وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے بعد ایک بار پھر اسی عمل کا آغاز ہے جس میں سیاست دانوں کو وعدے ایفا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔ کارکردگی عمدہ ہو تو مہاتیر محمد کی طرح سر آنکھوں پہ وگرنہ پیپلز پارٹی کی طرح بے توقیری کے ساتھ رخصت۔ دونوں سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر اپنے عزیز و اقارب سمیت سنگین بدعنوانی کے الزامات لگے۔ بجلی اور گیس سے محروم کارخانے بند ہونے لگے، بے روزگاری کا ایک طوفان اٹھا اور معیشت زمین بوس ہو گئی۔غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر نچلی ترین سطح پر ، ریاست کے ذمے اندرونی اور بیرونی قرض ملک کے سالانہ بجٹ سے تقریباً پانچ گنا ۔ڈرون حملے بڑھتے گئے ؛حتیٰ کہ خود امریکیوں نے اس پہ نظرِ ثانی کی ضرورت محسوس کی۔ کوئی اور ملک ان حالات سے دوچار ہوتا تو معاملہ وسط مدّتی انتخاب کی طرف بڑھتا۔ تین طویل مارشل لائوں نے قومی نفسیات کو اس بری طرح مجروح کیا ہے کہ فوراً ہی فوجی بوٹوں کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے ۔ بہرحال نون لیگ کو کارکردگی دکھانے کا اب پورا موقع ملے گا۔ مرکز میں میاں محمد نواز شریف کے سامنے تباہ حال معیشت ، دہشت گردی ، ڈرون حملے اور توانائی کا بحران سر اٹھائے کھڑا ہے لیکن صوبوں کی بھی کچھ ذمّے داری ہے۔ ڈرون حملوں کے بارے میں تحریکِ انصاف کا موقف جذباتی ہے۔ حال ہی میں امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے اوراگلے برس افغانستان کی صورتِ حال بالکل ہی بدل جائے گی ۔کیا عمران خان سمیت ہمارے سیاستدان اس پر غور کرنا پسند فرمائیں گے ؟ ڈرون حملوں کانشانہ شمالی وزیرستان ہے۔ کیا ملکی قیادت افغان صوبہ خوست سے ملحق اس علاقے میں حکومتی عمل داری یقینی بنا سکتی ہے اور وہاں سے سرحد پار آمدورفت روک سکتی ہے ؟کیا یہ ہدف حاصل کرنے کے بعد عالمی برادری کو وہ اپنی کامیابی باور کرا سکتی ہے ؟ اگر یہ ممکن نہیں تو خاطر جمع رکھیے اور 2014ء کے بعد کی صورتِ حال پر غور فرمائیے۔ بدترین دہشت گردی اور تباہ حال معیشت کے باوجود صبح خلقِ خدا گھروں سے نکلتی ہے اور شام کو کچھ نہ کچھ کما کر ہی لوٹتی ہے ۔ حکومت سے اس کے مطالبات لمبے چوڑے نہیں لیکن توانائی بہرحال چاہیے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بجلی کا بحران پیپلز پارٹی کی حکومت کو نگل گیا۔ اسے یہ مسئلہ ورثے میں ملا تھا اورپوری نیک نیتی کے ساتھ دن رات مشقت کا مطالبہ کرتا تھا۔ پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف نے کرائے کے بجلی گھرمنگائے۔ وہ کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں اور نیب ان سے تفتیش کر رہی ہے۔ دونوں وزرائے اعظم جس بات کا ادراک نہ کر پائے ، وہ یہ کہ میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کے بعد حالات بہت بدل چکے ہیں ۔ میڈیا نے شور مچایا اور عدالت نے کارروائی شروع کی ۔جو توانائی پیپلز پارٹی کو بجلی کے بحران سے نمٹنے پر صرف کرنا تھی ، وہ اب اپنی بے گناہی اور رینٹل پاور پراجیکٹس کو ایک سودمند منصوبہ ثابت کرنے پر صرف ہو رہی تھی ۔ دوسری طرف بجلی کی طلب ہر سال بڑھتی رہی۔ کچھ سوال ایسے ہیں جن کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ مثلاً بدترین حالات میں بجلی کی طلب اور رسد کا فرق چھ ہزار میگاواٹ تھا جو آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا باعث بن سکتا تھا لیکن بجلی تواٹھارہ گھنٹے غائب ہوتی ۔کوئلے سے جو بجلی آٹھ روپے فی یونٹ میں پڑتی ، تیل سے وہ اٹھارہ روپے میں پیدا کی جا رہی ہے ۔ غریب عوا م کی جیب پر یہ کھربوں روپے کا ڈاکا ہے ۔ کیا گزری حکومتوں کا یہ فرض نہ تھا کہ نجی شعبے کو کوئلہ استعمال کرنے والے منصوبوں کا حکم دیا جاتا۔ کیا ذمّے داران کے خلاف کبھی کارروائی ہوگی ؟ صوبوں کی کارکردگی پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں ۔ کیا اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب، سندھ ، پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے بجلی کے منصوبے لگائے ؟ پنجاب حکومت کے آخری دو برسوں میں 19ارب روپے توانائی کی پیداوار کے لیے مختص کیے گئے لیکن پھر ان کا بڑا حصہ دوسرے منصوبوں پر لگا دیا گیا۔ 2013ء کے بجٹ میں اب 13ارب روپے کی تجویز ہے ۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ سرکلر ریلوے او ر انڈر گرائونڈ میٹرو کی بجائے سندھ اور پنجاب کی حکومتیں بجلی پیدا کرنے کا مقابلہ کریں۔ لاہور میٹرو بس اور سستی روٹی سکیم سے عوام کو یقینا فائدہ ہوا ہوگا۔ نوجوا ن یقینا مستفید ہوئے ہوں گے لیکن بجلی نہ ہوگی تو کارخانے بند ہوں گے ، بیروزگاری ، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ، ادائیگیوں کے توازن پر منفی اثر اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی ۔ بے روزگاری سے جرائم کی شرح میں اضافہ ، خودکشیاں اور انسانی المیے۔وسائل محدود ہیں! غلط طور پر کہا جاتاہے کہ صوبوں کو بجلی پیدا کرنے کا حق دیا گیا ہے ۔ درحقیقت انہیں یہ ذمّے داری سونپی گئی ہے ۔چھوٹے صوبوں مثلاً سندھ کا حال بدتر ہے۔ سابق دور میں شہرِ قائد میں ہزاروں افراد قتل ہوئے اور بھتہ خوری پوری شد و مد سے جاری رہی۔ پچھلے پانچ برس جو بری طرح ناکام رہے ، اس بار کیا کر پائیں گے ؟ تحریکِ انصاف نے پہلی بار حکومت بنائی ہے۔ کارکردگی دیکھنے سے پہلے تبصرہ مناسب نہیں۔ کیا وہ اہم مناصب اہل افراد کو دیں گے؟ تحریک انصاف نے مخلص اور قربانیاں دینے والوں کو دھتکارا؛ حتیٰ کہ میڈیا نے شور مچایا اوراشک شوئی کی صورت پید اہوئی ۔ معاملات اگر نااہل افراد کو سونپ دئیے جائیں گے تو کامیابی کی کیا امید؟ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا انتخابات کے بعد مرکز اور پنجاب میں نو ن لیگ ، پختون خوا میں تحریکِ انصاف ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں قوم پرستوں اور نون لیگ کی کامیابی سے امید نے جنم لیا تھا‘ یہ کہ تین بڑی جماعتیں مرکز اور صوبوں میں اپنی کارکردگی دوسروں سے بہتر دکھانے کی بھرپور کوشش کریں گی اور فائدہ عوام کو ہوگا۔ کیا واقعی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved