مصباح، کی عمر یہی کوئی گیارہ بارہ سال ہوگی۔ سانولی رنگت میں گھلتی پیلاہٹ پتہ دیتی ہے کہ مصباح کی غذائی ضروریات میں کوئی کمی ضرور رہ گئی ہے۔ آنکھیں، بڑی بڑی روشن مگر ان میں بھی شرارتیں کرنے کی عمر میں ایک سنجیدگی اور خوف کی سی کیفیت موجود ہے۔ دبلی پتلی مصباح، سر پر ایک بڑا سا دوپٹہ اوڑھے ہوئے، اپنی عمر سے کہیں بڑی نظر آتی ہے۔ اس کے ہاتھ چھوٹے چھوٹے سہی مگر انگلیوں کی گانٹھیں کام کرکرکے مضبوط ہوچکی ہیں اور پوروں کی لکیروں میں برتن مانجھ مانجھ کر ، میل سی جمی رہتی ہے۔ مصباح کا تعلق، ننکانہ صاحب کے قریب ایک گائوں سے ہے۔ وہ اپنے ساتھ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہے، باپ دیہاڑی دار مزدور ہے اور ماں صرف بچے پالتی ہے۔ ایسے میں مصباح اور اس کی بڑی بہن گھر کی غربت دورکرنے کے لیے اپنی بڑی پھوپھی کے ہمراہ لاہور شہر میں کام کی غرض آئی اور اب پچھلے تین برس سے یہیں موجود ہیں۔ مصباح ، ایک کوٹھی میں صبح سے شام تک کام کرتی ہے‘ بیگم صاحبہ کے تین بچے ہیں۔ دو بڑی بیٹیاں تو تقریباً مصباح ہی کی عمر کی ہیں، بیٹا، ڈھائی سال کا ہے۔ جسے مصباح سارا دن کھلاتی پھرتی ہے۔ اس گھر میں مصباح اپنی ہی عمر کی بچیوں کے آگے سہی کھڑی ان کے حکم ماننے کی منتظر رہتی ہے۔ سکول یونیفارم پہنے لنچ باکس لیے وہ صاحب کی بیٹیوں کو سکول جاتے دیکھتی ہے تو اس کا جی بھی چاہتا ہے کہ اس کا بھی ایک بستہ ہو، وہ بھی، سفید بے داغ، یونیفارم پہنے۔ پائوں میں چمکتے ہوئے کالے بوٹ ہوں۔ گاڑی کا ہارن بجے اور وہ جھٹ سے دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ جائے مگر ایسا صرف ایک خواب ہے۔ کیونکہ مصباح کی زندگی اپنی عمر کے بچوں سے قطعی مختلف ہے۔ وہ اس کم عمری میں اپنی عمر سے بڑے کام کرتی ہے۔ سارے گھر کی صفائی کرنا، کپڑے دھونا، برتن مانجھنا ، بچہ کھلانا، یہ سب کام اس کی ذمہ داری ہیں۔ مہینے کا آخیرآتا ہے تو پھوپھی بیگم صاحبہ سے آکر پیسے لے جاتی ہیں۔ مصباح کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ اگر اس کو خوش ہوکر کبھی صاحب اور بیگم دس بیس روپے دے دیں۔ وہ اپنے پیسے جمع کرکے اتوار بازار سے گڑیا خرید لیتی ہے، اور یہی اس کی واحد خوشی ہے۔ اپنے گھر کے واحد کمرے کی پرچھتی پر اس نے اپنی گڑیائیں سجائی ہوئی ہیں۔ جب بھی وہ گائوں جاتی ہے تو گڑیوں سے کھیلنے کی خوشی اسے سارے رستے سرشار رکھتی ہے۔ کیونکہ شہر میں جب وہ کام پر ہوتی ہے تو اسے گڑیا سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہوتی ہاں صاحب کی بیٹیوں کے پاس تو بہت ساری پیاری پیاری گڑیائیں ہیں مگر مصباح انہیں صرف دور سے دیکھ سکتی ہے۔ گیارہ بارہ سال کی یہ بچی، بچپن کی دہلیز سے دور۔ مزدوری کرتے ہوئے اپنی عمر کے بوجھل شب وروز گزار رہی ہے۔ مصباح اور مصباح جیسی سینکڑوں بچیاں، اپنے حقوق سے بے نیاز، کھیل، کھلونے کی عمر میں اپنی مائوں کے بڑے بڑے دوپٹے اوڑھ کر، خوشحالی گھرانوں میں برتن مانجھتی ، جھاڑو دیتی، عمرگزار دیتی ہیں۔ ان کی زندگیوں میں بچپن کبھی دستک دیتا ہی نہیں ۔ کیونکہ ان کے شب وروز بچپن کی بے فکری اور بے خبری جیسی مسرتوں سے دور ہوتے ہیں۔ انہیں بیگموں اور باجیوں کی جھڑکیاں سہنے کی عادت ہوتی ہے، اپنی ہی عمر کے امیر بچے، ان پر رعب ایسے جھاڑتے ہیں جیسے وہ ان کی زرخرید ملازمہ ہوں۔ صاحب لوگوں کے گھروں میں ہرطرح کا عدم تحفظ منہ کھولے انہیں گھورتا رہتا ہے۔ یہ چائلڈ لیبر کی بدترین قسم ہے ۔ کیونکہ ان کے لیے کوئی قانون سازی موجود نہیں، گھر کی چاردیواری کے اندر کوئی ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے، اس اس کو جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ ان کے کام کے اوقات کار بھی طے نہیں ہوتے۔ اور کم عمر بچیوں کو لوگ اس لیے گھروں میں کام پر رکھنا پسند کرتے ہیں کہ انہیں کم معاوضے پر رکھا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں چائلڈ لیبرپر موجود قانون سازی کے باوجود ایسی ہزاروں معصوم بچیاں اپنی عمر سے زیادہ بوجھ ڈھونے میں دن رات مصروف ہیں ۔ کبھی کبھار ایسی خبریں اخبار میں آکر حساس دلوں کو چند لمحوں کے لیے جھنجھوڑ دیتی ہیں کہ کہیں کوئی گھریلو ملازمہ بچی کسی بیگم یا صاحب کے تشدد کا نشانہ بنی۔ پھر ان فالواپ خبروں اور تبصروں میں بچہ مزدوری کی اس قسم پر بحث ومباحثے ہوتے ہیں۔ ان کم عمر ملازمائوں کے حقوق کی بات بھی ہوتی ہے لیکن چند دن کے بعد تبصروں اور خبروں کا یہ غبار خود بخود بیٹھ جاتا ہے۔ غفلت ۔ خاموشی۔ اور چپ ۔ اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ ایک اور بچی ایسی ہی کسی خبر کا موضوع نہ بن جائے ۔ چند برس پیشتر 9سالہ سلمیٰ بھی ایک ایسی ہی خبر کا موضوع بنی تھی۔ سروسز ہسپتال کے وارڈ میں میں خود اسے ملنے گئی تو دیکھ کر کانپ گئی۔ اس کے چھوٹے ہاتھوں کو استریاں لگاکر جلایا گیا تھا۔ سر کے بال جگہ جگہ سے نوچے گئے تھے کہ اس کے جسم پر زخموں کے ان گنت نشان تھے۔ بدقسمت سلمیٰ ڈیفنس کے رہائشی مجاہد نامی شخص کے گھر ملازمہ تھی۔ جسے مجاہد اور اس کی بیوی نے مل کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اخبارات میں خبر تو بن گئی مگر سلمیٰ کو انصاف کبھی نہیں ملا۔ کیونکہ ایک غریب، مسکین بچی کے مقابل دولت، رشوت اور سٹیٹس ہوتو ہمارا بدبودارنظام، دولت اور سٹیٹس کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے، چلیں اس پورے نظام کو ہم ٹھیک نہیں کرسکتے مگر خود کو تو کچھ بدل سکتے ہیں۔ 12جون کو چائلڈ لیبر کے خاتمے کا دن منایا گیا۔ مگر صرف دن منانے سے کیا ہوگا۔ آئیے ہم سب اپنے آپ سے عہد کریں کہ اگر ہم کہیں ہی کسی بچے اور بچی کو بدترین حالات میں مزدوری کرتے دیکھیں گے تو کم ازکم ایک دفعہ ضرور اس کے مالک یا مالکن کے سامنے آواز اٹھائیں گے۔ چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ، ایک Distant Dreamہی سہی مگر مزدوری کرنے والے بچوں کے لیے آواز تو ہم اٹھا سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک ہو مصباح اور سلمیٰ جیسی بچیاں ہمارے اردگرد، ہمارے دوستوں، عزیزوں، رشتہ داروں اور خود ہمارے گھروں میں کام کررہی ہیں، ہم ان کے لیے ایک ہمدرد اور حساس دل تورکھ سکتے ہیں اگر نہیں ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک ہوتو اس پر آواز اٹھانا ہمارافرض ہے۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا، قانون سازی کرنا حکومتوں کا کام ہے۔ وعدوں اور دن منانے سے آگے بڑھنا چاہیے ۔ کم ازکم کوئی ایسی ہیلپ لائن بھی قائم کردی جائے جس کی موجودگی میں ان بچے بچیوں سے کام لینے والوں کو اندازہ ہو کہ ان کے ظلم اور زیادتی کی صورت میں کوئی ایک ادارہ ایسا ہے جس جو ان کے خلاف بھی کارروائی کرسکتا ہے۔ غربت، عدم مساوات اور ناانصافی کی موجودگی تک چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ مگر ہمارے ہمدرد اور حساس دل ان کی مشکل ترزندگیوں کو کچھ آسان ضرورکرسکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved