''مرنے کے بعد یہیں لندن میں دفن کرنے کے بجائے میری راکھ کو پاکستان لے جا کر گہرے سمندروں میں بہا دیا جائے‘‘۔ یہ آخری وصیت وائس نیول چیف آف پاکستان نیوی Leslie Mungavain کی تھی‘ جو ستمبر 1965ء میں اس بحری جہاز کے سیکنڈ اِن کمانڈ تھے جس نے دفاع وطن کیلئے 8 ستمبر کو بھارت کے غرور‘ دوارکا کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ 1995ء میں وائس نیول چیف لیزلے کے انتقال پر ان کی آخری وصیت کا احترام کرتے ہوئے ان کی وفات کے بعد ان کے جسد خاکی کو نذرِ آتش کرنے کے بعد ان کی راکھ کو پاکستا ن لاکر پاک بحریہ کے شپ عالمگیر پر رکھا گیا جس کی وہ اپنی نیول سروس میں کمانڈ کر چکے تھے۔ بحری جنگی جہاز پر ایک سینئر پادری کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جہاں عیسائی رسم و رواج کے مطا بق ان کی آخری مذہبی رسومات ادا کرنے کے بعد پورے نیول اعزاز کے ساتھ اس راکھ کو پاکستانی سمندر کے گہرے پانیوں کے سپرد کردیا گیا۔
جنگ ستمبر کے حوالے سے گزشتہ دنوں ٹی وی چینلز پر جس نے بھی سنا وہ حیران رہ گیا کہ پاکستان ایئر فورس کے C130 جیسے کیرج جہازوں کو جنگ ستمبر میں بھارت کے خلاف بطور بمبار طیاروں کے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ دورانِ جنگ اور اس کے بعد دنیا بھر کے دفاعی ماہرین‘ بھارت جیسے طاقتور دشمن کی ایئر فورس اور بری فوج کا کچومر نکالنے کیلئے جدید اور انتہائی پھرتیلے قسم کے جنگی جہازوں کی کمی کی وجہ سے سی130 کے استعمال پر ششدر رہ گئے تھے۔ سی 130 کے ذریعے پاک ایئر فورس کے فائٹر پائلٹس نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر دشمن کی دفاعی نوعیت کی اہم تنصیبات کو تباہ کیا۔ مذہبی رواداری اور دفاعِ پاکستان کے لئے اس میں بسنے والی تمام قومیتوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کی عزت و احترام کی درخواست کر تے ہوئے آج کی نئی نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ سی 130 کو بطورِ بمبار جہاز استعمال کرنے کا یہ اچھوتا آئیڈیا کسی اور نے نہیں بلکہ پاک فضائیہ کے اس وقت کے ایئر مارشل ایرک گورڈن ہال نے پیش کیا جنہوں نے واہگہ اور بی آر بی سیکٹر میں بھارت کی پاکستان کی جانب بڑھتی ہوئی ٹڈی دل فوج کو نیست و نابود کرتے ہوئے کیرج جہاز سی 130 کے کا کمالات دکھائے۔ اپنے گرد و پیش دشمن کے زہریلے جھوٹ اور نفرت اور جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے پھیلائے جانے والے کسی بھی پروپیگنڈے پر دھیان دینے سے پہلے یہ بھی سن لیجئے کہ ان کیرج جہازوں کو دشمن کے خلاف بطور بمبار استعمال کرنے کا پہلا مظاہرہ بھی اس عیسائی فائٹر نے انجام دیا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی ایئر فورس کا بھرکس نکالنے میں پاک ایئر فورس کے دستے میں بھی یہ عیسائی پائلٹ شریک تھا۔ ایرک گورڈن ہال‘ جس کے نام سے آج کی نسل یقینا واقف نہیں ہو گی‘ نے سی130 کو بطور بمبار جہاز استعمال کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کرتے ہوئے بھارت کے اندر جا کر انتہائی اہمیت کے حامل کٹھوعہ پل کو تباہ کیا۔ ایرک گورڈن ہال کے اس مشن کی کامیابی کی اطلاع جیسے ہی ہائی کمان تک پہنچی تو پھر انہی کیرج طیاروں کے ذریعے انتہائی خطرناک نوعیت کے 13 مشن مزید روانہ کیے گئے۔اہلِ لاہور یاد رکھیں گے ان کے شہر کو بچانے کے لئے BRB کے دوسری طرف‘ اٹاری کے ارد گرد کی کچی پکی سڑکوں پر بھارتی فوجیوں کی اٹی ہوئی لاشیں اور میجر جنرل نرنجن پرشاد کی جیپ اور بھارتی توپوں اور ٹینکوں کا قبرستان ایرک گورڈن کی اسی سوچ اور پھر عملی مظاہرے کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ایرک گورڈن کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ہلالِ جرأت، ہلالِ امتیاز اور ستارہ جرأت جیسے اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔
پاکستان ایئر فورس میں ماسٹر فائٹر کے نام سے پکارے جانے والے 7th بمبار سکواڈرن کے نیوی گیٹر سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی اور سیسل چوہدری‘ جن کی دفاع پاکستان کے لئے ناقابل فراموش خدمات کے اعتراف میں ریگل چوک کو فاطمہ جناح روڈ سے ملانے والی مشہور سڑک کو سیسل چوہدری روڈ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے‘ سکواڈرن لیڈر ڈیسمنڈ نے جنگ ستمبر میں خود کو والنٹیئر کے طور پر پیش کرتے ہوئے بھارت کے اندرجاکر 14 اہم اور خطرناک بمبار مشن مکمل کیے۔ اسی طرح 1971ء کی جنگ میں پاک آرمی کے کیپٹن جسٹن اپنے ساتھیوں سمیت ایک اہم فوجی مشن کے لئے دشمن کے علا قے کے اندر اتارے گئے جہاں ایک خونریز معرکے کے بعد کیپٹن جسٹن سے ان کے باقی ساتھیوں کے تمام کمیونیکیشن رابطے ناکام ہو گئے‘ جس کے بعد انہیں مردہ قرار دے دیا گیا۔ ان کے والدین کو ان کی شہادت کی اطلاع دینے کے لئے GHQ سے تین آرمی آفیسر کیپٹن جسٹن کے گھر بھیجے گئے‘ جہاں میڈیا کے چند لوگ بھی موجود تھے۔ اسی دوران ایک رپورٹر نے کیپٹن جسٹن کی والدہ سے ان کے تاثرات پوچھے تو ماں جی کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد کہنے لگیں ''میں تصور میں دیکھ رہی تھی کہ میرے بیٹے نے پاکستان کی حفاظت کے لئے اپنی جان ایک باوقار سپاہی کے طور پر قربان کی ہو گی‘‘۔ دوسرے رپورٹر نے اپنے سامنے کھڑی اس جواں ہمت خاتون کا جواب سن کر سوال کیا کہ آپ کا ایک بیٹا کیپٹن جسٹن مشرقی پاکستان میں وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو چکا ہے جبکہ آپ کا دوسرا بیٹا میجر جوزف اس وقت بھی مصروفِ جنگ ہے‘ اس کے باوجود آپ ساتھ کھڑے اپنے تیسرے بیٹے کو فوج میں بھرتی کے لئے بھیج رہی ہیں؟ کیا آپ نہیں چاہیں گی کہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو جنگ کے میدان میں بھیجنے کے بجائے اپنے ساتھ رکھیں؟ پاکستان کی اس بہادر ماں نے مضبوط آواز میں جواب دیا ''اگر میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو میں ان سب کو وطن عزیز پاکستان کی حفاظت کے لئے قربان کرنے سے دریغ نہ کرتی‘‘۔ کیپٹن جسٹن اور میجر جوزف کی ماں، پاکستان کی بے مثال ماں آج اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان مائوں کی نسلیں آج بھی وطن عزیز کے مختلف حصوں میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ایسی مائوں کا‘ بہنوں کا‘ بیٹیوں اور بیٹوں کا تعلق کسی بھی مذہب اور قومیت سے ہو سکتا ہے لیکن ان کی رگوں میں دوڑنے والا خون دفاع وطن کیلئے ہے۔ ملکی سرحدوں پر بہایا جانے والا یہ خون اس وطن کی شادابی برقرار رکھنے کیلئے آج بھی ہمارے وطن کے چپے چپے کو سیراب کر رہا ہے۔
1947ء سے اب تک‘ افواجِ پاکستان کے کم و بیش 58 غیر مسلم سپاہی اور افسران دفاعِ وطن میں اپنی جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور ہر سپاہی کی شہادت کی الگ الگ داستان ہے کہ کس طرح اس نے دشمن کی صفوں میں گھس کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جامِ شہادت نوش کیا۔ 2006ء میں کیپٹن دانش پہلے ہندو تھے جنہیں پاکستانی فوج میں میجر کے رینک پر ترقی دی گئی، اسی طرح میجر ہرچرن سنگھ پہلے سکھ افسر ہیں جنہیں2007ء میں پاکستانی فوج میں کمیشن ملا۔ 2001ء سے اب تک 22 نان مسلم افسروں اور جوانوں نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا جنگ ستمبر میں لیفٹیننٹ کرنل سی آر دت نے ایک بٹالین کی کمانڈ کرتے ہوئے بھارت کے خلاف بہادری و شجاعت کی داستان رقم کی۔
وہ دشمن جسے جنگ ستمبر میں کیپٹن جسٹن، لیزلے، گورڈن، سیسل چوہدری جیسے بیٹوں نے کاری ضربیں لگاکر شکست فاش دی وہ پینترا بدل کر اپنے زر خرید لیڈران اور کچھ تنظیموں کے ذریعے پاکستان کی حفاظت کیلئے ایک ساتھ اٹھنے والے ہر قومیت اور مذہب کے ہاتھوں کو مذہبی جنونیت، تفرقہ بازی اور نفرت سے کمزور کر رہا ہے۔ ہمارا ازلی اور جانی دشمن اربوں روپے پھینک کر پاکستان کی حفاظت کے لئے اٹھنے والے ان ہاتھوں کے بنائے گئے مکے کو کاٹنے میں جتا ہوا ہے، ہمیں اس کی چالوں سے خبردار رہنا ہے۔