تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     14-06-2013

پانیوں کے درمیان

بجلی کی کمی کا مسئلہ ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔ اسے بڑے اہتمام اور منصوبے کے تحت پیدا کیا گیا ہے اور ہم ان تمام عالمی کھلاڑیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ پاکستان میں توانائی کے وسائل‘ جنہیں ہمارے سائنسدان بروئے کار لا سکتے ہیں‘ انہیں ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت استعمال میں نہیں آنے دیا جا رہا۔ تازہ ترین واقعہ تھرکول گیسیفکیشن منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا ہے۔ ڈاکٹرثمرمبارک مند کی ٹیم نے انتہائی قلیل وسائل سے عملاً زیرزمین گیسیفکیشن کر کے‘ گیس بھی نکال لی اور ڈیزل بھی بنا کر دکھا دیا۔ لیکن بیوروکریٹس نے ان کی باربار درخواستوں کے باوجود‘ انہیں مطلوبہ فنڈز نہیں دیئے۔ وہ میڈیا پر گئے۔ حکمرانوں سے ملے۔ متعلقہ حکام کو پاکستان کا کیس سمجھایا۔ سب سمجھ گئے۔ لیکن انہیں مطلوبہ رقم نہیں دی۔ راجہ پرویزاشرف نے کئی ارب روپے اپنے‘ ایک حلقے میں سڑکیں بنانے کے لئے منظور کر دیئے لیکن پاکستان میں توانائی کا قحط دور کرنے کے لئے وہ رقم‘ جو صرف کروڑوں میں تھی‘ دینے سے انکار کر دیا۔ توانائی کے تمام ماہرین اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہمارے شمالی علاقوں میں جھرنوں اور چشموں کا پانی بڑی رفتار سے دریائوں میں گرتا ہے۔ ہم ہر جھرنے کے نیچے ایک ٹربائن لگا کر مفت کی بجلی حاصل کر سکتے ہیں۔آج سے تقریباً 30 سال پہلے ایک جرمن ادارے نے پیش کش کی تھی کہ اگر اسے اجازت دی جائے‘ تو وہ شمالی علاقہ جات میں چھوٹے چھوٹے ٹربائن لگا کر 10ہزارمیگاواٹ بجلی صرف ایک روپیہ فی یونٹ کے حساب سے فراہم کر سکتا ہے اور یہ منصوبہ 8سال میں مکمل کر لیاجائے گا۔ مگر پھر وہی لوگ آڑے آئے اور یہ منصوبہ آج تک فائلوں کے ڈھیر میں کہیں دبا پڑا ہو گا۔ نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی نے ٹرانسپورٹیشن کے لئے دریائی اور نہری نظام کو استعمال کرنے کا منصوبہ دیا تھا۔ اگر اس منصوبے پر کام شروع کر دیا جاتا‘ تو ہم ہزاروں ٹن ڈیزل بچا سکتے تھے لیکن اس منصوبے کو بھی پراسرار طریقے سے دبا دیا گیا۔اس میں بظاہر تو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کرپٹ اہلکاروںکامفاد نظر آتا ہے لیکن سپرپاورز کے ہر کاروبار میں سٹریٹجک منصوبے بھی ہوتے ہیں۔ پاور سیکٹر کسی بھی ملک کے لئے‘ شریانوں میں دوڑنے والے خون کی طرح ہوتا ہے۔ انرجی ہو تو کارخانے ‘ کھیت اور بازار آباد رہتے ہیں اور نہ ہو‘ تو ساری معیشت آہستہ آہستہ مفلوج ہونے لگتی ہے اور جس ملک کی معیشت مفلوج ہونے لگے‘ وہ کسی قسم کا دبائو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ہمیں اس حال کو پہنچا دیا گیا ہے۔ نوازشریف جو چند ہی روز پہلے مطلوبہ سے زیادہ اکثریت حاصل کر کے حکومت بنا چکے ہیں‘ انہیں آتے ہی اشارہ دے دیا گیا ہے کہ حکومت کے گھوڑے کی سواری طاقتور ترین منتخب لیڈر بھی آسانی سے نہیں کر سکتا۔ ابھی پارٹی اور حکومت کا ہنی مون بھی ختم نہیں ہوا کہ لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہروں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ۔ میں نے چند ہی روز پہلے لکھا تھا کہ اس حکومت کی بنیادوں میں بارود رکھ دیا گیا ہے۔ وہ بارود ہے‘ انتخابات میں دھاندلی کا الزام۔ یہ الزام انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے لگایا۔ میں نے اس پر لکھا تھا کہ یہ عجیب انتخابی نتائج ہیں‘ جنہیں تمام الیکشن لڑنے والی پارٹیوں نے دھاندلی بھی قرار دیا اورانہیں تسلیم بھی کر رہی ہیں لیکن نئی سیاسی طاقت یعنی تحریک انصاف کی قیادت‘ احتجاج کے حق سے دستبردار نہیں ہوئی۔ عمران خان نے عید کے بعد 25حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم چپ سادھ کر بیٹھ گئی ہے لیکن وہ کسی بھی وقت اپنے خاموش احتجاج کو‘ بولتے ہوئے احتجاج میں بدل سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے تواپنی شکست کو واضح الفاظ میں بیرونی طاقتوں کی سازش قرار دیا ہے۔مولانا فضل الرحمن دھاندلی کا الزام مسلسل دہرا رہے ہیں۔ بلوچستان کے قوم پرست لیڈروں نے انتخابات میں حصہ ضرور لیا لیکن دھاندلی پر وہ بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ اے این پی بے شک انتخابات میں شکست کھا کر چپ سادھ گئی ہے۔ لیکن ذرا سی ہلچل اسے متحرک کر سکتی ہے اور آزادگان کا جو کنبہ‘ ن لیگ نے اکثریت بنانے کے لئے جمع کیا ہے‘ اس کے پرندے ہلکی سی تالی پر اڑانیں بھرتے دکھائی دینے لگتے ہیں اور عوام کو سب سے زیادہ تکلیف دینے والی چیز لوڈشیڈنگ ہے۔ اسے ختم کرنے کی ذمہ داری خواجہ آصف کے سپرد کی گئی۔ وہ حکومت میں آنے سے پہلے اس شعبے میں انتہائی سرگرم تھے اور ان کی متحرک اور توانا شخصیت کو دیکھ کر اندازے لگائے جا رہے تھے کہ وہ بجلی نہیں دیں گے تو کم از کم حوصلہ ضرور دیں گے۔ مگر ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہ تیغ ستم نکلے خواجہ صاحب نے پوری وزارت کا جائزہ لینے سے بھی پہلے اعلان کر دیا کہ لوڈشیڈنگ پانچ چھ سال تک تو ختم نہیں ہو سکتی۔ گویا وہ اپنی جماعت کی مدت اقتدار کے لئے تو لوڈشیڈنگ کو نوشتہ دیوار کہہ گئے۔ آخری‘ یعنی چھٹے سال میں جو حکومت آئے گی‘ وہ لوڈشیڈنگ پر جواب دیتی پھرے گی۔ خواجہ صاحب نے تو اپنے آپ کو محفوظ کر لیا۔ سچی بات بھی یہی ہے کہ پاکستان کی لوڈشیڈنگ نہ کوئی حادثہ ہے اور نہ قدرتی آفت۔ یہ مین میڈ مصیبت ہے‘ جس کی نشاندہی میں کر چکا ہوں کہ ملٹی نیشنلز نے ہماری ریاست کے کرپٹ عناصر کو قابو کر کے ہماری پاور جنریشن کا نظام تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے اور وہ پاکستانی‘ جو اس مصیبت سے ہمیں نجات دلا سکتے ہیں‘ انہیں پوری طرح پیچھے دھکیلنے اور بے اثر کرنے کے بعد بٹھا دیا گیا ہے۔ میں گردوپیش میں بہت سی تبدیلیاں دیکھ رہا ہوں۔ اگر ان کا جائزہ لے کر دیکھا جائے‘ تو پاکستان کے حالات کے بارے میں بہتر اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ میں صرف ایک پہلو کی طرف اشارہ کروں گا اور وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ یعنی افغانستان سے اتحادی افواج کی واپسی۔ امریکہ‘ اس عمل میں کسی طرح کا خلل پسند نہیں کرے گا اور نہ ہی پاکستان کے پاور سٹرکچر میں کسی تبدیلی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ وہ انہی قوتوں کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہے گا‘ جن کے ساتھ وہ برسوں سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ وہ سب آزمودہ اداروں اور دوستوں کو‘اپنی اپنی حیثیت میں موجود دیکھنا چاہے گا۔ 2008ء میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت آئی‘ تو امریکہ نے چاہا تھا کہ پاکستان کے پاورسٹرکچر میں کچھ تبدیلی لا کر‘ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے دیرینہ منصوبے پر عملدرآمد کیا جائے۔لیکن اس وقت یہ کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں اور پیپلزپارٹی کی حکومت سرتوڑ کوشش کر کے بھی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اس حکومت کے جس مشیر اور وزیر نے ذرا سی تبدیلی لانے کی کوشش کی‘ اسے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب امریکہ کے پاس کسی تبدیلی کے وقوع پذیر ہونے کے انتظار کا وقت نہیں ہے۔ وہ ڈیڑھ سال کے اندر اندر افغانستان سے انخلا کے ایجنڈے پر عملدرآمد چاہتا ہے اور اس کے بعد وہاں اپنی حمایت یافتہ حکومت کو برقرار رکھنے کا بھی خواہش مند ہے۔ نوازشریف ایک طاقتور اور مستحکم جمہوری حکومت دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے لئے قدم قدم پر رکاوٹیں پیدا کر دی گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے وزیروں اور مشیروں کو جھٹکے لگنے میں کچھ وقت صرف ہوا تھا۔ یہاں تو انتظار ہی نہیں کرنا پڑا۔ آپ نے وزیراعظم کے مشیر طارق فاطمی کی ‘ امریکی سفارتکار سے ملاقات کی کہانی سنی ہو گی‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ طارق فاطمی کی سردمہری پر خفا ہو کر امریکی سفارتکار مصافحے کے بغیر چلے گئے۔ ہو سکتا ہے ایسا کوئی واقعہ ہی نہ ہوا ہو۔ لیکن جس کسی نے بھی یہ خبر میڈیا تک پہنچائی ہے‘ اس کا مقصد واضح ہے۔ امریکہ باہمی معاملات پر منتخب حکومت کے نمائندوں کے ساتھ‘ رابطے میں آنے سے گریزاں ہے۔ ہمیں اشارہ دیا گیا ہے کہ فی الحال پرانا طریقہ کار ہی موزوں رہے گا۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان میں اداروں کے درمیان اختیارات کی نئی کشمکش شروع ہو۔ وہ انخلا کا عرصہ سٹیٹس کو کی صورتحال میں ہی گزارنا چاہتا ہے۔ یہ امریکی ضرورت‘ پاکستان میں سٹیٹس کو برقرار رکھنے والی قوتوں کے حق میں جاتی ہے اور خلاف کس کے ہے؟ وہی جنہیں ماضی میں بھی سٹیٹس کو قائم رکھنے کی حامی قوتوں کے ہاتھوں زک اٹھانا پڑی۔جن دوستوں کو نوازشریف کے چہرے پر مسکراہٹ کی تلاش ہے‘ کیا انہوں نے خواجہ آصف کو نہیں دیکھا؟ اور اسحق ڈار کی مسکراہٹ پر غور نہیں کیا؟طوفانوں کا پتہ انہی کو ہوتا ہے‘ جو پانیوں کے درمیان ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved