ایک بار پھر وہی ہوا جس کا ڈر یا اندیشہ تھا۔ سوچنے والے امتِ مسلمہ کے اتحاد کے بارے میں سوچتے رہے ہیں۔ اس خواب کو حقیقی مفہوم میں شرمندۂ تعبیر کرنا انتہائی دشوار ثابت ہوتا رہا ہے۔ مسلم دنیا کے اندرونی اختلافات نے معاملات کو مزید بگاڑا ہے۔ یہ عمل اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اب اُمید کی کوئی کرن دکھائی بھی دیتی ہے تو بس ایک جھلک دکھانے کے بعد غائب ہو جاتی ہے۔ ایک زمانے سے‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کئی زمانوں سے امتِ مسلمہ پر غفلت سایا فگن ہے‘ انحطاط ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ عنایت علی خاں مرحوم نے خوب کہا ہے ؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا / لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
امتِ مسلمہ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایک طرف تو شدید انحطاط ہے اور دوسری طرف اِس کا احساس بھی نہیں۔ کسی بھی قوم یا امت کے لیے اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوسکتی ہے کہ زوال کا احساس بھی جاتا رہے۔
دنیا بدل رہی ہے۔ ویسے تو خیر دنیا کب نہیں بدلتی‘ مگر اس وقت تو واقعی ایک نئی دنیا منصۂ شہود پر آرہی ہے۔ کئی صدیوں کے بعد بیسویں صدی میں بہت کچھ بدلا تھا اور ایک نئی دنیا سامنے آئی تھی۔ اب فطری علوم و فنون میں غیر معمولی‘ بلکہ عقل کو دنگ کردینے والی پیش رفت نے پھر دنیا کو ایک نیا رنگ دینا شروع کردیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں شاندار پیش رفت نے ٹیلی کام سیکٹر کو حشر برپا کردینے والے تفاعل سے ہم کنار کیا ہے۔ اس کا نتیجہ فکر و عمل میں حیران کردینے والی تبدیلیوں کی شکل میں نمودار ہوا ہے۔ فکر و نظر پر اثر انداز ہونے والے عوامل نے طرزِ عمل بھی کچھ کی کچھ کردی ہے۔ دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ خوب سوچا جائے اور اپنی بہبود یقینی بنانے والے ہر معاملے کو اہمیت دی جائے۔ مشکل یہ ہے کہ اور تو سب کچھ ہو رہا ہے‘ بس یہی کام نہیں ہو رہا۔ کم از کم امتِ مسلمہ کی حد تک تو معاملہ یہی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک نیا دنیا ابھری۔ امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے سامنے آیا اور اس پوزیشن کا اُس نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ یہ فائدہ مسلم دنیا کے خلاف شدید مخاصمت کی فضا پیدا کرنے سے عبارت تھا۔ سرد جنگ تھی تو سوویت یونین کی شکل میں امریکا کے لیے ایک حریف موجود تھا۔ جب سوویت یونین شکست و ریخت کے مرحلے سے گزرا تو امریکا کی مراد برآئی۔ وہ ایک مدت سے یہی چاہتا تھا کہ بے فکری کے ساتھ عشروں تک پوری دنیا پر حکمرانی کرے۔ یورپ کے ساتھ مل کر اس نے یہی کوشش کی کہ مسلم دنیا اور دیگر خطوں کو قابو میں رکھا جائے۔ یہ سب کچھ بہت آسانی سے ممکن ہو جاتا مگر بُرا ہو مقدر کا کہ اُس میں چین بھی لکھا ہوا تھا۔ چین نے تیزی سے ابھر کر امریکا کے لیے شدید مشکلات پیدا کی ہیں۔
ایک حقیقت تو یہ ہے کہ امریکا واحد سپر پاور ہے مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری دنیا کو مٹھی میں لینے کے حوالے سے امریکا پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ یہ شدید دباؤ امریکا کی سکت پر بُری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ دنیا کو مٹھی میں لینے کے حوالے سے امریکی فوج پریشان کن حد تک over-stretched ہے۔ واشنگٹن کے لیے پالیسیوں میں توازن پیدا کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش بہت سے مفادات کو داؤ پر بھی لگارہی ہے۔ اس وقت امریکی معاشرہ بھی شکست و ریخت کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ نسل پرستی ایک بار پھر بہت بڑے عِفریت کی شکل میں منہ پھاڑ کر سامنے آئی ہے۔ سفید فام امریکیوں کے لیے ''کلرڈ امریکیوں‘‘ یعنی غیر سفید فام نسلوں سے نمٹنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ امریکی معاشرے میں معاشی اور معاشرتی سطح کی نا انصافیوں کو ایک بڑی اور شرم ناک حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا رجحان اب تک عام نہیں ہوا۔ امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر عشروں تک دنیا کو شدید مشکلات سے دوچار رکھا۔ کئی خطوں کو تاراج کرنے اور برباد رکھنے کی پالیسی پر انتہائی شرم ناک انداز سے عمل کیا جاتا رہا۔ مشرقِ وسطٰی اور افریقا اِس کی واضح ترین مثالیں ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں اور اُس سے قبل بھی مسلم دنیا امریکا و یورپ کے نشانے پر تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے پر یعنی سوویت یونین کی تحلیل کے بعد تو امریکا اور یورپ کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہی نہ رہی۔ اب وہ اپنی مرضی کا کھیل جی بھرکے کھیل سکتے تھے اور کھیلتے ہی آئے ہیں۔
یورپ کو بہت جلد اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ ہر معاملے میں امریکا کے لیے یس مین کا کردار ادا کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ بعض عسکری مناقشوں میں امریکا کا ساتھ دینے کی یورپ نے خاصی بھاری قیمت چکائی ہے۔ افغانستان اس کی واضح مثال ہے۔ متعدد یورپی ممالک کو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر شدید جانی و مالی نقصان جھیلنا پڑا۔ بروقت سبق سیکھتے ہوئے یورپ نے ہوش کے ناخن لیے اور اب وہ ہر معاملے میں آنکھ بند کرکے امریکا کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہا۔ خیر‘ یورپ مکمل طور پر ساتھ نہیں دے رہا ہے تو نہ سہی‘ مشرق وسطٰی کی بے حِس حکومتیں تو امریکا کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی مصر اور اردن کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے ساتھ ساتھ وسیع البنیاد تعاون کے معاہدے بھی کیے گئے ہیں۔ امریکا نے اس سلسلے میں ضامن کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی کی ایما پر ہو رہا ہے۔ مسلم دنیا کے دو اہم ممالک نے جس روش پر گامزن ہونے کا فیصلہ کیا ہے اُس کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے ع
یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا!
چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ ہوکر اُس کی راہ روکنے کے لیے امریکا نے اب ایک نیا بلاک کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ عرب دنیا امریکا سے مرعوب رہی ہے۔ خلیجی ریاستوں میں امریکی اثر و رسوخ ہمیشہ غیر معمولی رہا ہے۔ یہ نکتہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اگر کوئی بڑی رکاوٹ پیدا نہ ہوئی تو امریکا عرب دنیا کے کم و بیش تمام ممالک کو اس بات پر ''راضی‘‘ کرلے گا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ سوال اسرائیل کو تسلیم کرانے کا نہیں‘ افتراق و انتشار پیدا کرنے کا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے خطے میں وہ قوتیں زیادہ شدت سے مزاحمت کرسکتی ہیں جو اب تک اس بات کے حق میں نہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ یوں تقسیم در تقسیم بڑھے گی۔
امریکا نے ابراہیمی مذاہب کے اتحاد کا ڈول ڈال کر یعنی مسلمانوں‘ مسیحیوں اور یہودیوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناطے ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کرکے در حقیقت اسلامی دنیا کو تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ چین کی راہ مسدود کرنے کے لیے جو کچھ کیا جارہا ہے اس کے نتیجے میں اسلامی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ امریکا نے مشرقِ وسطٰی میں جو کھیل شروع کیا ہے وہ چند ماہ قبل ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا ردِ عمل لگتا ہے۔ سعودی عرب کے دباؤ پر پاکستان اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوا تھا۔ ترکی‘ ایران اور ملائیشیا نے ایک پلیٹ فارم پر آکر وسیع تر اسلامی اتحاد کی بنیاد رکھی ہے۔ ایسے میں امریکی قیادت کا تشویش میں مبتلا ہوکر تین بڑے مذاہب کو'' اخوت‘‘ کی لڑی میں پرونے کے منجن کے ساتھ میدان میں آنا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ یہ مسلم ممالک کے لیے اہم فیصلوں کی گھڑی ہے۔ انہیں طے کرنا ہوگا کہ امریکا کے ہاتھوں مزید ذلت سے دوچار ہونا ہے یا پھر چین سمیت تمام نئی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے متوازن طرزِ فکر و عمل کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔