تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     20-09-2020

حسیں بچپن کہیں کھو نہ جائے

بچے بہت معصوم ہوتے ہیں‘ ذرا سی تکلیف‘ چوٹ‘ تشدد اور حادثات ان کی شخصیت‘ نفسیات اور نشوونما کو متاثر کردیتے ہیں۔مارپیٹ‘ ڈانٹ ڈپٹ بچوں کیلئے بہت خطرناک ہے۔ یہ ان کی زندگی تباہ کردیتی ہے۔ہمارے ہاں عام رواج ہے کہ بچوں کو مارا جاتا ہے‘ ڈانٹا جاتا ہے اوربلاوجہ ڈرایا جاتا ہے کہ یہ نہ کرو‘ وہ نہ کرو‘ تمہیں جن بابا‘ فقیر یا بھوت پکڑ کر لے جائے گا۔بچے ڈرنا شروع ہوجاتے ہیں اور اپنی بات یا خوف کا اظہار کھل کر نہیں کر پاتے؛چنانچہ جب وہ گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو درپیش مشکلات سے وہ مزید سہم جاتے ہیں۔اگر کوئی انہیں مارتا ہے یا غلط انداز میں چھو لیتا ہے‘ ان کو لگتا ہے ان کی غلطی ہے‘ وہ چپ کرکے اذیت سہتے رہتے ہیں۔
بچے گھر سے باہر پڑھنے اور کھیلنے کیلئے جاتے ہیں اس کے ساتھ گھر کے کاموں کی وجہ سے بھی انہیں بازار بھیجا جاتا ہے۔جو بچے غربت کی چکی میں پسے ہوئے ہیں وہ کام کرنے کیلئے گھر سے نکلتے ہیں۔بچوں کیلئے خطرات ہر جگہ موجود ہیں۔حال ہی میں ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں چھوٹے بچے ٹیوشن سینٹر میں مار کھا رہے ہیں۔یہ ویڈیو دیکھ کر بہت سے والدین کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی کہ ان بچوں کے ساتھ باہرکیا ہورہا ہے۔اپنے بچوں کو کہیں بھی بھیج کر غافل نہیں ہوجاتے۔ بچوں کا خیال کرنا پڑتا ہے‘ کیونکہ بچے معصومیت اور ڈر خوف میں بات نہیں بتا پاتے۔بچے اگر مسجد یا مدرسے میں قرآن پاک پڑھنے جاتے ہیں تو ان کو خود لیں اور چھوڑ کر آئیں ۔ان کے معلم سے رابطے میں رہیں۔اگر آپ اس وقت گھر پر نہیں ہوتے تو بچوں کو گروپ کی صورت میں بھیجیں۔گلی کے بچے‘ کزنز‘ بہن بھائی مل کر جائیں۔مجھے یاد ہے ہم گلی کے آٹھ بچے مل کر مسجد قبا جاتے تھے ‘مسجد گھر کے بالکل سامنے تھی لیکن سیکٹر کی آبادی بہت کم تھی۔ قاعدہ قاری صاحب سے پڑھا اور اس کے مکمل ہونے کے بعد قاری صاحب بچیوں کو اپنی بیگم کے پاس قرآن پڑھنے بھیج دیتے تھے اور بچوں کو خود پڑھاتے۔قاری صاحب کے پاس ایک چھڑی ہوتی تھی جس سے انہوں نے کبھی کسی بچے کو مارا نہیں ‘ ہم سب بہت چھوٹے ہوتے تھے تو ہم میز پر سر رکھ کر سوجاتے یا باتوں میں لگ جاتے تو وہ میز پر ہلکا سے ڈنڈا مار دیتے تو شرارتیں‘ سرگوشیاں‘ مسکراہٹیں اور نیند ختم ہوجاتی اور سب ادب سے قاعدہ پڑھنا شروع ہوجاتے۔ ان کی بیگم آپا جی کے پاس سب پڑھتے بھی اور سپارہ پڑھنے کے بعد ان سے باتیں بھی کرتے۔دونوں نے طویل عمر پائی اور ان کے شاگرد ہمیشہ ان کا احترام کرتے رہے۔پھر سب بچے سر صابر سے ٹیوشن پڑھتے جو بہت قابل اور سخت گیر انسان ہیں‘ لیکن انہوں نے کبھی کسی بچے کو نہیں مارا‘ انکا رعب ہی کافی تھا۔اسی طرح جونیئر سکول یا ہائی سکول میں مجھے کبھی بھی سزا نہیں ملی۔ میڈم ریحانہ ہم سب کی کلاس ٹیچر تھیں‘ انہوں نے ہمیں نصاب کے علاوہ خوشخطی‘مضمون نویسی اورآدابِ زندگی سیکھائے اور قرآنی آیات بھی ہمیں یاد کروائیں۔انہوں نے پانچ سال ہمیں پڑھایا‘ مجھے نہیں یاد پڑتا کسی شرارت پر انہوں نے ہمیں مارا ہو۔ ہاں وہ چپ کرکے ناراض ہوجاتی تھیں‘ پھر ہم سوری کا کارڈ بناکر ان کو منالیتے تھے۔دوبارہ وہ شرارت نہیں کرتے تھے جس سے ہماری کلاس ٹیچر ناراض ہوں۔
پر شاید اب وقت بدل گیا ہے ‘معاشرہ غصے اور انتہاپسندی کا شکار ہوگیا ہے۔بچوں کو سکولوں‘ مدرسوں‘ ٹیوشن سینٹرز اور پارکوں میں مار پیٹ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔گلی محلوں اور بازاروں سے لوگ ان کو اٹھا کر جنسی تشدد کا نشانہ بناکر مار رہے ہیں۔ایک عجیب سے صورتحال ہے ‘بچے ہر وقت خطرے کی زد میں ہیں۔اولاد بہت بڑی نعمت ہے اور بچے اس دنیا کی رونق ہیں۔اپنی تمام تر مصروفیات کو ایک طرف رکھ کر یہ دیکھا کریں کہ آپ کے بچے کس قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔وہ چپ کیوں ہیں‘ کھانا ٹھیک سے کیوں نہیں کھا رہے‘ دوسروں سے گھل مل نہیں رہے تو وجہ کیاہے؟بچے کو اتنا اعتماد اور پیار دیں کہ اگر اس سے نادانستگی میں کوئی غلطی ہوجائے تب وہ آپ کو فوری طور پر بتائے۔ اس کو اتنا بھروسہ ہونا چاہے کہ آپ اس کی مکمل بات سنیں گے۔بچہ کوئی اچھا کام کرے تو اس کی تعریف کریں اور اگر شرارت یاغلطی کرے تو مارنے کے بجائے اس سے ناراض ہوجائیں ‘وہ خود ہی معافی مانگے گا اورآئندہ یہ کام نہیں کرے گا۔بچوں کو سکول ماں باپ خود لینے‘ چھوڑنے جائیں‘ اگر وین میں جائیں گے تو بہن بھائی یا گلی کے بچے مل کر جائیں۔بچوں کو یہ بتایا جائے کہ انہوں نے وین ڈرائیور اور سکول کے دیگر سٹاف سے فاصلہ رکھنا ہے۔ان کا رابطہ صرف اپنے اساتذہ سے ہونا چاہیے اور ان کو سینئرز سے بھی دوستی کی ضرورت نہیں۔ بچے اپنے ہم عمر بچوں میں کھیلیں۔سکول سے گھر آنے کے بعد یہ کوشش کی جائے کہ وہ ٹیوشن اور سپارہ گھر پر پڑھیں۔ان کو لاؤنج یا صحن میں بٹھائیں تاکہ آپ ان پر نظر رکھ سکیں۔کسی بھی شخص کے پاس یہ اختیار نہیں کی وہ بچے کو مارے۔اگر آپ کا بچہ کھیل رہا ہے تو آپ خود اس کے ساتھ بیٹھ جائیں یا پارک میں واک کرلیں۔اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر گھر پر انہیں کھلونے لا دیں۔اب وہ ماحول نہیں رہا کہ بچے گلی‘ بازار اور پارک میں اکیلے جائیں۔
بعض اوقات خواتین کچھ پکا کر بچوں سے کہتی ہیں تقسیم کریں‘ بچوں کو کسی کے گھر اکیلا مت بھیجیں‘ ایک برُا لمس بچے کی زندگی تباہ کرسکتا ہے۔بچوں کو گلی بازار اور سکول میں بڑوں سے دوستی مت کرنے دیں‘ یہ نقصان دہ ہوسکتی ہے۔اکثر لوگ بچوں کا اعتماد جیت کر انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔بچوں کو باہر درپیش مشکلات کے بارے میں آگاہی دیں۔اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کریں‘ ان کو تحفے دیں اور جیب خرچ دیں۔بچوں کی سرگرمیوں‘ دوستوں اور انٹرنیٹ پر سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔تمام تر احتیاط کے باوجود بھی بچے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ آسکتے ہیں اور ان کے ساتھ حادثات ہوسکتے ہیں۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی‘ ہراسیت‘ دھمکی‘ مار پیٹ ‘ بلیک میلنگ کی جاتی ہے ان کی ویڈیوز بنالی جاتی ہیں۔اس پر ان کو قصوروار مت ٹھہرائیں‘ ان کو تسلی اور حوصلہ دیں۔آپ کی توجہ اور پیار ان کا اعتماد بحال کرسکتے ہیں۔ویسے تو حادثات بچوں کے لباس کی وجہ سے نہیں ہوتے‘ لیکن میری رائے یہ ہے کہ بچوں کو مکمل لباس پہنائیں۔آج کل فیشن چل رہا ہے بچے بچیوں کو ایسے لباس پہنائے جارہے ہیں جس سے انکا جسم نظر آتا ہے۔ایسا لباس بچوں کو مت پہنائیں جس سے ان پر بار بار نظر جائے یا کھیلتے ہوئے ان کے پرائیویٹ پارٹ نظر آئیں۔بچوں کو مکمل لباس پہنائیں‘ اس طرح وہ کھیل کود کے درمیان چوٹ اور خراشوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔
اگر ہم ان بچوں کی بات کریں جو یتیم ہیں یا غریب طبقے میں پیدا ہوئے وہ استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں‘ ان سے بھٹوں‘ فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کروایا جاتا ہے۔یہ بچے ورکشاپوں‘ ہوٹلوں اور بازاروں میں کام کرتے ہیں۔سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں‘ غبارے بیچتے ہیں‘ کوڑا چنتے ہیں اور بوٹ پالش کرتے ہیں۔ گھروں میں ان کو ملازم بنا کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ‘ان کو غلام بنالیا جاتا ہے۔یہ بچے خوراک کی کمی ‘مار پیٹ‘ مشقت اور جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔تعلیم کے حق سے ان کو محروم رکھا جاتا ہے۔کچھ کیسز میں یہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ہم سب کو بچوں کو تاریکی سے نکالنا ہوگا‘ کہیں ان کا حسین بچپن تاریکی میں ڈوب نہ جائے۔اپنے اردگرد ایک بچے کی ذمہ داری خود اٹھالیں۔اس کا کھانا‘ تعلیم ‘کپڑے اور جیب خرچ اپنے ذمے لے لیں۔اس طرح بہت سے بچے جبری مشقت سے نکل جائیں گے اور معاشرہ آگے چل کر زیادہ خوشحال ہوجائے گا۔ جس کے ساتھ آپ نیکی کریں گے وہ آگے مزید لوگوں کے ساتھ نیکیاں کرے گا اور معاشرے میں بچوں سے محبت میں اضافہ ہوگا۔بچوں سے پیار اور شفقت سے پیش آئیں اور ان لئے ایک محفوظ معاشرے کی تشکیل دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved