دیارِ نبی پاکﷺ میں جس ہوٹل کے کمرے میں ہمارا قیام تھا‘ وہ تیسری منزل پر واقع تھا اور تھا بھی فلور کی ایک جانب، آخر میں راہداری سے الگ بالکل ایک کونے میں‘ ایسے لگتا تھا کہ یہ رہنے کے لیے نہیں بلکہ دفتری ضروریات کے لیے بنایا گیا تھا لیکن تھا تو شہر نبیﷺ میں جس شہر کی کسی چیز کے بارے میں غلط گمان تک رکھنا ہمارے نزدیک ممنوع ہے۔ ساتھ والے کمرے میں ہمارے ساتھ مدینہ پاک میں پہنچنے والی خواتین مقیم تھیں‘ دونوں کمروں کی ترتیب کچھ ایسے تھی کہ یہ کمرہ ہم تین لوگوں کے لیے کچھ ناکافی سا لگتا تھا۔ مجھے رضوان اور کرنل شاہد کو عقیدت اور محبت کے یہ دن اسی کمرے میں گزارنا تھے۔ میں اور رضوان تو لاہور ہی سے اکٹھے ہو گئے تھے اور سوئے اتفاق کہ جہاز میں بھی اکٹھے تھے‘ یعنی ان کی بیگم‘ درمیان میں رضوان اور تیسرا میں‘ ہماری نشستیں ساتھ ساتھ تھیں۔
مسقط ایئر پورٹ پر چونکہ دوپہر کو رکنا تھا کہ ہماری کنیکٹنگ فلائٹ میں ابھی چھ گھنٹے باقی تھے‘ سو ان چھ گھنٹوں میں رضوان سے دوستی بھی ہو گئی اور مزاج آشنائی بھی۔ ان میں کوئی سیمابیت بھری ہوئی تھی؛ البتہ ان کی بیگم بہت دھیمے مزاج کی خاتون تھیں۔ وہ ہمارے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں مقیم تھیں۔ ابھی رات کا دوسرا پہر شروع ہوا ہو گا کہ ہمارے معلم نے بتایا کہ آپ کے ایک اور ساتھی بھی آ گئے ہیں‘ یہ تیسرا بیڈ ان کے لیے مخصوص ہے۔ اتنے میں ایک خوبصورت اور سمارٹ نوجوان اپنے سامان کے ساتھ لندے پھندے آ گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیگم بھی تھیں۔ معلوم ہوا کہ نئے آنے والے مہمان کرنل شاہد عثمان ہیں اور اسلام آباد کی ڈائریکٹ پرواز سے مدینہ منورہ آئے ہیں۔
ایئر پورٹ سے جب ہم ہوٹل کی طرف آ رہے تھے تو ایک اشارے پر بس رکی، میں اپنے ٹور آپریٹر کے ساتھ بیٹھا تھا اور آخری دن تک کوشش کر کے ان کے ساتھ والی پر بیٹھتا رہا۔ جہاں بھی زیارات پر جانا ہوا‘ میں ان کی ساتھ والی نشست پر ہی براجمان رہا۔ اشارے پر بس رکنے سے قبل وہ مجھے بتا چکے تھے کہ ہم جنت البقیع کے پاس سے گزر رہے ہیں مگر وہاں اندھیرا سا تھا۔ باہر سے‘ وہاں پر موجود قبور نظر نہیں آ رہی تھیں، بس ایک میدان سا تھا جو خالی خالی لگ رہا تھا۔ وہاں اندر اگر روشنی کا انتظام ہوتا تو رات کے وقت بھی دور سے جنت البقیع کے مزارات کی زیارت کی جا سکتی تھی مگر روشنی کا مناسب انتظام نہ ہونے کے وجود اس اندھیرے کی زیارت بھی ایک خوش نصیبی تھی کہ اسی اندھیرے بھرے میدان حضور اکرمﷺ کے جگر کے ٹکڑے مدفون ہیں، یہ وہی جنت البقیع ہے جس کے بارے میں حضور نبی کریمﷺ نے اپنے وصال والے سال یعنی گیارہویں ہجری کو بحکم خدا استغفار کی دعا فرمائی تھی اور فرمایا تھا: اے اہل بقیع! تمہارا وقت بہت اچھا تھا کہ اس دنیا سے گزر گئے‘ فتنے ظاہر ہو رہے ہیں جو اندھیری رات سے بھی تاریک ہیں۔ میں اس فرمان پر بھی قربان اور اس اندھیرے پر بھی جو اس پورے احاطے کو محیط کیے ہوا تھا۔
مجھے معلم نے بتایا کہ اب بائیں جانب دیکھیں‘ میں نے بائیں جانب نظر اٹھائی تو دیکھا ایک سبز زمرد درختوں کا جھنڈ نظر آیا، یہ کوئی باغ تھا سر سبز‘ ہرا بھرا‘یہاں روشنی کا ایسا انتظام تو نہیں تھا مگر آس پاس روشنیوں کی چکا چوند میں وہ باغ کوئی اور ہی منظر پیش کر رہا تھا۔ معلم نے بتایا یہ ثقیفہ بنی ساعدہ ہے‘ وہی جگہ حضور نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد جہاں صلاح مشورہ ہوا تھا اور صحابہ کرامؓ کے باہم مشورے سے خلیفہ اول کا انتخاب ہوا تھا۔ وہ جگہ میرے بائیں جانب تھی۔ میں اس باغ کو دیکھنے میں محو تھا کہ بس چل پڑی اور آخرکار ہم ہوٹل کی تیسری منزل کے اسی کمرے میں پہنچ گئے جو راہداری سے الگ تھلگ تھا۔
ہمارے ہوٹل کے بغلی دروازے سے نکلتے ہی سامنے کبوتروں والا احاطہ تھا۔ یہاں ہر دم کبوتر اترتے ہیں‘ دانہ چگتے ہیں اور وہیں آس پاس کی ایک دو عمارتوں کے چھجوں‘ دیواروں اور چھتوں پر چند لمحے قیام کر کے پھر ایک دائرے میں اڑتے ہیں اور احاطے میں مستی سے اترتے ہیں۔ اس احاطے کے ساتھ ہی ایک اتوار بازار کی شکل کا بازار ہے جہاں حجاج کے مطلب کا ہر قسم کا سامان موجود ہوتا ہے، یعنی حرمین کی تصاویر‘ مختلف رنگوں میں چمکتی ہوئی تسبیحیں‘ مختلف قسم کے دھاگوں سے کڑھی ہوئی ٹوپیاں اور کئی رنگوں کے جائے نماز‘ بچوں کے کھلونے‘ انگوٹھیاں‘ عبایا‘ گلے کی مالائیں‘ چین‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام والے لاکٹ۔ وہاں عجیب بات ہے‘ عورتیں بھی ان دکانوں اور ٹھیلوں پر چیزیں بیچ رہی تھیں، بھائو تائو بھی خوب کرتی تھیں اور رقم میں کمی بیشی یا رعایت کی قطعاً روادار نہ تھیں۔ ہمہ وقت بھرا ہوا بازار‘ چہل پہل‘ حضورﷺ کے حرم کے گیٹ سات اور آٹھ سے نکلنے والے عشاق کا ہجوم ان دروازوں سے نکلتا تو بہت سارے اس ٹھیلوں بھرے بازار میں ضرور رکتے۔ یہ حضور نبی کریمﷺ کے عشاق کا سستا بازار تھا۔ ہر دکان نما ٹھیلے کے اوپر ایک چھتری لگی ہوئی تا کہ دھوپ سے بچائو کا مناسب انتظام ہو سکے۔ میں اس دروازے سے واپس ہوٹل جانے کے لیے نکلا تو اکیلا تھا۔ میں نے وہاں سے ایک چھتری اپنی ضرورت کے لیے اور تبرک کے لیے چند تسبیحیں خریدیں۔
آج شہر نبیﷺ میں ہمارا پہلا دن تھا مگر رات دوسری تھی، کل شام کی نماز کے بعد جب اسی گیٹ سے ہم باہر نکلے تو اس بازار میں اندھیرا سا تھا، جیسے دکاندار اپنی دکان بند کر کے چلے گئے تھے مگر ایک لڑکا اب بھی اپنے ٹھیلے پر چیزیں سجائے بیٹھا تھا، ادھر سے پاکستانی حجاج اور عشاق اس گیٹ سے نکلے‘ ادھر اس لڑکے نے اونچی آواز میں نعرے لگانا شروع کر دیے‘ پانچ پانچ ریال‘ پانچ پانچ ریال‘ عمران خان زندہ باد‘ پانچ پانچ ریال‘ عمران خان زندہ باد۔
ظہر کی نماز کے بعد ہم اسی سستے بازار سے ہو کر ہوٹل کی جانب نکلنے والے تھے کہ کسی سے پوچھتے ہیں کہ ثقیفہ بنی ساعدہ کس طرف ہے اور یہاں سے ٹیکسی والے کو کیا کہنا ہے کہ ہم نے کہاں جانا ہے؟ ایک دکاندار سے پوچھا کہ ثقیفہ بنی ساعدہ یہاں سے کتنا دور ہے اور کس طرف ہے؟ ہماری خوش قسمتی دیکھیے کہ ہماری نظریں اسی گیٹ پر لگی ہوئی تھیں جہاں سے عاشقوں کے ہجوم جا بھی رہے تھے اور آ بھی رہے تھے۔ نبی پاکﷺ کا حرم دو قدم کے فاصلے پر تھا اور اسی جانب آنکھیں لگی ہوئی تھیں۔ دکاندار نے مجھے کہا کہ پیچھے کی طرف دیکھیے، ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی وہ باغ‘ وہ سرسبز زمرد رنگا باغ جو ہم نے بس میں دیکھا تھا‘ بالکل سامنے تھا اور درختوں کا سبز جھنڈ آنکھوں میں ٹھنڈ اتارے جا رہا تھا۔ ہم نے خوشی میں اس دکاندار کے ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا اور اس سبز جھنڈ کی سمت چل پڑے۔
دو قدم کے فاصلے پر تو وہ باغ وہاں سے ہم نے دیکھا، یہ تو ہماری قیام گاہ کے بالکل قریب تھا۔ واپس کمرے میں پہنچے تو وہی کمرہ جو فلور کے ایک طرف اور راہداری سے الگ تھلگ تھا، وہی کمرہ اب نعمت لگ رہا تھا۔ ہم نے کھڑکی کا پردہ ہٹایا‘ بالکل نیچے ثقیفہ بنی ساعدہ تھا، درختوں کا جھنڈ‘ سبز زمرد رنگا احاطہ‘ یہ باغ اس ہوٹل کے اُسی کمرے سے نظر آ سکتا تھا۔ یہ شاداب منظر صرف اُسی کمرے اور اسی کمرے کی کھڑکی سے دیکھا جا سکتا تھا۔