کرپٹ لوگوں سے حاصل کیا گیا پیسہ
تعلیم پر لگائیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''کرپٹ لوگوں سے حاصل کیا گیا پیسہ تعلیم پر لگائیں گے‘‘ اگرچہ یہ لوگ سارا پیسہ ہضم کر چکے ہیں اور ہماری کوششوں کے باوجود اس کی واپسی کی امید نہ ہونے کے برابر ہے‘ اس لیے محکمہ تعلیم ہاتھ منہ دھو رکھے اور ابھی سے بغلیں نہ بجانا شروع کر دے؛ تاہم یہ منصوبہ ہمارے یادگار منصوبوں میں شامل ہو گا کیونکہ کسی بھی بڑے کام کے لیے پہلے ایک منصوبہ بنایا جاتا ہے اور جب منصوبہ بن جائے تو سمجھیے کہ آدھا کام ہو گیا اور باقی آدھا کام آپ خدا پر بھی چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ ہر کام میں برکت ڈالنا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا اسی کو زیب دیتا ہے، انسان تو ایک عاجز مسکین چیز ہے اور اس کا کام صرف کوشش ہی کرنا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا‘‘ اور حکومت چونکہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہے، اس لیے سب سے پہلے وہ اپنی غلطیاں تسلیم کرے اور اگر حکومت نے ایسا کر لیا تو ہمیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کیونکہ حکومت کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بعد استعفیٰ دینا پڑے گا اور ہماری غلطیاں تسلیم کیے جانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی جبکہ ویسے بھی اپوزیشن نے کوئی غلطی کی ہی نہیں اور جو کچھ اس نے کیا ہے‘ وہ اسے جائز سمجھتے ہوئے کیا ہے ؛ اگرچہ احتساب والے اس دلیل کو درست نہیں سمجھتے اور یہ سارا سمجھ کا ہیر پھیر ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ آپ اگلے روز پاکستان بار کونسل کی اے پی سی سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن کو اپنے طرزِ عمل سے سبکی کا سامنا کرنا پڑا: علیم خان
سینئر وزیر پنجاب عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو اپنے طرزِ عمل سے سُبکی کا سامنا کرنا پڑا‘‘ جبکہ ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا کیونکہ ہم سبکی کو سبکی سمجھتے ہی نہیں جبکہ سبکی کو سبکی سمجھنا اور اس پر پشیمان ہونا بزدلوں کا کام ہے اور اگر اپوزیشن نے یہ بزدلی دکھائی ہے تو ہمارے سوا یہ دوسروں کے لیے عبرت کا مقام ہے کیونکہ حاصل کرنا تو کُجا‘ ہم نے تو عبرت کو کبھی لفٹ ہی نہیں کرائی جو ہمارے مضبوط اعصاب کی آئینہ دار ہے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
احتساب کے نام پر انتقام ترک کرنا ہو گا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''احتساب کے نام پر انتقام ترک کرنا ہو گا‘‘ ورنہ ہم سے بُرا کوئی نہ ہو گا؛اگرچہ کچھ لوگ اس کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ع
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
تاہم واضح رہے کہ مجھے بُرا سمجھنے والے خود عقل و فہم سے عاری ہیں اور اگر میں واقعی ایسا ہوتا تو ساری اپوزیشن میرے پیچھے کیوں پڑی ہوتی؟ جبکہ اس سے یہ بھی لگتا ہے کہ اُن کے ہاں صحیح لیڈروں کا فقدان ہے؛ حالانکہ میں ہر بار انہیں کافی مہنگا پڑتا ہوں۔ آپ اگلے روز چترال میں ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مسائل کے حل کے لیے مخیر حضرات
سے مل کر کام کریں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''مسائل کے حل کے لیے مخیر حضرات سے مل کر کام کریں گے‘‘ جبکہ ہم تو ماشاء اللہ ملک ہی مخیر حضرات کی مدد سے چلا رہے ہیں، وہ مقامی ہوں یا غیر ملکی بلکہ اس سے پہلے بھی ہسپتال سمیت سارے کام ایسے ہی سر انجام دیے تھے؛ اگرچہ اب وہ ہمیں دیکھ دیکھ کر خاصے تنگ آ چکے ہیں حالانکہ انہیں ہماری مجبوریوں کا احساس کرنا چاہیے اور دستِ تعاون دراز رکھنا چاہیے۔ اتنا دراز کہ ہم تک وہ اور اس تک ہم پہنچ سکیں اور دونوں کا کام چلتا رہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں جلال الدین رومی سرکٹ ہائوس میں بعض صنعتکاروں سے ملاقات کر رہے تھے۔
تیسرے دن
پطرس بخاری اُن دنوں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے‘ جب ایک دن کسی کام کے سلسلے میں گورنر سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔ استقبالیہ پر موجود خاتون نے پوچھا: آپ کا نام؟ انہوں نے بتایا۔ جس کے بعد پوچھا: کیا کرتے ہیں؟ پطرس نے بتایا۔ پھر پوچھا: کس لیے آئے ہیں؟ پطرس نے بتایا تو اس خاتون نے کہا: آپ کل آئیں۔ پطرس دوسرے دن گئے تو اس خاتون نے پھر ان سے تینوں سوال کیے اور کہا کہ آپ کل آئیں۔ پطرس تیسرے دن گئے اور اُس خاتون سے بولے: میرا نام پطرس بخاری ہے، میں آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل ہوں، مجھے گورنر سے ملاقات کرنی ہے اور اب میں کل آئوں گا۔ اس پر وہ خاتون ہنس پڑی اور ملاقات کروا دی۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
ہمارے آپ کے وہم و گمان سے آگے ہے
وہ آسماں جو مرے آسماں سے آگے ہے
جہاں پہنچتا ہوں، ملتی ہے اطلاع یہی
کہ وہ مقام بہت سا وہاں سے آگے ہے
ہمارے دل کی ابھی پیش رفت ہے اتنی
وہیں سے پیچھے ہے ظالم جہاں سے آگے ہے
ابھی خیال میں آواز ہے نہ خاموشی
زباں کا ذائقہ قطعِ زباں سے آگے ہے
ابھی مرا کوئی کردار کیا نظر آئے
کہ میرا ذکر تری داستاں سے آگے ہے
وہ جگہ دیکھنی ہے ایک بار پھر میں نے
جو میرے چھوڑے ہوئے ہر نشاں سے آگے ہے
کوئی عقب کی ہوا ہے چلی ہوئی جیسے
کہ آج گردِ سفر کاروان سے آگے ہے
وہ ایک خوابِ رواں تھا ہوا کے شانوں پر
کہ ڈھونڈتے ہیں یہاں اور یہاں سے آگے ہے
ہے دھوپ چھائوں اُسی کی مرے لہو میں‘ ظفرؔ
کوئی شجر جو مرے آشیاں سے آگے ہے
آج کا مطلع
امید نہیں ہو کوئی حسرت بھی نہیں تم
پھر کیا ہو اگر میری ضرورت بھی نہیں تم