پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا ہمیشہ سے یہ مخمصہ رہا ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو مقتدرہ کے برعکس سوچ کا اظہار کرتی ہیں اور جب حکومت میں آجائیں تو پھر مقتدرہ کی حمایت کا رویہ اختیار کر لیتی ہیں۔ آج پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والی اے پی سی سے قبل پاکستان بار کونسل کی میزبانی میں بھی ایک اے پی سی منعقد کی کی گئی جس میں بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے بالخصوص شرکت کی۔ اس اے پی سی کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کے علاوہ بائیں بازو کی جماعتوں کو بھی دعوت دی گئی۔پاکستان بار کونسل کی اے پی سی میں شرکا کی تقریروں کا اگر مجموعہ نکالا جائے تو اس سے ایک بات بڑی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ یہ تمام جماعتیں مقتدرہ سے نالاں ہیں۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے ‘ لیکن ایک سوال ہے‘ کیا سیاسی جماعتوں کی اے پی سی سے قبل پاکستان بار کونسل کی اے پی سی میں ہونے والی تقریریں عندیہ ہیں کہ آنے والی اے پی سی کاموضوع اور رخ کیا ہوگا؟ اپوزیشن جماعتوں کا مقتدرہ سے شکوہ ہے کہ وہ حکومت کی حمایت میں کئی قدم آگے جا چکی ہے ‘جس کی وجہ سے موجودہ دور میں اپوزیشن کوسیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ کیسز پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ کے ہی دور میں ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے تھے۔ پاکستان بار کونسل کی اے پی سی میں بائیں بازوکی جماعتوں کی جانب سے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی پر بھی تنقید کی گئی جس میں مقررین نے آرمی ترمیمی ایکٹ اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے کردار کو ہدفِ تنقید بنایا بلکہ حالیہ پاس ہونے والے اینٹی منی لانڈرنگ بل پر بھی اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی کو زیر بحث لایا گیا کہ عددی اکثریت ہونے کے باوجود حکو مت نے جس آسانی سے قانون پاس کرا لیا اس سے اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کی قلعی کھل جاتی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ اور کھلاڑی بھی موجود ہیں‘ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے تحریک انصاف سمیت سبھی قبول کر چکے ہیں اوران کھلاڑیوں کی اشیرباد حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں لیکن نواز شریف یہ بات اپنے تجربے سے جانتے ہیں کہ سیاست میں کچھ لو اور کچھ دوکا فارمولا کام کرتا ہے اورتحریک انصاف کی حکومت جس طریقے سے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہدف ِتنقید ہے اس سے اس کی سیاست کمزور پڑ رہی ہے ۔جلدہی اپوزیشن میں سے اگلی حکومت کے دعویداربرآمد ہو جائیں گے اور نواز شریف انہی حلقوں کو یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ:We are here and we matter ۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کیلئے اگلے سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن سے قبل مقتدرحلقوں کے ساتھ معاملات طے کرنا ضروری ہیـ‘ یہ شورو غوغا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ابھی تو نواز شریف کی لندن میں ٹہلنے اور کافی پیتے تصویروں کے زخم ہی مندمل نہیں ہوئے کہ بلاول بھٹو کی دعوت پر اے پی سی سے نواز شریف کی بذریعہ ویڈیو لنک خطاب پر آمادگی نے حکومتی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ گو کہ ایک وزیرصاحب کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی حیثیت ملک سے بھاگے ایک سزا یافتہ مجرم سے زیادہ کچھ نہیں‘ لیکن سیاست کے نواز شریف جیسے پرانے کھلاڑی کو یوں میدان سے آؤٹ قراردینا سیاسی بھول پن ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کا مجوزہ خطاب اے پی سی کے ساتھ ساتھ ان حلقوں کیلئے بھی پیغام ہے جن سے بگڑی ہوئی ہے‘ بقول عبدالحمید عدم
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
کل جماعتی کانفرنس کی دو بنیادی اقسام ہیں‘ ایک وہ جو حکومت کی طرف سے بلائی جائے اور دوسری جو اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی خلاف بلائی جائے۔ حکومتی اے پی سی بہت ہی کم بلائی جاتی ہے اس کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی قومی ایشو پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ہو‘ اس کی بہترین مثال 17 دسمبر 2013ء کے سانحہ آرمی پبلک سکول کی ہے جس پر تمام حکومتی اور اپوزیشن پارٹیز کو بلا کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا جس کے نتیجے میں دہشتگردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان عمل میں آیا۔اگر ہم ماضی میں ہونے والی اے پی سیز کا جائزہ لیں تو6 مارچ 1988ء کو وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کانفرنس بلائی۔ اس اے پی سی میں بھی تمام جماعتوں نے شرکت کی تھی۔ بے نظیر کے اعتراض پر اس پارٹی میں صدر ضیا الحق کو نہیں بلایا گیا۔ 18 مئی 2009ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اے پی سی بلائی‘مقصد سوات آپریشن پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنا تھا۔ اس کانفرنس میں عمران خان اور نواز شریف سمیت تمام جماعتوں کی لیڈر شپ شامل ہوئی۔
اگر اپوزیشن کی جانب سے بلائی جانے والی اے پی سیز کی بات کریں تو یہ کہنا غلط نہیں کہ اپوزیشن کی اے پی سی کا مقصد حکومتی جماعت کی کارکردگی کو بے نقاب کرنا‘ حکومت کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف بے جا کارروائیوں کو منظرعام پرلانا اور غلط پالیسیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ حکومت کو ٹف ٹائم دینا بھی اپوزیشن کی جانب سے اے پی سی کا حصہ ہے‘ ماضی میں اپوزیشن کی 7 جولائی 2007ء کو لندن میں بلائی جانے والی اے پی سی پرویز مشرف کی حکومت سے جان چھڑانے کے لیے بلائی گئی۔اس کانفرنس میں نواز شریف نے (ن) لیگ کی جبکہ امین فہیم نے پیپلزپارٹی کی نمائندگی کی ۔اس روز بے نظیر پرویز مشرف سے خفیہ ملاقات کی وجہ سے کانفرنس میں شریک نہ ہوئیں۔ اسی طرح24 نومبر 2007ء الیکشن کے متعلق اے پی سی بلائی گئی ‘یہ اے پی سی ملک میں ایمرجنسی کے ہوتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کے حوالے سے ہوئی۔ کانفرنس میں (ن) لیگ‘ پی ٹی آئی‘ میپ‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی نے شرکت کی۔کانفرنس میں الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا‘ لیکن بعد میں (ن) لیگ نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد اپوزیشن نے پہلی اے پی سی 28 جولائی 2018ء کو کی‘ اس کانفرنس میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے 25 جولائی کے انتخابات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا‘مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے کے ساتھ منعقدہ انتخابات کو مسترد کرتی ہیں اور ہم ان کی اکثریت کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ایسی ہی ایک کانفرنس تین اگست کو بھی منعقد کی گئی جس میں سپیکر ‘ڈپٹی سیپکر اور وزیراعظم کیلئے اپوزیشن کے امیداروں کا فیصلہ کیا گیا‘ لیکن یہ اتحاد اس وقت ختم ہوگیا جب پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا۔26 جون 2019ء کو آل پارٹیز کانفرنس اورسینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم استحکام کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی اوراس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن نے کی۔ مولانا نے اپوزیشن ارکان اسمبلی کے استعفوں کی تجویز دی اس کے علاوہ انہوں نے 25 جولائی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا بھی مطالبہ کیا‘ لیکن کانفرنس کے اعلامیہ سے یہ دونوں چیزیں غائب تھیں۔ حکومت کے خلاف عملی اقدامات کے لیے رہبر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا اس کے بعد اپوزیشن نے حکومت کے خلاف اپنے پہلے عملی قدم کے طور پر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے وجہ سے یہ عمل کافی آسان نظر آیا اور لگ رہا تھا کہ اپوزیشن اپنا مقصد حاصل کر لے گی۔لیکن اپوزیشن بری طرح ناکام ہوئی۔اس ناکامی کا ملبہ اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے پر ڈالنا شروع ہوگئیں اوراپوزیشن اتحاد مظبوط ہونے سے پہلے ہی ختم ہونے کے راستے پر چل پڑا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آج ہونے والی اے پی سی بھی کچھ ایسا ہی اثر چھوڑے گی۔