تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     19-09-2020

بھارتی وزیر دفاع کی گھال میل تقریر

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک ایسے موضوع پر لوک سبھا میں تقریر کی جو 1962ء کے بعد سب سے سنگین مسئلہ تھا۔ وادی گلوان میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بارے لاکھوں افراد بے تابی سے جاننا چاہتے ہیں کہ چین کے ساتھ انکاؤنٹر کیوں ہوا؟ وزیر دفاع کو بتانا چاہئے تھا کہ اس انکاؤنٹر کی اصل وجہ کیا تھی۔وزیر دفاع نے ہر اس بات کا اعادہ کیا جو وزیر اعظم ‘ وزیر خارجہ اور وہ خود کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے بہت متاثر کن اور غیر جذباتی انداز میں تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں ممالک سرحدی تنازعہ کو پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں جنگ نہیں چاہتے۔ وزیر دفاع نے اپنی تقریر میں کوئی جارحانہ انداز نہیں اپنایا۔ انہوں نے انتہائی اعتدال پسند الفاظ میں کہا کہ دونوں فریقوں نے مان لیا ہے کہ بھارت اور چین کا 3500 کلومیٹر کالائن آف ایکچوئل کنٹرول کتنا غیر حقیقی ‘ غیر یقینی اور غیر واضح ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ سال میں کئی سو بار ‘ وہ اور ہمارے فوجی اور عام شہری انجانے میں اس لائن کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں۔ وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ فریقین نے سرحد پر جمود برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ جو بھی فیصلہ کیا جائے گا ‘ دونوں فریق اس پر عمل کریں گے۔ مجھے خوشی ہوتی اگر راج ناتھ جی اشارے میں یہ کہتے کہ دونوں ممالک اس لائن کو‘ جو جھگڑے کی لکیر ہے‘ کنٹرول لائن بنانے پر غور کررہے ہیں‘ تاکہ اس طرح کے تنازعات کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو جائے‘ لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ وزیر دفاع نے اپنے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کی لیکن میں اپنے قریبی دوست راج ناتھ جی سے پوچھناچاہتاہوں کہ کتنے فوجی ان کی تقریر کو سمجھ چکے ہوں گے۔ ادھ پڑھے ہوئے افسر کی تحریری تقریر پڑھنے کے بجائے ‘ اگر وہ اپنے رواں ‘ اور آسان انداز میں ہندی میں تقریر کرتے تو اس کا کئی گنا زیادہ اثر پڑتا۔ یوم ہندی کے دوسرے دن ان کی ''ہنگلش‘‘ تقریر نے ان کے مداحوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ہندوستان اور چین کوملاتے ملاتے انہوں نے ہندی اور انگریزی کا گھال میل کردیا۔
ہندی کا دن یا انگریزی ہٹانے کا دن؟
بھارت میں ہندی دن کو مناتے ہوئے حکومت ہند کو 70 سال ہوچکے ہیں ‘ لیکن کیا کوئی ہمیں بتا سکتا ہے کہ ہندی سرکاری امور میں یا عوامی زندگی میں ایک قدم بھی آگے بڑھی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے قائدین بیوروکریٹس کے خادم ہیں۔ بھارت کے بیوروکریٹس ہمارے مستقل حکمران ہیں۔ ان کی زبان انگریزی ہے۔ ملک کے قوانین انگریزی میں بنتے ہیں ‘ عدالتیں انگریزی میں اپنے فیصلے دیتی ہیں ‘ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق انگریزی میں ہوتی ہے ‘ انگریزی کے بغیر آپ کو اعلیٰ ملازمت نہیں مل سکتی۔ کیا ہمیں اپنے قائدین اور حکومت سے توقع کرنی چاہئے کہ وہ ہندی کے دن انگریزی کے عام استعمال پر پابندی لگائیں گے؟ یہ قابلِ تحسین ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان کے وسیلے کو پرائمری سطح پر نافذ کیا جائے گا‘ لیکن جب تک انگریزی کو اعلیٰ درجے سے دور نہیں کیا جاتا تب تک ہندی کی نوکرانی کی حیثیت برقرار رہے گی۔ ہندی کے دن کو بامقصد بنانے کیلئے انگریزی کے عوامی استعمال پر پابندی کی ضرورت کیوں ہے؟ اس لئے نہیں کہ ہم انگریزی سے نفرت کرتے ہیں۔ کوئی احمق ہوگا جو کسی بھی غیر ملکی زبان یا انگریزی سے نفرت کرے گا۔ کوئی خوشی سے کتنی بھی غیر ملکی زبانیں پڑھے‘ اچھاہے ! میں نے انگریزی کے علاوہ روسی ‘ جرمن اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی ‘ لیکن بین الاقوامی سیاست میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تو اس کا مقالہ ہندی میں لکھا۔ 55 سال قبل ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیاتھا۔ پارلیمنٹ میں تعطل پیدا ہوگیاتھا‘ کیونکہ ذہنی غلامی کا ماحول وسیع تھا۔ آج بھی وہی ہے۔ اس صورتحال کو کیسے بدلا جائے؟پورے ملک کو ہندی کے دن کو انگلش ہٹاؤ ڈے کے طور پر منانا چاہئے! انگریزی کو مٹا ؤنہیں ‘ صرف ہٹاؤ! ہر جگہ انگریزی کی لازمیت کو ختم کریں۔ تمام سکولوں ‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کی منظوری ختم کی جائے ‘ جو انگریزی میڈیم کے ذریعہ کسی بھی مضمون کو پڑھاتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں جو بھی انگریزی بولے اسے کم از کم چھ ماہ کیلئے معطل کردیاجانا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں۔ یہ بات مہاتما گاندھی نے کہی تھی۔ تمام قوانین ہندی اور عوامی زبان میں بنائے جائیں ‘ اور عدالتی مباحثے اور فیصلے بھی انہی زبانوں میں ہونے چاہئیں۔ انگریزی ٹی وی چینلز اور روزانہ اخبارات پر پابندی ہونی چاہئے۔ غیر ملکیوں کیلئے غیر ملکی زبان میں صرف ایک چینل اور ایک ہی اخبار ہوسکتا ہے۔ کسی بھی کام کیلئے انگریزی لازمی نہیں ہونی چاہئے۔ ہر یونیورسٹی کے پاس دنیا کی بڑی غیر ملکی زبانیں سکھانے کے انتظامات ہونے چاہئیں تاکہ ہمارے لوگ سفارتکاری ‘ غیر ملکی تجارت اور تحقیق میں ماہر ہوں۔ ملک کے ہر شہری کو عہد کرنا چاہئے کہ وہ ہندی یا مادری زبان میں اپنے دستخط کریں گے اور ایک اور ہندوستانی زبان سیکھیں گے۔ ہمیں اپنا روز مرہ کا کام ہندی یا مادری زبانوں میں کرنا چاہئے۔ جب تک ہندوستان میں انگریزی کا غلبہ برقرار رہے گا ‘تب تک انگریزی ملکہ ‘ اور ہندی نوکرانی ہی رہے گی۔
افغانستان میں امید کی کرن
اس سال مارچ میں اور مئی میں مَیں نے لکھا تھا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اورافغان حکومت کے مابین جاری مذاکرات میں‘ بھارت کابھی کچھ کردار ہونا ضروری ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اب جب دوحہ میں اس گفتگو کے آخری دور کا آغاز تو اس موقع پر ہندوستان کے وزیر خارجہ نے بھی ویڈیو کانفرنسنگ میں حصہ لیا۔ اس گفتگو کے دوران ہماری وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری جے پی سنگھ دوحہ میں موجود رہیں گے۔ جے پی سنگھ نے پاکستان اور افغانستان‘ دونوں ممالک میں بھارتی سفارت خانے میں خدمات انجام دی ہیں۔ جب وہ ایک جونیئر سفارتکار تھے ‘ تو انہوں نے دونوں ممالک کے بہت سے رہنماو ٔں سے ملاقات کی تھی۔ اس گفتگو کے آغاز میں ‘ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی بڑی دانشمندانہ تقریر کی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی جو کچھ کہا‘ اس سے لگتا ہے کہ اس بار طالبان اور کابل حکومت یقینی طور پر کچھ ٹھوس معاہدہ کرلیں گے۔ اس معاہدے کا کریڈٹ زلمے خلیل زاد کو ملے گا۔ زلمے نورزئی پٹھان ہیں‘ جو ہرات میں پیدا ہوئے تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں ان سے 30-32 سال قبل میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ کابل میں امریکی سفیر تھے۔ بھارت کے دورے پربھی آئے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک امریکی شہری کی حیثیت سے ‘ وہ امریکی مفادات کا تحفظ کریں گے لیکن یہ فراموش نہیں کریں گے کہ وہ پٹھان ہیں اور ان کی مادر ملت افغانستان ہے۔ دوحہ میں افغان وفد کی قیادت عبداللہ عبداللہ‘ وزیر خارجہ اور افغانستان کے اہم وزیروں نے کی۔ اس دوحہ مکالمہ میں بھارت کا رویہ مناسب تھا۔ اس کے بجائے کہ ایک ہی پارٹی کے ساتھ رہتا ‘ یہ کہا گیا کہ افغانستان میں ‘ بھارت ایک ایسا حل چاہتا ہے جو افغانوں کو پورے طورپر قبول کرے اور ان پر مسلط نہ ہو۔ مائیک پومپیو اور شاہ محمود قریشی نے بھی تقریباً یہی بات کہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاہدہ کیسے طے پاتا ہے۔ کیا کچھ عرصے کیلئے طالبان اوراشرف غنی کی کابل کی حکومت مشترکہ کابینہ تشکیل دیں گے؟ یا تازہ انتخابات ہوں گے ؟ یا پھر طالبان براہ راست حکومت کرنا چاہیں گے ‘ یعنی وہ غنی کی حکومت کو تبدیل کرنا چاہیں گے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں طالبان کا رویہ بہت بدل گیا ہے۔اگر طالبان قدرے عقلی اور عملی انداز اپناتے ہیں تو ‘ پچھلے پچاس سالوں سے اکھڑا ہوا افغانستان ‘ دوبارہ پٹڑی پر آ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved