تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-09-2020

ہر قاری اسے اپنے علاقے کا کالم سمجھے

مجھے اب یہ بات لکھتے ہوئے خود بھی شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی ہے کہ یہ بات لاکھوں کروڑوں بار لکھی جا چکی ہے اور بے شمار لوگ یہ بات کہہ چکے ہیں کہ یہ ملک طبقاتی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ یہاں انصاف، قانون، تحفظ، مراعات اور سہولیات امیر، طاقتور اور صاحبان اقتدار کے لیے ہیں اور مصائب، تکالیف، ظلم و زیادتی اور ناانصافی غریب، بے سہارا اور بے وسیلہ لوگوں کا مقدر ہے۔ غریب اور لاوارث کا یہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ غریب کی بیٹی اٹھائی جائے تو اس کے ورثا کو تھانے سے دھکے مار کر نکال دیا جاتا ہے۔ معاشرے کے پسے ہوئے فرد کی بیٹی کی عزت لوٹ لی جائے تو تھانیدار عزت لوٹنے والے وڈیرے کا حمایتی بن جاتا ہے اور چھوٹی موٹی رقم کے عوض زور زبردستی سے صلح نامے پر دستخط کروا کر معاملہ رفع دفع کر دیتا ہے۔ کسی بے وسیلہ شخص کا بیٹا قتل ہو جائے تو اسے پرچہ درج کروانے کے لیے مقتول کی لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کرنا پڑتا ہے اور وڈیروں سے عزت پامال کروانے والی بنت حوا کو تھانے میں ذلت کے بعد خودکشی کرنا پڑتی ہے۔ ہاں طاقتور، صاحب ثروت اور صاحب اقتدار کی بات دوسری ہے۔
ملتان کے ایک ایم پی اے کے گھر کے باہر ہوائی فائرنگ ہو گئی۔ فی الوقت اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس کی وجوہ کیا تھیں؟ فائرنگ کرنے والے اور ایم پی اے کے درمیان وجہ تنازع کیا تھی؟ دونوں کے درمیان تعلقات کی سابقہ نوعیت کیا تھی اور ان تعلقات میں خرابی کیوں کر پیدا ہوئی؟ یہ سب باتیں ایک طرف رکھ دیں۔ قانون شکنی کی کسی طور بھی اجازت نہیں اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی بھی جواز قابل قبول نہیں؛ تاہم دوسری طرف پولیس کو اپنی روایتی سستی اور نااہلی کی جو قیمت ادا کرنا پڑی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ حکومتی ایم پی اے کے ساتھ جو ہوا وہ ظاہر ہے افسوسناک ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ اگر یہی کچھ کسی عام آدمی کے ساتھ ہوا ہوتا تو تب بھی پولیس کی نااہلی اور ملزمان کو پکڑنے میں سستی پر ایسا ہی ہوتا؟ 
پولیس نے ایم پی اے کے ڈیرے پر فائرنگ کرنے والے ملزم کو فوری طور پر گرفتار نہ کیا۔ یہ پولیس کا وہی عمومی رویہ تھا جو وہ ہر عام تام، بے وسیلہ اور کمزور آدمی کے ساتھ روا رکھتی ہے؛ تاہم پولیس سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے ایم پی اے کو بھی اسی قطار میں شمار کر لیا‘ جس میں وہ ہم جیسے عامیوں کو شمار کرتی ہے۔ ایم پی اے نے اس رویے کے خلاف شاہ محمود قریشی سے بھی شکایت کی۔ شاہ محمود قریشی نے خارجہ پالیسی میں کوئی خاص تیر مارنے میں ناکامی کا سارا غصہ پولیس پر نکال دیا اور میرے علم کے مطابق ملتان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ہوائی فائرنگ کے ملزمان کی گرفتاری میں ناکامی پر پورے کا پورا تھانہ معطل ہو گیا۔ معطل ہونے والوں میں ایس ایچ او، ایک محرر، دو عدد سب انسپکٹر، تین عدد اے ایس آئی، چھ ہیڈ کانسٹیبل اور انیس کانسٹیبل یعنی کل بتیس عدد پولیس والے شامل ہیں۔
یقین کریں مجھے پولیس والوں کی معطلی کا رتی برابر افسوس نہیں۔ ان کے ساتھ جو ہوا وہ ٹھیک ہوا‘ لیکن میرا سوال تو صرف یہ ہے کہ کیا ان کے ساتھ یہی سلوک کسی عام آدمی کو نظر انداز کرنے پر ہو سکتا تھا؟ کیا کسی عام شہری کو‘ جسے آئین پاکستان، دیگر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے‘ یہی برابری کا سلوک میسر آ سکتا ہے؟ اس سے کہیں زیادہ سنگین جرائم پر عدم تعاون اور مظلوم کی دادرسی نہ کرنے پر پولیس کے ساتھ ایسا کچھ ہو سکتا تھا؟ کیا یہ ملک صرف سرمایہ داروں، سیاسی کھڑپینچوں، حکمران نمائندوں اور زورآوروں کو سہولتیں دینے کے لیے معرض وجود میں آیا تھا؟
ہمارے عوامی نمائندوں کو عوام کی فکر ہونی چاہیے تھی مگر وہ صرف اپنی، اپنے عزیزواقارب اور یار دوستوں کی فکر میں مبتلا ہیں۔ آج کل ملتان میں عوامی نمائندوں کے درمیان جو اتحاد اور یگانگت دیکھنے میں آ رہی ہے اس پر جی خوش ہو رہا ہے کہ چلیں کہیں تو کوئی یکجہتی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بھلے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے ہی سہی مگر نظر تو آئی۔
کوئی زمانہ تھا چین میں آنجہانی مازئوے تنگ کی بیوہ کی سربراہی میں چار لوگوں پر مشتمل ایک سیاسی گینگ تھا۔ اسے عرف عام میں چار کا ٹولہ (Gang of Four) کہا جاتا تھا۔ آج کل ملتان میں ایک صوبائی وزیر کی سربراہی میں پانچ کا ٹولہ کافی نام کما رہا ہے۔ اس میں ایک وزیر اور چار ایم پی اے ہیں۔ معاملہ کسی ایس ایچ او کی تبدیلی کا ہو یا بھائی کی پوسٹنگ کا‘ یہ پانچ کا ٹولہ لاہور پہ ہلہ بول دیتا ہے۔
ملتان میں چوہدری پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایم ایس کی پوسٹ اس وقت ایک انگریزی محاورے کے مطابق وجہ تنازع (Apple of discord) بنی ہوئی ہے۔ یہ بنیادی طور پر بیسویں گریڈ کی پوسٹ ہے اور کارڈیالوجی ہسپتال میں انیسویں اور بیسویں گریڈ کے کئی ڈاکٹر حضرات موجود ہیں‘ اس کے باوجود ایم پی اے ملک سلیم لابر نے اپنے حقیقی بھائی ملک فہیم لابر کو‘ جو اٹھارہویں گریڈ میں تھا‘ یہاں ایم ایس لگوا لیا۔ اس پر بڑا شور مچا اور لے دے ہوئی لیکن سارے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود موصوف اس پوسٹ پر بیٹھے رہے اور پورے گیارہ ماہ تک اس پوسٹ کے مزے لیتے رہے۔ اس مزے اڑانے میں ہر وہ مزا شامل تھا جو فی زمانہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ موصوف کی ایمانداری کی شہرت بھی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی صورتحال کے لیے ایک سرائیکی محاورہ بھی ہے لیکن وہ ان محاوروں میں شامل ہوتا ہے جو لکھے نہیں جاتے؛ تاہم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ 
خیر بمشکل تمام فہیم لابر صاحب کی جگہ بیسویں گریڈ کا ایک ڈاکٹر بطور ایم ایس تعینات ہوا ہے لیکن میرے دوستوں سمیت پانچ ارکان صوبائی اسمبلی پر مشتمل یہ ٹولہ اپنے تن من دھن کی بازی لگائے بیٹھا ہے اور اپنے ایم پی اے ساتھی کے بھائی کو اس کی عمدہ شہرت اور کم گریڈ کے باوجود دوبارہ ایم ایس لگوانے کے لیے لاہور پر اسی طرح بار بار حملہ آور ہے جس طرح محمود غزنوی ہندوستان پر حملے کرتا تھا۔ چند روز پہلے یہ پانچ کا ٹولہ پہلے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو ملا اور پھر وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو ملا؛ تاہم واقفان حال کا کہنا ہے کہ فی الحال ان کی دال نہیں گلی۔ اسی دوران اس پانچ کے ٹولے نے تھانہ مظفرآباد کے ایس ایچ کو تبدیل کرنے کے لیے بھی زور لگایا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ایس ایچ او نے ملک سلیم لابر ایم پی اے کے قریبی عزیز کو تھانے میں کرسی پیش نہیں کی تھی؛ تاہم ایک اطلاع کے مطابق ان ناکامیوں کے باوجود یہ لوگ اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں اور اگلے حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ملتان سے باہر والے قارئین کی تشفیٔ قلب کے لیے عرض ہے کہ وہ اس کالم کو ملتان کا کالم ہرگز نہ سمجھیں بلکہ اپنے علاقے کا کالم تصور کریں کیونکہ مجھے یقین کامل ہے کہ سب جگہ کے عوامی نمائندے یہی کچھ کر رہے ہیں جیسے فیصل آباد کے تین ارکان قومی اسمبلی فیسکو کے ایک ایس ڈی او کی بحالی میں ناکامی کے بعد وزیر اعظم کو ملے اور اپنا حکم نہ ماننے والے دو افسروں کو تبدیل کروا کر واپس آئے۔ ملک میں سب جگہ اسی قسم کے ٹولے مصروف عمل ہیں؛ البتہ ہر ٹولے پر مشتمل افراد کی تعداد میں کمی بیشی ہو جائے تو اور بات ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved