تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-09-2020

تعمیل لازم ہے

وفاق نے کراچی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا ہے تو ہر طرف سے مختلف النوع آرا کا اظہار بھی گویا لازم سا ہوکر رہ گیا ہے۔ کوئی امید کی بات کر رہا ہے اور کوئی ڈرا رہا ہے۔ جنہیں اپنے مفادات کی ناؤ ڈوبتی دکھائی دے رہی ہے وہ اس بات کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کراچی اگر وفاق کے ہاتھ میں چلا گیا تو یہ ہو جائے گا‘ وہ ہو جائے گا۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاملات جوں کے توں رہے اور کراچی کے معاملے میں حکومتی یا ریاستی سطح پر مثبت اور مستحکم سوچ پروان نہ چڑھی تو مسائل کے انبار لگے رہیں گے اور معاملات کو درست کرنے کی کوئی سبیل نہ نکلے گی۔ اب تک کراچی کے لیے جتنے بھی اعلانات کیے گئے ہیں اُن کے حوالے سے ذہن کے پردے پر یہی ایک بات ابھری ہے کہ ؎
تو اور خیالِ خاطرِ اہلِ وفا کرے
امید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے!
وعدوں اور دعووں کا ایک دور چلتا ہے جس کے بعد اعلانات کی باری آتی ہے اور پھر تمام معاملات اعلان کی منزل میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ لوگ انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ اعلان یا اعلانات کے مطابق کچھ ہو مگر کچھ خاص ہوتا نہیں۔ پرنالے وہیں بہتے رہتے ہیں۔ معاملات کی درستی کا عمل تو کیا دکھائی دے گا، نیت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ اب کے معاملہ تھوڑا سا مختلف دکھائی دے رہا ہے۔ کراچی میں بنیادی ڈھانچا شدید شکست و ریخت سے دوچار ہے۔ لوگ بنیادی سہولتوں کے لیے بُری طرح ترس رہے ہیں۔ ہر اعتبار سے یہ ہنگامی حالت ہے۔ ایک طرف تو لوگ اُن سے مایوس ہیں جن کے ہاتھوں میں اب تک معاملات رہے ہیں اور دوسری طرف وہ وفاق کی طرف پُرامید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ گویا ع
غنچے اپنی فریادوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
کراچی کے معاملات اب تک جن کے ہاتھوں میں رہے ہیں اُنہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ دلوں سے نکل گئے ہیں، اب آنکھوں میں بھی کھٹک رہے ہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اب اُنہیں مزید برداشت کرنے کی گنجائش رہی نہیں۔ اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کر اُن کا وہی ردِعمل ہے‘ جو ہونا چاہیے۔ بدحواسی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ بیانات میں عوام کے لیے وعدے اور دعوے گھٹ گئے ہیں۔ پہلے معاملہ مشوروں تک محدود تھا، اب انتباہ کا رنگ غالب آتا جارہا ہے۔ کراچی کے معاملات درست کرنے کی جو کوششیں ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر کی جارہی ہیں اُن کے ممکنہ عواقب کا رونا روکر عوام کو ڈرایا جارہا ہے۔ دوسری طرف اہلِ کراچی کا یہ حال ہے کہ ؎
جانے نہ دوں گا ہاتھ سے دل اور جگر کو میں
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری نظر کو میں
شہرِ قائد کے مکینوں کی سوچ میں نام نہاد اپنوں کے لیے اب کوئی خاص گنجائش نہیں رہی۔ سبھی محسوس کر رہے ہیں کہ بس بہت ہوچکا، یہ شہر بہت روچکا۔ جن کے ہاتھوں میں اس شہر کے معاملات رہے ہیں اُن سے یہی شِکوہ ہے کہ ؎
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتا نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
ایک زمانے تک اہلِ شہر کا چلن یہ رہا کہ جس نے بھی ہنس کر، تھوڑی سی مروّت سے بات کی اُسے اپنا سمجھ لیا اور معاملات اُسے سونپ دی۔ مگر پھر کچھ ہی مدت میں بات کھل جاتی تھی۔ ایک طویل مدت تک کیفیت یہ رہی کہ ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
جس نے بھی راہبر ہونے کا دعویٰ کیا وہ بالآخر مفاد پرست نکلا۔ شہر کو درست کرنے کے نام پر جس نے بھی معاملات اپنے ہاتھ میں لیے اُس نے اپنے مفاد کی تکمیل و حصول کے بعد کونہ پکڑ لیا۔ ایسے ہر معاملے میں لوگوں کے سامنے ایک ہی چیلنج بچا ... یہ کہ ع
اب ''ہمیں‘‘ ڈھونڈھ چراغِ رخِ زیبا لے کر
اب تو حد ہی ہوگئی ہے۔ شہر کی حالت ایسی ہے کہ جن گلی کوچوں کو ایک عمر سے دیکھتے آئے ہیں وہی اجنبی سے لگتے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام اِس قدر خرابی کا شکار ہے کہ اب اُس کی اصلاح نہیں ہوسکتی، کچھ نیا لانا پڑے گا۔ شہر کی آبادی کو دیکھتے ہوئے بنیادی ڈھانچا انتہائی ناکافی ہے۔ محض لیپا پوتی یا نمائشی نوعیت کے اقدامات سے بات نہیں بنے گی۔ اب تو جو کچھ بھی کیا جانا ہے وہ انقلابی انداز سے کیا جانا ہے۔ سب کچھ بدل کر رکھ دینا ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر کچھ بھی ممکن نہیں۔ جو کچھ بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے اُسے ممکنات کے دائرے میں لائے بغیر چارہ نہیں۔ آرمی چیف کی کراچی آمد اور کاروباری برادری کو اعتماد میں لینے کے بعد وزیر اعظم نے کراچی آکر ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کے نام پر 1100 ارب روپے کے جس پیکیج کا اعلان کیا ہے اُس کی جامع تعمیل ہی تمام مسائل کا متوقع حل ہے۔ اس اعلان کو اعلان کی منزل میں اٹک کر نہیں رہ جانا چاہیے۔ نام نہاد سٹیک ہولڈرز کے پیٹ میں مروڑ کا اٹھنا حیرت انگیز بات نہیں۔ جن کے ہاتھ سے بہت کچھ یا سب کچھ جاتا دکھائی دے رہا ہو اُن کا پریشان اور بدحواس ہو اٹھنا کسی بھی درجے میں غیر متوقع نہیں۔ شور مچایا جائے گا اور مچایا جارہا ہے۔ ان لوگوں نے جو کچھ بھی تین چار عشروں کے دوران کیا اُسے دیکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اُنہیں شاید اِس بات کا یقین ہوچلا تھا کہ اب ہمیشہ معاملات جوں کے توں رہے ہیں۔ ناقص طرزِ حکمرانی اور کرپشن کے دریا کے بارے میں سوچ لیا گیا تھا کہ اب وہ بہتا ہی رہے گا، روانی میں کمی واقع نہ ہوگی۔ جب اختیارات و وسائل کی گنگا بہہ رہی ہو تو اُس میں اشنان کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ موسم بدل بھی سکتا ہے۔ 
اب کراچی کو میک اَپ کی نہیں، میک اوور کی ضرورت ہے۔ سب کچھ بدلنا لازم ہوگیا ہے۔ چند نمائشی اقدامات سے بات نہیں بنے گی۔ وفاق کو صوبائی اور مقامی قیادت کے ساتھ مل کر کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ اگر نئے کراچی پیکیج کی تعمیل و تکمیل کا معاملہ صوبائی و مقامی قیادت کے ہاتھ میں دیا گیا تو سمجھ لیجیے ایک بار پھر گئی بھینس پانی میں۔ اُنہیں نظر انداز تو نہیں کیا جاسکتا مگر خیر، اُن پر بھروسا بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اختیارات اور وسائل دونوں ہی معاملات میں بڑوں کو سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھنا ہوگا تاکہ بدانتظامی اور خورد برد کی گنجائش نہ رہے۔ وعدوں اور دعووں کے حوالے سے اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ اب نہیں ہونا چاہیے۔ کراچی کے لیے جس پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے اُس کی تعمیل لازم ہے۔ اِتنی بڑی رقم اگر شہر پر پوری دیانت کے ساتھ خرچ کردی جائے تو کم و بیش تمام ہی معاملات درست ہوجائیں گے۔ شہر کے بنیادی ڈھانچے کی محض اصلاح کافی نہیں۔ کہیں کہیں تو پورا ڈھانچا ہی بدلنا پڑے گا۔ صرف فراہمی و نکاسیٔ آب کا معاملہ ہی درست کرلیا جائے تو شہری واقعی سکون کا سانس لیں گے۔ وفاق اس امر کو یقینی بنائے کہ کراچی پیکیج کی تعمیل و تکمیل کی راہ میں کوئی بھی مافیا رکاوٹ نہ بنے۔ مفاد پرستوں کے ٹولے درندوں کی مانند شہر کو بھنبھوڑنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اِنہیں محض لگام دینا کافی نہ ہوگا، لازم ہے کہ اِنہیں سسٹم سے الگ کردیا جائے یا پھر کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ اِن کے زور پکڑنے کی گنجائش نہ رہے۔ شہر کو مختلف حوالوں سے قلت اور خرابی کا شکار کرکے مافیاز نے معاملات کو تباہی کی حد تک بگاڑا ہے۔ شہرِ قائد کے مکین چاہتے ہیں کہ اب کسی بھی شعبے کی مافیا کے لیے فروغ تو دور کی بات رہی، بقا کی گنجائش بھی نہ رہے۔ وفاق کو یاد رہے کہ اب کسی بھی اور آپشن کے مقابلے میں سختی زیادہ پسندیدہ آپشن ہے ع
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved