی میں لگوا لے۔
ہندوستان کی ایک نیوز ایجنسی کے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2013 سے اب تک 5 ہزار 500 بھارتی مفرور ارب پتیوں نے برطانیہ میں پناہ لے رکھی ہے۔ اب ہمارے ہاں مفرور ارب پتیوں کے لئے لابی کرنے والے کہتے ہیں: پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کی Extradition کا معاہدہ نہیں ہے۔ واہگہ بارڈر کے دوسری جانب بھارت سرکار نے سال 1992 سے برطانیہ سے ایسا معاہدہ کر رکھا ہے۔ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معاہدے کے تحت پچھلے 28 سالوں میں یعنی اب تک کتنے ارب پتی انڈین مفروروں کو بھارت کے حوالے کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صرف اور صرف ایک۔ اس مفرور کا نام سمیر بھائی وینو بھائی پٹیل ہے‘ جسے سال 2016 میں بھارت کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس ایک کے علاوہ کی باقی ساری درخواستیں لندن کے انصاف گھروں کے کولڈ سٹوریج میں پڑی ہیں۔
یہ بات یو کے میں بھی سچ ہے کہ پیسہ بولتا ہے۔ ڈائوچے بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2006 تا 2015 یو کے کو ایسے مفرور ارب پتی پناہ گزینوں سے 129 ارب ڈالر ملے ہیں۔ یہ 129 ارب ڈالر، غریب ملکوں کا لوٹا ہوا پیسہ ہے‘ جس کو برطانیہ کی آف شور جنت برٹش آئی لینڈز، کیمن آئی لینڈ، جرسی آئی لینڈ اور گورمسے آئی لینڈ میں پہنچایا گیا۔ عالمی ادارے کرپشن واچ کا کہنا ہے، یوکے کی ویلتھ مینجمنٹ انڈسٹری 800 ارب ڈالر مینج کرتی ہے۔ یہ گلوبل پیسہ ہے اور اس پیسے میں منی لانڈرنگ کا بہت بڑا حصہ ہے۔
برطانیہ کا فنانشل کرائم ادارہ FCA منی لانڈرنگ کنٹرول کا ریگولیٹر ہے۔ کرپشن واچ کی تازہ رپورٹ کے مطابق FCA نے 2007 سے اب تک زیرو پراسیکیوشن کی ہے۔
اسے کہتے ہیں دی گریٹ لانڈرنگ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved