اگر غلط کام کروں تو میری گاڑی کو پتھر ماریں: اعجاز شاہ
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ ''اگر غلط کام کروں تو میری گاڑی کو پتھر ماریں‘‘ کیونکہ سرکاری گاڑی ہے اس کی مرمت بھی سرکاری کھاتے میں ہو جائے گی البتہ اتنا خیال رہے کہ کوئی پتھر مجھے نہ لگ جائے‘اگرچہ میرا علاج بھی سرکاری کھاتے میں ہو جائے گا لیکن تکلیف تو مجھے ذاتی طور پر ہی ہو گی جبکہ میں ایک فالتو گاڑی بھی ساتھ رکھا کروں گا کیونکہ سنگسار گاڑی کو وہیں چھوڑ کر دوسری گاڑی میں سوار ہو کر چلا جائوں، اول پروٹوکول والی میری گاڑی ویسے بھی میرے ساتھ ہو گی جس میں بیٹھ کر میں بحفاظت آگے جا سکوں اور مزید غلط کام کر سکوں گا جو ظاہر ہے کہ کسی مجبوری کے تحت ہی ہو گا کیونکہ ہمارے ہاں سارے کام ہی کسی نہ کسی مجبوری کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور چیمبر میں پاسپورٹ ڈیسک کا افتتاح کر رہے تھے۔
میرے اندر کا سیاستدان گم ہو گیا: رضا ربانی
سابق چیئر مین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما رضا ربانی نے کہا ہے کہ ''میرے اندر کا سیاستدان گم ہو گیا‘‘ جس کی بازیابی کے لیے اخبار میں اشتہار گم شدگی دینے کی تیاری کر رہا ہوں اور اگر وہ اشتہار پڑھ کر اپنے آپ واپس آ جائے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا حالانکہ گھر سے بھاگ جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے جبکہ عدم دستیابی کی صورت میں نشاندہی کرنے والے کے لیے خطیر انعام کا بھی اعلان کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں گم شدگی کا مسئلہ ایسا ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا ، تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ گھر سے کوئی چیز چرا کر تو نہیں بھاگا ‘جس صورت میں اس کی رپورٹ پولیس میں بھی کروائی جا سکتی ہے تا کہ جہاں بھی ہو اسے گرفتار کر کے لے آئے۔ آپ اگلے روز اپنی کتاب کی رونمائی کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔
پولیس کی بڑی تعداد ن لیگ کے زیر اثر ہے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کی بڑی تعداد ن لیگ کے زیر اثر ہے‘‘ کیونکہ انہیں (ن) لیگ ہی نے بھرتی کیا ہوا ہے، اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم بھی پولیس اہلکاروں کی ایک معقول تعداد کی بھرتی شروع کر دیں جس کے لیے بہت سے افراد کی چھٹی کرانی پڑے گی جو ظاہر ہے کہ( ن) لیگ ہی کے زیر اثر ہوں گے کیونکہ موجودہ پولیس تو ہمارے ارکان ِاسمبلی کو گھاس ہی نہیں ڈالتی حالانکہ ملک میں گھاس کی کوئی کمی نہیں ہے جبکہ ہمارے ارکان اسمبلی زیادہ گھاس کھاتے بھی نہیں ہیں کیونکہ ادھر اُدھر چگنے چرنے سے بھی ان کا گزارہ ہو جاتا ہے، آخر پیٹ ان کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز وزیراعظم کے ساتھ ایک رپورٹ پیش کر رہے تھے۔
میری آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے : خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''میری آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ لیکن میں باز نہیں آئوں گا‘‘ کیونکہ ہم باز آنے والے لوگ ہی نہیں ہیں‘ جبکہ آج بھی میری آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی اور میں دبی آواز ہی میں یہ بیان دے رہا ہوں کیونکہ تھوڑے بہت دبائو کو ہم خاطر میں نہیں لاتے جیسا کہ احتساب ادارہ ہمیں دبائو میں لانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے لیکن جہاں وزیراعظم کا قوم سے یہ خطاب ہے کہ گھبرانا نہیں، اس طرح ہمارے قائد بھی یہ کہا کرتے ہیں کہ کسی دبائو میں نہیں آنا جبکہ وہ خود بھی احتساب ادارے کے کسی دبائو میں نہیں آ رہے کیونکہ ہم گرفتاریاں اور مقدمات پہلے ہی ہنسی خوشی بھگتا چکے ہیں اور ہمارا بال تک بیکا نہیں ہوا بلکہ الٹا وہ مردِ حُر کہلائے جبکہ ایک چھوٹا سا مردِ حُر تو میں بھی قرار پا سکتا ہوں۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کا حق ، روکیں گے نہیں: اسد قیصر
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ''تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کا حق ہے، روکیں گے نہیں‘‘ لیکن زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہ ناکام ہو جائے گی کیونکہ حکومت کے ہاتھ میں کوئی ایسی گیدڑ سنگھی آ گئی ہے جس سے اس کی اقلیت بھی اکثریت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اسی گیدڑ سنگھی کے زیر اثر اپوزیشن کو گنتی بھی یاد نہیں رہتی جس پر میں خود بہت حیران ہوں کہ آخر ان کی گنتی کو کیا ہو گیا ہے اور اس جس کا مطلب ہے کہ انہیں گنتی کا یہ ہنر دوبارہ سیکھنا چاہیے اور اسے سیکھنے کے بعد ہی انہیں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنی چاہیے ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا بھی سکتی ہے ۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اہتمام
پطرس بخاری جب گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے تو کنھیا لال کپور جو کافی قد آور تھے ‘داخلے کے انٹرویو کے لیے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے چوڑی دار پاجامہ اور اچکن زیب تن کر رکھی تھی۔ پطرس انہیں دیکھ کر بولے: کپور صاحب! آپ کا قد واقعی اتنا لمبا ہے یا آج کوئی خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
معاف کیجئے خان صاحب
جانے کن رہ گزاروں سے
دوڑے چلے آتے ہیں
لاشیں بھنبھوڑتے، بُو سونگھتے
بیٹھ گئے ہیں لوگ
کہ بیٹھے ہوئوں کو کاٹتے نہیں
ویرانی کے عقب میں
راستوں اور شاہراہوں کے کہرام
اور جلتی بجھتی روشنیوں کے تعاقب میں
پھٹے ہوئے حلق کے ساتھ
گاڑیوں کے ساتھ ساتھ
بھاگتے ہیں
دیوار پر
ٹانگ اٹھا چکنے کے بعد
معاف کیجئے گا خان صاحب
آپ کا الاپ
کانوں میں جم گیا ہے
مُرکیاں ٹوٹتی ہیں
ہم رخصت ہو رہے ہیں
جینے کے جواز سے دست بردار
پٹاخوں سے
پتلونیں بچاتے
پھُدکتے پھرتے ہیں
ہماری قومی موسیقی
کافور کی مہک سے بھی خالی ہے
سڑاند ہے چہار جانب
اور بھونکنے کی آوازیں
بے سُر، بے تال
جان کی امان پائوں
تو سیدھا
آپ ہی کی طرف آئوں گا!
آج کا مقطع
آنکھوں سے آتے جاتے اُلجھتا ہے اے ظفرؔ
دیوار پر لکھا ہوا کچھ اُس کے ہاتھ کا