تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     22-09-2020

عمران خان اور آل پارٹیز کانفرنس

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چھٹی کے دن دو اتوار بازار لگتے ہیں ایک بازار پشاور موڑ جی نائن سیکٹر کے قریب اور دوسرا آبپارہ کے مقام پر جہاں پر اشیائے خورو نوش کچھ سستے داموں تو ملتی ہی ہیں لیکن ان اتوار بازاروں کی ایک اور خوبی بھی ہے کہ کم وبیش ضرورت کی تمام اشیایہاں ایک چھت تلے دستیاب ہوتی ہیں‘ اس لیے اتوار کے روز ان بازاروں میں بہت رش ہوتا ہے اور کم آمدنی کے ساتھ متوسط طبقے اور سفید پوش لوگ بھی ان بازاروں سے استفادہ کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ پوش ایریا کے لوگ بھی اپنی شناخت کو چھپاتے ہوئے اپنے ملازمین کو بھیج کر یہاں سے ہفتہ بھر کا سودا سلف منگوالیتے ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ تنخواہ دار طبقے کو ہوتا ہے کیونکہ ان کے وسائل محدود ہوتے ہیں ۔ان اتوار بازاروں میں بھی زیادہ تر سٹال بڑے تاجروں کے ہی ہوتے ہیں جہاں ان کے چھوٹے دیہاڑی دار اور تنخواہ دار ملازم مال فروخت کررہے ہوتے ہیں ۔ان اتوار بازاروں سے تمام طبقے فائدہ بھی اٹھارہے ہوتے ہیں اور ان بازاروں کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی اور وقت مقررہ سے پہلے ہی سہ پہر تک یہاں سے اچھا مال فروخت ہوچکا ہوتا ہے اور جو صارفین اور خریدار دیر سے پہنچتے ہیں ان کے ہاتھ ناقص اور بچا کھچا مال ہی لگتا ہے‘ تو وہ خریدار پھر پورے بازار پر ہی تنقید شروع کردیتے ہیں اور واویلا کرتے ہیں‘ جبکہ غلطی ان کی اپنی ہوتی ہے کہ وہ دیر سے آتے ہیں حالانکہ منڈی کا یہ طے شدہ اصول ہے کہ پہلے آئیے اور پہلے پائیے ۔
ایسا ہی کچھ اس اتوار کو وفاقی دارالحکومت میں سیاسی بازار میں دیکھنے کو ملا اور سیاست کا بازار اتوار کو خوب گرم ہوا۔ اس بازار کا اہتمام پوش ایریا اور ریڈ زون میں پاکستان پیپلزپارٹی نے کیا تھا ۔ آصف علی زرداری نے سیاسی بلوغت کو تازہ تازہ چھونے والے اپنے اکلوتے بیٹے بلاول کو میدان میں اتارا اور میزبانی کا اعزاز حاصل کیا ورنہ مولانا فضل الرحمان کب سے اس کوشش میں تھے کہ اے پی سی کا وہ اہتمام کریں‘ لیکن کوئی بھی بڑا مولانا کے سیاسی سٹال سے خریداری کے لیے تیار نہ تھا کیونکہ مردم شناس زرداری جانتے ہیں کہ مولانا کے پیچھے نواز شریف ہیں اور مولانا کا اگلا اتحاد پی پی پی سے نہیں بلکہ( ن) لیگ کے ساتھ ہوگا اور مولانا مذہبی کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے‘ جس کا اقرار وہ برملا اظہار کرچکے ہیں ‘ خاموشی سے مذہبی ووٹ کو ایک ٹوکرے میں جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ مذہبی ووٹ الیکشن میں (ن) لیگ کے حق میں استعمال ہوگا اور اس کا کوئی فائدہ پی پی پی کو نہیں پہنچ سکے گا۔آصف زرداری یہ بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف ایک لمحہ ضائع کئے بغیر موجودہ پارلیمانی سیٹ اَپ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں کہ خلفشار پیدا ہو اور ملک میں مارشل لاء لگ جائے تاکہ ان کی عدم موجودگی میں کوئی بھی کھیل نہ سکے اور پھر بحالی جمہوریت کی تحریک چلے اور جب بھی انتخابات ہوں تو وہ مقبول ترین لیڈر کے طور پر سامنے آئیں۔زرداری یہ بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف اسمبلیوں سے استعفے اور سندھ اسمبلی کیوں تڑوانا چاہتے ہیں‘ محض اس لیے کہ جلد از جلد انتخابات ہوں اور وہ ایک برادر ملک کے تعاون سے دوبارہ برسر اقتدار آ سکیں۔ زرداری صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ ماضی میں انہوں نے جب بھی (ن) لیگ پر بھروسہ کیا اور میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد کے لیے تعاون مانگا تو انہیں ہمیشہ عہد شکنی ملی‘ بلکہ آج جن جعلی اکاؤنٹس کیس کے مقدمے کا زرداری اور ان کے فیملی اینڈ فرینڈز کو سامنا ہے وہ تمام نواز شریف ہی کا تحفہ ہیں۔ اس لیے زرداری صاحب اب کئی بار ڈسے جانے کے بعد پھر شریف فیملی کے ہاتھوں مار کھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔
دوسری جانب اس وقت صرف دو خاندان اقتدار کی راہداریوں سے باہر ہیں‘ ایک نواز شریف فیملی اور دوسرے مولانا‘ جبکہ شہباز شریف مرکز میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور حمزہ شہباز پنجاب میں اس عہدے پر براجمان ہیں۔ آئندہ کا عبوری سیٹ اَپ تشکیل پانا ہو یا باقی اہم تعیناتیاں اس میں شہباز شریف فیملی کا ہی عمل دخل ہوگا‘ کسی اور کا نہیں۔ اس پس منظر میں سیاست کا بازار لگا اور نواز شریف نے ایک جذباتی تقریر کرکے میلہ لوٹنے کی کوشش کی اور چاہا کہ اسمبلیوں سے استعفے کا آپشن استعمال کیا جائے‘ لیکن پیپلزپارٹی نے صریحاً انکار کیا اور استعفوں کے آپشن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ردکردیا ۔پھر فوری تحریک چلانے کا مطالبہ سامنے آیا تو اسے بھی رد کردیا گیا۔ ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن نواز شریف اور مریم بی بی کو قبول نہیں کیونکہ اس صورت میں شہباز شریف کا ستارہ چمک سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے زرداری صاحب بھی تیار نہیں ہیں ‘وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ازلی سیاسی دشمن دوبارہ اقتدار میں آئیں ۔(ن )لیگ کی آخری کوشش ہوگی کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے قبل اسمبلیاں ٹوٹ جائیں تاکہ سینیٹ میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل نہ ہوسکے کیونکہ سینیٹ کے الیکشن کے نتیجے میں بھی (ن) لیگ اور مولانا کا صفایا ہوگا اور پی پی پی اور پی ٹی آئی کی سیاسی قوت میں اضافہ ہوگا‘ لہٰذا اے پی سی کے انعقاد سے اختتام تک زرداری سب پر بھاری رہے اور چار ماہ کا طویل روڈ میپ دے گئے۔ یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمان کی تقریر کے وقت لنک ڈاؤن کردیا گیا اور واحد تقریر مولانا کی نشر نہ ہوسکی۔ نواز شریف کی مکمل تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ ایک بہترین ڈش تیار کی جائے اور جب تیار ہوجائے تو پھر انہیں اس پکوان کو کھانے کے لیے بلالیا جائے۔
سیاست کے اس بازار کے انعقاد سے دو روز پہلے وزیراعظم عمران خان سے وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں ملاقات کا موقع ملا اور ان کے موجودہ سیاسی صورتحال پر خیالات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ شکست خوردہ کرپٹ مافیا اپنا لوٹا ہوا مال بچانے کے لیے ایک بار پھر جمع ہورہا ہے جس کا واحد مقصد لوٹ مار کرنا ہے‘ لیکن اب یہ مافیا دوبارہ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی اساس کی محافظ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے تصور کے عین مطابق ڈھالے گی۔ وزیراعظم صاحب نے کہا کہ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے پاکستان کے دشمن اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں اور ملک میں فرقہ واریت پھیلانا دشمن کا پراناحربہ ہے‘ لیکن پاکستان کے عوام باہمی رواداری احترام اور برداشت پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کم سن بچوں بچیوں اور گینگ ریپ کرنے والوں کو عبرتناک سزاؤں کے حق میں ہیں اور اس ضمن میں جلد قانون سازی کی جائے گی۔ وزیراعظم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی شکست پر بہت خوش تھے کہ اہم ترین قانون سازی پر اپوزیشن کو واضح شکست ہوئی اور اپوزیشن کا پاکستان مخالف ایجنڈا اور ذہنیت بھی واضح ہوگئی ہے انہوں نے بتایا کہ اب آئندہ بھی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر قانون سازی کی جائے گی۔وزیراعظم صاحب نے کہا کہ پاکستان اس وقت صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اور خوش حالی اور ترقی کاسفر شروع ہوچکا ہے اس لیے اسے سبوتاژ کرنے کے لیے بدعنوان مافیا جمع ہورہا ہے ۔وزیراعظم صاحب نے کہا کہ احتساب بلا امتیاز سب کا ہوگا اور کسی کو بھی پاکستان کی نظریاتی اساس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ملاقات میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز بھی موجود تھے ۔وزیراعظم صاحب اپنا بیانیہ یعنی احتساب کا نعرہ چھوڑنے کے لیے بالکل تیار نظر نہیں آئے‘ البتہ انہوں نے بتایا کہ اب ڈلیور کرنے کا وقت آچکا ہے اور اب ایسا ہی ہوگا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved