سیلاب سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ زمین پر پہلے جو کچھ نظر آرہا ہوتا ہے‘ سیلاب آئے تو وہ سب مٹ جاتا ہے۔ سب کچھ زیرِ آب آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے دریائوں کے نزدیک رہنے والے اکثر لوگ سیلابوں کی تباہ کاریوں کے ہولناک مناظر عرصہ دراز سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ شدت زیادہ ہو‘ اچانک بادل چھم چھم برسیں‘ پہروں برستے ہی رہیں اور اگر ملک کا طول و عرض بادلوں کے چھاتے میں ہو تو سب میدانی علاقوں کے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ طوفانوں کی زد میں رہنے والے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں۔ سیلابوں کی بات چلی ہے تو اب ملک کا سب سے بڑا شہر‘ جہاں درختوں کے نہیں‘ عمارتوں کے جنگلات ہیں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے اگتے چلے جا رہے ہیں‘ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ پہلے تو اتنی شدت سے سیلاب نہیں آتے تھے‘ اب کیوں ایسا ہو رہا ہے؟ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں سیلاب تو پوری دنیا میں تباہی مچا رہے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ دراصل آبادی کا بڑھتا ہوا سیلاب ہے۔ جس تیزی سے گزشتہ ایک صدی میں دنیا کی آبادی بڑھی ہے اور اس عرصے میں پہلے کی نسبت تقریباً تین گنا ہو گئی ہے‘ اس کے اثرات ہر شعبۂ زندگی اور دنیا کے کونے کونے میں نمایاں ہیں۔ آج کل دو بری خبریں ماہرینِ ماحولیات اور فطرت پسند دانش وروں کے زیرِ بحث ہیں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ سائبیریا کے قدرتی جنگلات میں خوف ناک آگ بھڑک اٹھی ہے‘ جس کے لپکتے ہوئے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں میں رہنے والے نہ صرف اس آگ اور ان شعلوں کو دیکھ رہے ہیں بلکہ ان سے بری طرح متاثر بھی ہو رہے ہیں۔ ان کے لئے سانس لینا دشوار ہو رہا ہے اور معمولاتِ زندگی بھی درہم برہم ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس آگ کا بھڑک اٹھنا عالمی درجہ حرارت کے بڑھ جانے کے سبب ہے اور آگے چل کر اس آگ کی حرارت اور دھوئیں کی کثافتیں عالمی ماحول کو مزید گرم کر ڈالیں گی۔ ابھی تک تمام تر کاوشوں اور کوششوں کے باوجود آگ پھیلتی جا رہی ہے۔ یقینا آپ کو معلوم ہو گا کہ سائبیریا کا شمار دنیا کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے‘ اتنا سرد کہ سال بھر میں آٹھ ماہ یہ برف میں ڈھکا رہتا ہے۔
دوسری بری خبر یہ ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی میں برف کے پہاڑ نرم ہو کر سمندری پانی میں تحلیل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ خطۂ ارض ہے‘ جہاں سردی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ انسانی زندگی وہاں انتہائی دشوار ہے‘ تقریباً ناممکن۔ صرف کچھ آبائی باشندے مخصوص حفاظتی تدابیر کے تحت وہاں رہتے ہیں یا پھر سائنس دان مخصوص ماحول میں وہاں محفوظ جگہوں پہ رہ کر موسمی تبدیلیوں‘ سمندری حیات اور قدرتی وسائل کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں۔ ان علاقوں کی برف پانی بن کر سمندروں میں گرتی رہی تو اندیشہ ہے کہ اس صدی کے آخر میں بے شمار آباد جزائر سمندروں میں ڈوب جائیں گے۔ یہ جو ہمارے احباب‘ عام شہری ہوں یا کسی طاقت ور ملک کے سربراہ‘ صرف اپنی اور آج کی زندگی میں محو ہیں‘ وہ تیزی سے تپتے ہوئے ماحول اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو افسانہ قرار دے کر گمراہی میں پناہ لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب ٹھیک ہے‘ کچھ بھی نہیں ہو گا‘ اور دنیا اسی طرح چلتی رہے گی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ آج کے دور میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور آبادی کے پھیلائو پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ صنعتی ممالک میں طاقت ور اقتصادی مفادات ان سیاست دانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں جو قدرتی وسائل کو بے دریغ اور بلا روک ٹوک استعمال میں لانے کے حامی ہیں اور اس پر اصرار کرتے رہتے ہیں۔ امریکی صدر انہی میں سے ایک ہیں‘ مگر سب سے زیادہ زوردار آواز۔یہ بات سب کے علم میں ہے کہ اس غالب ریاست کے عمومی رویے عالمی سیاسی رجحانات کو متاثر کرتے ہیں؛ چناچہ ان کی دیکھا دیکھی برازیل کے صدر بھی ایمازون کے قدرتی اور بارشی جنگلات میں آگ لگانے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کر رہے ہیں بلکہ ان کا سیاسی دفاع بھی کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ اور برازیل کی قیادت میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں معیشت کی بڑھوتری کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ طرزِ زندگی کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ صنعتی معاشروں کا خوفناک پہلو یہ سوچ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیدا اور زیادہ سے زیادہ صرف یا استعمال کرو۔ ظاہر ہے زیادہ پیدا کرنے کے لئے قدرتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے‘ جن میں زمین اور پانی سرِ فہرست ہیں۔ شاد و نادر ہی آج کل ممکن ہو کہ کہیں کیمیاوی آلودگی سے پاک پانی میسر آ سکے‘ اور صنعتوں سے خارج شدہ زہریلے مادے زرعی زمین کو کثیف نہ کر چکے ہوں۔ فطرت سے لگائو رکھنے والے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی ایسا زمین کا ٹکڑا صنعت کاروں اور ان کے سیاسی گماشتوں کی ہوسِ زر سے بچا ہوا ہے تو اسے بچائے رکھا جائے: آلودہ نہ ہونے دیا جائے۔ بہت قلیل تعداد ہے ان لوگوں کی جو کرہ ارض کی قدرتی رعنائیوں سے محبت کرتے ہیں اور دنیا کو پہلے سے بہتر حالت میں چھوڑ کے جانے کی تمنا اور تڑپ رکھتے ہیں۔ ان کا مقابلہ عصرِ حاضر کے طاقت ور ترین صنعتی اور سیاسی گروہوں کے عالمی معیشت پر غلبے سے ہے۔
ان گروہوں کا یہ غلبہ صرف معیشت تک محدود نہیں‘ بلکہ عالمی سطح پر صنعتی طرزِ زندگی کو جدید ابلاغی ذرائع سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس ابلاغ کا نتیجہ یہ ہے کہ اب بڑے بڑے ترقی پذیر ممالک اور ان کے شہریوں کے بھی وہی خواب ہیں جو کبھی صنعتی ممالک کے باسیوں کے ہوا کرتے تھے۔ دور نہ جائیں‘ وطنِ عزیز میں گائوں سے لے کر بڑے شہروں تک آبادیوں کے بڑھتے ہوئے پھیلائو کو دیکھ لیں۔ گھروں کی تعمیر کے ڈیزائن‘ ان میں استعمال ہونے والے میٹریل سے لے کر اندرونی سجاوٹ اور آرائش تک سب اندھی تقلید کا نتیجہ ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارا بالا اور متوسط طبقہ کر رہا ہے۔ محض پاکستان نہیں‘ ہر ترقی پذیر ملک میں ایسا ہی ہے۔ ہر طرف دوڑ لگی ہوئی ہے کہ جدید سے جدید تر رہائش اور آسائش مہیا ہو۔ اس مقدس دھرتی‘ جو اپنا سینہ چیر کر ہماری خوراک‘ آرام اور ترقی کے لئے بہت کچھ مہیا کرتی ہے‘ کے بارے میں کون سوچتا ہے؟ کس کو اس کی فکر ہے کہ ماحول گرم سے گرم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ آبادی کا تیزی کے ساتھ پھیلائو ہے۔ زیادہ آبادیاں زیادہ قدرتی وسائل استعمال کرتی رہی ہیں‘ اس کا اثر یہ ہے کہ نہ زمین آلودگی سے پاک‘ نہ پانی صاف اور نہ ہی ہوا پاکیزہ اور تازہ۔ سمندروں کی آلودگی‘ دریائوں اور ندی نالوں میں گندے پانی کا نکاس‘ اور ان کے کناروں پر غیر قانونی آبادیاں آخر کس بات کی گواہی دے رہی ہیں؟ یہ کہ قدرتی وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کا سہارا نہیں بن سکتے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر حکومتیں مستحکم نہیں رہ سکتیں۔ ان کے ووٹ کی سیاست نے اہم قومی امور کو مصلحت کا شکار کر دیا ہے۔ سوائے ایوب خان کے‘ جنہوں نے اس وقت خاندانی منصوبہ بندی کو منشور بنایا تھا‘ جب آبادی تقریباً پانچ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ جوکام اس وقت ہوا تھا‘ ہماری ریاست جاری رکھ سکتی تو ہم موجودہ گمبھیر صورت حال سے بچ سکتے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ کچھ کریں‘ نہیں تو آپ ترقی کرنے کے باوجود وہیں رہیں گے‘ جہاں آپ ہیں‘ کہ قومی دولت اور قدرتی ذرائع آبادی پر تقسیم ہو کر محدود نظر آئیں گے۔ اس سیلاب کے خطرات بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔