چھوٹی سی خبر تھی‘ اخبار کے اندرونی صفحے کے نچلے حصے میں ایک کالم اور چند سطروں پر مشتمل‘ لیکن اس نے دل مٹھی میں جیسے بھینچ لیا۔ لکھا تھا‘ ایرانی کرنسی یعنی ریال اب تک تاریخ کی سب سے کم قدروقیمت پر پہنچ گیا ہے اور تہران کے بازاروں میں ایک امریکی ڈالر کے عوض دو لاکھ تریسٹھ ہزار پانچ سو ریال مل رہے ہیں یعنی 167 پاکستانی روپے کے بدلے 2,63,500 ایرانی ریال۔ یہ بھی لکھا ہے کہ سال 2020 کے دوران ایرانی ریال، جس کا حال پہلے ہی پتلا تھا، مزید 49 فیصد قدر کھو بیٹھا ہے۔ جولائی 2020 میں یہ نرخ 2,55,000 ریال پر پہنچا لیکن اگست میں پھر کچھ بہتر ہو کر 2,20,000 ریال فی ڈالر پر واپس آ گیا تھا؛ تاہم اس وقت ستمبر میں یہ بلند ترین سطح پر ہے۔ ایران کے مرکزی بینک کے گورنر عبدالنصر ہمتی نے اپنے انسٹاگرام پیغام میں کہا ہے کہ معیشت سخت ترین دباؤ میں ہے اور بہت سی چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔
وہ دسمبر کا ایک روشن، سرد اور خوشگوار دن تھا۔ میں شاہراہ فردوسی پر ایک بڑے بینک کے سامنے کھڑا تھا۔ فٹ پاتھ پر کرنسی تبدیل کرنے والے بہت سے لوگ اپنے اپنے صندوق، چھوٹی الماریاں اور پیٹیاں لے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ منظر آج سے بارہ سال پرانا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ آج بھی اس جگہ اسی طرح ہوگا۔ میں تہران کے چند روزہ سفر پر تھا اور ڈالر تبدیل کروانے کیلئے وہاں پہنچا تھا۔ ایرانی کرنسی کے بارے میں ایک چکرا دینے والی بات یہ ہے کہ ساری کرنسی پر ریال کا نام چھپتا ہے اور سرکاری کرنسی بھی ریال ہے لیکن عام بول چال میں تومان کا لفظ اور یونٹ استعمال ہوتا ہے۔ ایک اجنبی، مسافر اور سیاح کیلئے یہ پریشان کن معاملہ ہے۔ یہ مجھے اندازہ اس وقت بھی تھاکہ ایرانی ریال کی قدروقیمت بہت کم ہے لیکن جب میں نے 100 ڈالرز تبدیل کروائے اور دکاندار نے نوٹوں کی اتنی گڈیاں میرے ہاتھوں میں تھمائیں جو دونوں ہاتھوں میں پوری آہی نہیں سکتی تھیں توحیرانی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت نے مجھے ڈھانپ لیا۔ حیرانی بھی بہت لیکن پریشانی تو بہت زیادہ اور پریشانی کی قابل فہم وجوہ تھیں۔ یہ نوٹ گنے کیسے جائیں؟ اور اس پر کتنا وقت صرف ہو؟ کیسے یہ معلوم ہو کہ دکاندار نے ڈنڈی نہیں ماری۔ اتنی گڈیاں جیب میں رکھی کیسے جائیں؟ جیب کیا، ان کے لیے تو ایک تھیلا درکار تھا۔ یہ تھیلا جگہ جگہ اٹھائے پھرنا الگ مصیبت تھی۔ میں نے جوں توں یہ گڈیاں ٹھونسیں۔ ہر شے کی قیمت ہزاروں لاکھوں ریال میں تھی۔ لاکھوں ریال کا دو وقت کا کھانا کھایا، لاکھوں ریال کی کتابیں خریدیں۔ لاکھوں کا خشک میوہ خریدا۔ نتیجہ یہ کہ دوسرے دن میں پھر ڈالرز بھنوانے اسی دکاندار کے پاس کھڑا تھا۔
اسی سفر میں ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے بیٹھا تھا۔ نوجوان مالک کو معلوم ہواکہ میں لاہور سے ہوں تو کھل اٹھا۔ اقبال لاہوری‘ اس نے کہا اور گرمجوشی سے پیش آیا۔ ٹی وی پر کوئی سرکاری پروگرام چل رہا تھا۔ وہ ٹی وی دیکھتا جاتا اور عمال و حکام کو برا بھلا کہتا جاتا۔ اس نے مجھے بھی مخاطب کرکے گفتگو کو دوطرفہ کرنے کی کوشش کی لیکن مجھ اجنبی نووارد نے ان کے معاملات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا‘ لیکن اس کا ایک جملہ یاد رہ گیا۔ کہا ''شاہ ایران کے زمانے میں وہ اٹھا کر لے جاتے تھے۔ اب یہ غائب کردیتے ہیں۔ ہم وہ ہیں جن کی چمڑی ہر دور میں کھنچتی ہے‘‘۔ میں نے خود بھی محسوس کیا اور جن لوگوں میں ایران میں وقت گزارا وہ بھی جانتے ہیں کہ لوگوں میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی گئی ہے‘ اور وہ واضح دیکھی جا سکتی ہے۔
گزرتے ماہ و سال میں معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوئی ابتر ہوتی چلی گئی ہے۔ ایران میں خوراک اور ادویہ پر سرکاری سبسڈی ہے جو اچھی بات ہے لیکن اس صورتحال میں لوگ کس طرح نوٹوں کا ڈھیر اٹھائے پھرتے ہوں گے، یہ سمجھ سے بالا ہے۔ امریکی پابندیوں، تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں، سرکاری عدم توجہ اور بیک وقت بہت سے ممالک کے ساتھ محاذ آرائی اور چپقلشوں نے ایرانی معیشت کا برا حال کر رکھا ہے۔ ادھر کورونا کا یہ حال ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کورونا کی اموات کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے اور علاج کی سہولیات بہت محدود ہیں۔ ایسی خوفناک صورت حال میں عام آدمی کی تکلیفوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ایک سفید پوش اوسط درجے کی آمدنی کا فرد کیسے اس صورت حال سے لڑ رہا ہوگا ۔یہ سوچ کر ہی دل بھنچ جاتا ہے ۔
برصغیر کی کرنسی کی تاریخ بھی کافی پیچیدہ ہے ۔کوڑیوں سے آنے پائی اور پھر روپے تک آتے آتے اس قطرے پہ گہر ہونے تک سے زیادہ مراحل گزرے ہیں‘ لیکن ایرانی کرنسی کی تاریخ زیادہ گنجلک محسوس ہوتی ہے۔ تومان کا لفظ منگول زبان سے ہے جس کا مطلب ہے دس ہزار کا عدد۔ تومان ایرانی سرکاری کرنسی ریال کا برتر بلکہ سپر یونٹ ہے۔ ایک تومان دس ریال کے مساوی ہے اور تومان ہی خرید و فروخت کیلئے خریداروں اور دکان داروں کی روز مرہ بول چال اور لین دین میں مستعمل ہے۔ایرانی کرنسی کی تاریخ میں تومان دس ہزار دینا رکے برابر ہوتا تھا‘پھر قران کے یونٹ نے دینار کو تبدیل کردیا۔ ایک قران ایک ہزار دینار یعنی تومان کے دسویں حصے کے مساوی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ شاہ ایران کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ عوام نے نئی حکومت سے معیشت کی بہتری کی امیدیں قائم کی تھیں لیکن یہ امیدیں بتدریج دم توڑتی چلی گئیں۔ کرنسی مسلسل گرتی چلی گئی، افراط زر ہولناک حدوں کو چھونے لگا۔ 2019میں مرکزی بینک نے تجویز دی کہ کرنسی کی قدر کا دوبارہ تعین کرلیا جائے اورایک نئے تومان کی قدر دس ہزار ریال کے برابر کردی جائے۔ ایرانی حکومت نے یہ تجویز منظور کرکے اس پر عمل درآمد شروع کردیا۔لیکن اس سارے عمل میں 160ملین ڈالرز کا خرچ متوقع ہے اور یہ دو سال کے تدریجی عمل کے بعد مکمل ہوگا۔اس وقت مرکزی بینک ایک ہزار، دو ہزار،پانچ ہزار،دس ہزار،پچاس ہزار اور ایک لاکھ ریال کے نوٹ جاری کرتا ہے ۔اس کے باوجود نوٹوں کی تعداد کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔
ایران ایک پیارا ملک ہے ۔لوگ خوب صورت ہیں۔ آرٹس اور فنون لطیفہ اس کی تاریخ اور ثقافت کی رگ رگ میں ہیں۔ پھر پاکستان کی ہمسائیگی ہمارے لیے اس کی قدروقیمت میں اضافہ کرتی ہے۔ زبان، ادب اور ثقافت کے رشتے الگ ہیں اس لیے اس کے دکھ سکھ ہمارے دلوں پر بھی وارد ہوتے ہیں اور اگر ایک عام ایرانی تکلیف سے گزرتا ہے تو دوسرے ملکوں کی نسبت ہم پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ چا بہار ہو، افغانستان ہو، یا کلبھوشن‘ موجودہ زمانے میں ان پالیسیوں اوراقدامات کا تاثر ہماری حکومتوں اور عام شخص پر منفی پڑتا رہا ہے حالانکہ یہ برادر ملک وہ ہے جس سے ہمارے ایک زمانے میں بہت قریبی رشتے قائم تھے۔ 1965کی پاک بھارت جنگ میں ایران کا دوستانہ رویہ ہمیں آج بھی یاد ہے۔ آر سی ڈی،بعد میں ( اوآر سی ڈی) کے رشتے نے اسے مزید مضبوط کیا تھا۔ میں اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے اس رشتے کی مٹھاس دیکھی ہے۔ شاہ ایران کی شہنشاہیت کا دور دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ شہنشاہ رضا شاہ پہلوی اور ملکہ فرح دیبا جب پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو ہم بچوں نے حیرت اور خوشی سے دیکھا تھاکہ اچھا! شہنشاہ اور ملکہ ان شکلوں اور ایسے لباسوں والے ہوتے ہیں۔ وہ تاثر کبھی ذہنوں سے مٹا نہیں۔ اس وقت بھی نہیں جب شاہ ایران پناہ کی تلاش میں دنیا بھر میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ تو اے برادر! ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ خوفناک افراط زر، یہ بے حیثیت کرنسی، یہ مہنگائی۔ کیا ان سے چھٹکارا ہو سکتا ہے؟ آپ کی تکلیف پر کڑھتے ہیں لیکن کیا آپ بھی کبھی یہ سوچتے ہیں کہ ان سب کے عوامل کیا ہیں۔ 1979میں شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد یہ ملک دوبارہ کیوں ابھر نہیں سکا؟ افرادی قوت، قدرتی وسائل اور زرخیز زمین سے مالامال ایران ایسی معاشی ابتری کا شکار کیوں ہے؟ قربانت شوم۔ کوئی وجہ تو ہوگی!