تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-09-2020

ایک ملاقات کا حال

یہ عاجز دربار اور سرکار سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں‘ بس مزاج کی بات ہے۔ ضروریات محدود اور خواہشات محدود تر ہوں تو منتظروں کی قطار میں کون لگے اور کیوں کھڑا ہو؟ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے حالیہ دورہ ملتان سے چند روز قبل ایک دوست نے کہا کہ مجھے اپنی طبیعت کے برعکس بزدار صاحب سے مل لینا چاہیے۔ میں نے اس دوست سے پوچھا: یہ کس کی خواہش ہے؟ دوست نے ہنس کر کہا:آپ خود سمجھ دار ہیں۔ میں نے کہا: آپ میرے بہت ہی پرانے دوست ہیں اور آپ کو بخوبی پتا ہے کہ میں بالکل بھی سمجھدار آدمی نہیں ہوں‘ اب بتائیں؟ اس نے کچھ بتانے کے بجائے مجھے کہا کہ آپ کو اپنے شہر کیلئے‘ اس وسیب کی بہتری کیلئے اور علاقے کے لوگوں کی سہولت کیلئے بزدار صاحب سے ملنے میں کیا امر مانع ہے؟ میں نے کہا: ہرگز کوئی مسئلہ در پیش نہیں‘ لیکن اتنا کچھ لکھنے کے بعد بھی ان سے ملنا مجھے کچھ مناسب نہیں لگتا۔ وہ دوست کہنے لگا: آپ نے خوب کہی‘ لکھا آپ نے ہے اور ملنا بھی آپ ہی مناسب نہیں سمجھتے۔ کم از کم یہ اختیار تو آپ اُس کو بخش دیں جس کے خلاف آپ لکھتے رہے ہیں۔ اس صورت میں آپ سے ملنے یا نہ ملنے کا فیصلہ کرنا بزدار صاحب کیلئے زیادہ مناسب ہو گا نہ کہ آپ کیلئے۔
ہمارے پرانے دوست خواجہ جلال الدین رومی بھی کئی ماہ سے اصرار کر رہے تھے کہ علاقے کی بہتری اور لوگوں کی آسانیوں کیلئے اور اپنی تجاویز کو اوپر تک پہنچانے کیلئے مجھے وزیراعلیٰ سے مل لینا چاہیے۔ بات مذاق میں ٹل جاتی تھی لیکن اس بار دوستوں نے غالباً ایکا کر لیا تھا۔ دو دوستوں نے تو باقاعدہ گھیر لیا‘ نام کیا لکھنا‘ یہ ملتان سے تعلق رکھنے والے وہ دوست ہیں جو عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں اور قدرت کے عمومی قانون کو سامنے رکھیں تو انہوں نے ممکنہ طور پر میرے سفرِ آخرت میں میری چارپائی کو کاندھا دینا ہے بھلا ان کو انکار کیسے کیا جا سکتا تھا‘ سو میں نے ہامی بھر لی۔ لیکن بے اعتباری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے میرے اقرار کے بعد بھی کئی بار فون کر کے یقین دہانی لی۔ رات کو آخری فون ساڑھے بارہ بجے آیا تو میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ آپ نے اگر اب بھی یقین نہ کیا تو میں آپ کی اس بے یقینی کو سچ ثابت کر دوں گا۔ دوسری طرف سے ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا اور فون بند ہو گیا۔ اور ہاں! یاد آیا اس ملاقات کیلئے ہامی بھرنے میں اپنے عزیز دوست راجہ جہانگیر کا اصرار بھی ایک عرصے سے شرمندہ کیے ہوئے تھا۔ صبح اُٹھ کر میں نے ملتان کو در پیش چند مسائل ایک کاغذپر منتقل کیے۔ لمبی چوڑی تفصیل کے بجائے محض یک سطری پوائنٹس پر مشتمل کل نو سطریں لکھیں اور اپنا یہ ایجنڈا بغل میں دبا کر ملاقات کیلئے تیار ہو گیا۔
یہ ہماری پہلی اور ون آن ون ملاقات تھی۔ میرا بزدار صاحب سے کوئی ذاتی مسئلہ تو تھا نہیں۔ صرف کارکردگی پر شکوک تھے‘ بلکہ شکوک بھی کیا‘ یقین بھرے شکوک کہیں اور یہ شکوک اب بھی ہیں کہ جب تک آپ کی کارکردگی ان یقین بھرے شکوک کو غلط ثابت نہیں کرتی یہ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے۔عثمان بزدار صاحب بڑے تپاک سے ملے اور چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ وہ میرے اور اپنے مادر علمی ایمرسن کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کر کے آئے ہیں۔ میں نے کہا: اچھی بات ہے کہ آپ نے اپنے مادر علمی کو اس دورے میں یاد رکھا لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس سے نشتر میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے والا معاملہ یاد آ گیا ہے۔ ساڑھے تین سال ہو گئے نشتر میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملے اور عالم یہ ہے کہ نشتر میڈیکل کالج سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات کو اب بھی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈگری جاری کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کا سٹیٹس ملنے کے بعد کسی ادارے کو جو پہلا اختیار ملتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ڈگری ایوارڈنگ تعلیمی ادارہ بن جاتا ہے۔ یہ اچھی یونیورسٹی ہے کہ گزشتہ تین سال سے اس کے امتحانات بھی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لے رہی ہے اور ڈگری بھی وہی جاری کر رہی ہے۔ صرف وائس چانسلر لگا دینے سے یونیورسٹی تو نہیں بن جاتی۔ پھر میں نے وزیراعلیٰ کو یاد دلایا کہ نشتر میڈیکل کالج میں فیکلٹی نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اتنی کم ہے کہ اگر یہ کوئی پرائیویٹ میڈیکل کالج ہوتا تو شاید اب تک اس کا الحاق اور رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہوتی۔ ایسے میں ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنانے والا معاملہ کوئی زیادہ سمجھ نہیں آ رہا۔
میں نے بزدار صاحب کو بتایا کہ میرا اہلِ اقتدار سے تعلق کبھی بھی خوشگوار نہیں رہا اور اس میں قصور ان کا نہیں سراسر میرا ہی ہے‘ تاہم جہاں ملاقات بے فائدہ نظر آئے اور یہ بھی پتا ہو کہ حکمران بذاتِ خود عقلِ کل ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کو بزعمِ خود عقلمندانہ مشورے دینا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ہوتا اور میں کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم اس حماقت کا ارتکاب نہ کروں۔ زندگی میں اور بہت سی حماقتوں کا بیڑہ پہلے سے اٹھا رکھا ہے‘ اب اس میں مزید اضافہ کیا کرنا؟ میں نے انہیں بتایا کہ میرے تعلقات کی نوعیت صرف میاں شہباز شریف سے کسی حد تک مناسب تھی اور اس کا سو فیصد کریڈٹ میاں شہباز شریف کو جاتا تھا کہ میرے مسلسل ان کے خلاف لکھنے کے باوجود وہ اپنی عمومی طبیعت سے قطع نظر میری تنقید کو نظر انداز کرتے تھے اورنہ صرف یہ کہ کالم پڑھتے تھے بلکہ ان پر ممکنہ حد تک ایکشن بھی لیتے تھے۔ ایک بار کہنے لگے :آپ ان چند کالم نگاروں میں سے ایک ہیں جو مجھ پر بہت تنقید کرتے ہیں لیکن مجھے پتا ہے کہ آپ کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں۔ آپ کسی کے ترجمان نہیں اور آپ کومجھ سے کوئی ذاتی عناد نہیں۔ آپ جو درست سمجھتے ہیں لکھ دیتے ہیں اور میں آپ کا اسی وجہ سے احترام کرتا ہوں۔ یہ بات سن کر عثمان بزدار مسکرائے اور کہنے لگے :میرا بھی آپ کے بارے میں یہی خیال ہے۔
میں نے کہا: سردار صاحب (یاد رہے کہ سردار عثمان بزدارسے ساری گفتگو سرائیکی میں ہو رہی تھی) ملتان‘ جنوبی پنجاب اور وسیب کیلئے میں کسی کے پاس بھی چل کر جا سکتا ہوں۔ باہر بے شمار لوگ اور ایک جلسہ آپ کا منتظر ہے۔ یہ ایک کاغذ ہے جس پر نو عدد تجاویز ہیں‘ ملتان تا ہیڈ محمد والا روڈ کو دو رویہ کیا جائے‘اس کے دونوں طرف سرکاری زمین بھی موجود ہے۔ ملتان شہر کی سرکلر روڈ کو کھلا کیا جائے۔ نشتر ہسپتال کا مینٹیننس کا سالانہ بجٹ اڑھائی لاکھ روپے ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم والا معاملہ ہے‘ اس کی مکمل اوور ہالنگ کروائی جائے۔ سڑسٹھ سال پرانی بلڈنگ کے باتھ رومز کو دوبارہ سے بنایا جائے۔ نشتر ہسپتال میں پارکنگ پلازہ بنایا جائے۔ ملتان میں پیٹ سکینر (PET Scanner) لگایا جائے‘ کراچی اور لاہور کے درمیان تیرہ سو کلو میٹر میں یہ سہولت میسر نہیں۔ پبلک لائبریری قلعہ کہنہ قاسم باغ کی تزئین نو اور بحالی کی جائے۔ ملتان میں جم خانہ بنایا جائے۔ پھر میں نے ہنس کر کہا کہ یہاں ایک اور کلب ہے اس کی ممبر شپ کی درخواست دی تو دو میٹرک پاس سپاہیوں نے دفتر میں آ کر ڈیڑھ گھنٹہ انٹرویو لیا اور پھر لکھ دیا کہ درخواست گزار سکیورٹی رسک ہے اسے کلب کی ممبر شپ نہ دی جائے۔ ضرورت ہے کہ یہاں کوئی ایسا کلب بھی ہونا چاہیے جس کیلئے میٹرک پاس سپاہیوں کو انٹرو نہ دینا پڑے۔ اور آخری بات یہ کہ جنوبی پنجاب کی معیشت کا بنیادی دارومدار زراعت پر ہے اور اس میں بھی کپاس‘ اب یہ فصل یہاں ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کو بچانے کیلئے پہلا قدم پتہ مر وڑ وائرس سے محفوظ بیج کی تیاری ہے۔ فی الحال یہی گزارشات ہیں‘ ان پر کس حد تک عمل ہوتا ہے یہ جلد ہی پتا چل جائے گا۔ آئندہ کے تعلقات اور ملاقات کا امکان ان کے نتائج سے جڑا ہواہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved